ضمیر بابا کی زبانی!

محمد حیات

دریا کے کنارے کنارے گھنی جھاڑیاں کائی اور دیگر خود رو قسم کے درخت کثرت سے پھیلے ہوئے تھے جن کے درمیان تنگ سا راستہ تھا۔ میں اپنے خچر پر بیٹھا عام سی رفتار سے جا رہا تھا۔ پورا علاقہ حشرات الارض سے بھرا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اگرچہ دوپہر کا وقت تھا لیکن طرح طرح کی آواز میں فطری موسیقی کی ایسی ’’لے‘‘ ترتیب دیتی معلوم ہوتی تھیں جس میں دہشت انگیزی کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ آج کل وہ سارا علاقہ آباد ہو چکا ہے، کھیت بن گئے ہیں اور کہیں عمارتیں کھڑی ہیں۔ فصلوں پر لوگ ادویات چھڑکتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے حشرات الارض بھی معدوم ہو چکے ہیں لیکن اس وقت صورت حال بالکل مختلف تھی۔ خچر سے نیچے اترتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا تھا کہیں سانپ وغیرہ نہ کاٹ لے۔
میں اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔ تقریبا تین چار میل کا سفر طے کیا تھا لیکن اس دوران میں نے بھاگتے ہوئے گیدڑیا لومڑی یا حشرات الارض کے سوا کوئی جاندار نہیں دیکھا تھا۔ گرمی شدت سے پڑ رہی تھی۔ اچانک ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے ایک شخص کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا تھا۔ میں نے اپنی ’’شل‘‘ (اس زمانے کا کوئی ہتھیار تھا) سنبھالی اور خچر سے اتر پڑا۔ میں نے آواز دی تو وہ لڑکی خون آلود چھرا ہاتھ میں لیے میری طرف بڑھنے لگی۔ وہ ڈگمگا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے دہشت زدگی نمایاں تھی۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا اور سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ وہ راستے کے کنارے بیٹھ گئی۔ وہ حسن کا پیکر تھی لیکن میں نے ایسی ظالم حسینہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جس نے ایک تنومند نوجوان کو قتل کردیا تھا۔ پھر بھی اس کی حالت پر مجھے بے اختیار رحم آنے لگا تھا۔ میں نے اپنے پہلو سے لٹکتا ہوا مٹی کا برتن اتارا جو پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اسے ہم لوگ ’’بطخ‘‘ کہتے تھے اور سفر کے دوران پانی سے بھر کر پہلو سےلٹکا لیا کرتے تھے۔
میں نے پانی کا برتن اسے دے دیا۔ وہ غٹاغٹ پانی پینے لگی۔ میں نے حیرانی کے عالم میں پوچھا: ’’بی بی! تو نے یہ کیا کیا ہے؟‘‘
وہ لرزتی ہوئی آواز میں کہنے لگی: معلوم…‘‘
میں نے کہا: ’’تو کون ہے اور اس شخص سے تیری کیا دشمنی تھی؟‘‘
اس نے جواب دینے کے بجائے مجھ سے پوچھا:
’’کیا تیری کوئی بہن ہے؟‘‘
میں نے کہا:’’نہیں۔ لیکن میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دے۔‘‘
اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سر اٹھایا اور رحم طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی: ’’کیا تو مجھے اپنی بہن بنالے گا؟‘‘
اتنی غیر متوقع بات سن کر میرے کان شائیں شائیں کرنے لگے۔ چند لمحوں کے لیے میں نے اپنے دل پر بوجھ سا محسوس کیا۔ ایک اکتاہٹ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا:’’ پتہ نہیں کون ہے اور خوامخواہ گلے پڑ رہی ہے اور وہ بھی بہن بن کر۔ ایسی خونخوار بہن کو میں کیا کروں؟‘‘
میری خاموشی کو دیکھ کر کہنے لگی: ’’پھر پوچھنے کا کیافائدہ؟ آپ جائیے۔‘‘
وہ خوبصورت شکل و صورت کی مالک تھی۔ میں نے اس کے خون آلود ہا تھوں کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ نرم و نازک اور انگلیاں لمبی تھیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ جس شخص کی ہاتھوں کی انگلیاں لمبی ہوں وہ خوش قسمت ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ معلوم ہو رہا تھا۔ اتنی خوبصورت اور نرم و نازک کلی میرے سامنے ایک قاتلہ کی صورت میں بیٹھی تھی۔ کشادہ اور اونچی پیشانی میں چاند کی سی چمک تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں رحم کی طلب نمایاں تھی۔ وہ مجھے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پنجرے میں قید ہرنی اپنے صیاد کو دیکھا کرتی ہے۔ اس کی نگاہوں میں کوئی ایسی تاثیر تھی کہ اس نے میری کایا ہی پلٹ دی۔ جانے کیا سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
میں نے کہا: ’’اٹھ ! میری بہنا! آ تجھے میں اپنے گھرلے چلوں۔‘‘
اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ خچر پر سوار ہو گئی اور میں باگ ہاتھ میں لے کر آگے آگے چلنے لگا۔ پھر ہم دریا کے کنارے پہنچے اور میرے کہنے پر اس نے اپنے کپڑوں سے لہو کے داغ دھوئے۔ میں کیکر کے درخت کے سائے میں بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اب مجھے پریشانی ہو رہی تھی۔ ’’میں امن پسند اور شریف انسان ہوں ۔ عورتوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ کی کسی مصیبت میں نہ پڑ جاؤں ۔ ‘‘ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ وہ آکر میرے پاس بیٹھ گئی۔
میں نے ذرا درشت لہجے میں کہا: ’’اپنی کہانی سناؤ۔‘‘
اس نے کہا: ’’جب مجھے بہن بنالیا تو پھر کیا پوچھنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سوچ میں پڑگئی۔ ابھی تک وہ گھبرائی ہوئی تھی۔ آخر کار اس نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔
وہ کہنے لگی: ’’یہ نوجوان مجھے پسند تھا۔ ہم ایک دوسرے کو چاہتے تھے لیکن بڑے مخفی طریقے ہے۔ ہماری چاہت کا کسی کو علم نہ تھا۔ دراصل یہ ہمارے دور کے ایسے رشتے داروں سے تھا جن سے ہم پردہ نہیں کرتے تھے۔ پھر اس نے مجھ سے شادی کرنا چاہی۔ جب اس کی والدہ میرا رشتہ مانگنے آئی تو میری والدین نے صاف انکار کر دیا۔
جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکی اور ایک دن اپنی ماں سے انکار کی وجہ پوچھ بیٹھی۔ میری ماں کو یہ بات اتنی بری لگی کہ اس نے مجھے پیٹ پیٹ کر نڈھال کر دیا اور پھر غصے میں بولی:’’اس لڑکے کی ماں کو اس کا باپ کہیں سے بھگا کر لایا تھا۔ ایک بھاگی ہوئی عورت کے بیٹے سے تیری شادی کس طرح کر دیں۔ تجھے معلوم ہے کہ ہمارے ہاں لڑکوں کو پسند کا اختیار نہیں اور لڑکی ہوتے ہوئے بھی تو نے اتنی بے حیائی کی بات کتنی آسانی کے ساتھ اپنے منہ سے نکال دی ہے۔ اگر تیرے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نکلی جس سے یہ معلوم ہوا کہ تجھے کوئی لڑکا پسند ہے تو تجھے تیرا باپ زندہ گاڑ دے گا۔‘‘ اس واقعے کے بعد میں سہم گئی۔
کچھ عرصہ ذہنی کشمکش اور سخت پریشانی کے عالم میں گزر گیا۔ مجھے رہ رہ کر اپنی بے بسی کا احساس ہوتا اور ’’ارشد‘‘ کا سوچ کر ترس آنے لگتا اور اس کے یہ الفاظ یاد آتے:’’اگر تجھے نہ پا سکا تو پھر اس زندگی سے کیا لینا۔‘‘مجھے اپنے سارے ماحول ہی سے نفرت ہو گئی۔
ایک دفعہ ایک شادی کے موقع پر ’’ارشد‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ شادیوں کی گہما گہمی میں ایسی مواقع مل ہی جاتے ہیں۔ بہر حال میں اس کی التجاؤں اور مکر و فریب کے آنسوؤں کے جھانسے میں آگئی اور ہم دونوں نے بھاگنے کا منصوبہ بنالیا۔
ایک رات میں چپکے سے گھر سے نکلی۔ جائے مقررہ پر ارشد گھوڑا لیے گھڑا تھا۔ اس نے گھوڑے پر مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ بقیہ رات اور اگلا دن ہم نے گھوڑے پر سفر کیا۔ شام کو یہاں سے چند میل کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے، وہاں پہنچے۔ ارشد نے مجھے ایک مولوی صاحب کے گھر بھیج دیا۔
مولوی صاحب بڑے نیک سیرت شخص تھے، وہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ جب ارشد مجھے لینے آیا تو وہ بڑی شفقت سے مجھے ایک کمرے میں لے گئے اور کہنے لگے: ’’بیٹی! اگر بھاگ کر آئی ہے تو مجھے بتا دے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں…..‘‘
میں نے کہا: ’’مولانا صاحب! کوئی لڑکی کسی کے ساتھ گھر سے ایک بار نکل جائے تو پھر وہ واپس اپنے گھر جا سکتی ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے کہا: ’’بیٹی! تیری شکل صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اچھے خاندان سے تیرا تعلق ہے۔ میں لوگوں کے رشتے کرواتے کرواتے بوڑھا ہوچکا ہوں۔ میں چہروں سے لوگوں کو پہچان جاتا ہوں۔ میرے خیال میں تو نے کوئی غلط قدم اٹھالیا ہے۔ اگر تو یہاں رہنا چاہے تو میری بیٹی کی حیثیت سے رہے گی۔‘‘
میں نے کہا:’’مولوی صاحب! یہ میرے شوہر ہیں۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگے:’’بیٹی! ایک بات یاد رکھنا۔ دنیا میں ایمان کے بعد سب سے قیمتی چیز عزت ہوتی ہے اور پٹھان لوگ عزت پر جان دے دیا کرتے ہیں‘‘ اور پھر انہوں نے مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔
ارشد نے گھوڑا اسی قصبے میں بیچ دیا تھا اور وہاں سے ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے یہاں پہنچے ۔ یہاں پہنچ کر معلوم نہیں اسے کیا ہو گیا تھا کہ اس نے دست درازی شروع کر دی۔ میں نے کہا:’’ ارشد ! عقل کے ناخن لو! جس قصبے میں ہم نے رات گزاری، وہیں نکاح پڑھوا لیتے۔‘‘
ارشد نے قہقہہ لگایا: ’’تیری ماں نے میری ماں سے کہا تھا کیا میں ایک بھاگی ہوئی کے بیٹے سے اپنی بیٹی بیاہ دوں۔ کم از کم ایسے میری ماں کے سامنے تو یہ بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تجھے بھگا لے جاؤں گا۔ پس تجھے میں لے آیا، اب تو میرے رحم و کرم پر ہے۔ میں جو سلوک چاہوں کر سکتا ہوں۔‘‘
میں نے اسے تھپڑ رسید کردیا تو اس نے کہا: ’’اب تو میں تجھے داشتہ بنا کر رکھوں گا۔‘‘
یہ سنتے ہی میرا خون کھول اٹھا۔ میں نے نیفے میں اڑ سا ہوا خنجر نکالا اور اسے قتل کر دیا۔
پھر وہ کہنے لگی:’’میں نے تجھے اپنا نام نہیں بتایا۔ ارشد کے قتل کے بعد مجھے خود آگاہی نصیب ہوئی۔ میرے والدین نے میرا جو نام رکھا تھا میں اس کی اہل نہیں اور آج سے میرا نام ’’حماقت بی بی‘‘ ہو گا۔‘‘
میں اس نام کا مطلب نہ سمجھتا تھا، چنانچہ میں نے کیا ’’یہ نام خوبصورت ہے ۔‘‘ کافی عرصہ بعد ایک پڑھے لکھے آدمی نے بتایا کہ حماقت کے معنی تو بے وقوفی کے ہوتے ہیں۔
میں نے کہا: ’’حماقت بی بی! تو مجھے اپنے گاؤں کا پتہ بتادے میں تجھے عزت و احترام کے ساتھ وہاں پہنچا دوں گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’وہاں جانے کا مطلب موت کے سوااور کچھ نہیں ۔‘‘
میں ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ میرے والد صاحب نے جو دیکھا تو سمجھے میں اسے بھگا لایا ہوں۔ فوراً اٹھے، دیوار سے لٹکتی دو تلواریں اتاریں اور ایک کو میری طرف پھینکتے ہوئے کہنے لگے: ’’ہم دونوں گَتکا کے کھلاڑی ہیں۔آ۔۔۔ دو، دو ہاتھ کریں۔ اور ہمارے درمیان تلوار فیصلہ کردے کیونکہ میری غیرت یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ تو کسی کی بیٹی بھگا لائے۔‘‘
میں نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا: ’’آپ میری بات تو سنیں۔ میں اسے بھگا کر نہیں لایا بلکہ یہ میری بہن ہے ۔‘‘
والد صاحب غصہ سے سرخ ہو گئے اور کہنے لگے: ’’ارے خبیث، بد ذات! مجھ پر الزام لگاتا ہے۔‘‘ اور پھر انہوں نے میری ماں کو پکارا:’’ارے بڑھیا! بتا یہ کس کا بیٹا ہے؟ یہ میرا خون تو معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
آخر حماقت بی بی نے اپنی’’چھیل‘‘ اتاری اور میرے باپ کے قدموں میں ڈال دی اور التجا کی:’’بابا! اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنی کہانی سنا سکوں۔‘‘
والد صاحب ٹھنڈے پڑ گئے اور کہانی سن چکنےکے بعد ان کے چہرے پر مسرت کے آثار نظر آنےلگے ۔ وہ بولے: ’’چلو بیٹا! اچھا ہی کیا جو اسے بہن بنا کرلے آئے۔‘‘ پھر حماقت سے مخاطب ہوئے: ’’لڑکی!تو نے اپنا اتہ پتہ تو نہیں بتایا۔‘‘
اس نے کہا:’’نہیں بابا! پتہ بتانے میں کوئی خیر نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ ہمارے گھر میں ایک فرد کی حیثیت سے رہنے لگی اور بھر پور انداز میں ہمارے دکھوں سکھوں میں شریک رہی۔ اس نے میری ماں اور میرے باپ کی بھی خدمت کی اور جلد ہی اپنے حسن کردار سے سب کے دل موہ لیے۔
لوگوں نے باتیں بنانا شروع کیں تو میری والد صاحب نے ایک اچھا گھرانا دیکھ کر اس کا رشتہ طے کردیا۔ منگنی کے چند ماہ بعد اس کے منگیتر کو سانپ نے ڈس لیا۔ گاؤں میں ایک ’’مندروئی‘‘ تھا۔ مسلسل دو تین دن وہ دم کرتا رہا تو زہر اتر گیا۔ جابر خان جب صحت یاب ہوا تو چند ہفتے بعد شادی بھی ہو گئی۔
شادی کے بعد بھی حماقت بی بی ، جس کا نام بدل کر صائمہ رکھ دیا گیا تھا، میری بہن بنی رہی اور ہمارے دکھ سکھ میں برابر کی شریک رہی۔ دیکھتے دیکھتے بیس برس کا طویل عرصہ گزر گیا۔ اور پھر ایک دن جابر خان فوت ہو گیا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔
جابر خان کے بعد بھی صائمہ دس برس زندہ رہی۔ جب وہ بیمار ہوئی تو میں نے اس کی خدمت کے لیے اپنی بیٹی اس کے پاس چھوڑ دی۔ اچھے اچھے طبیبوں سے علاج کراتے رہے لیکن بیماری میں اضافہ ہی ہو تا گیا۔ ایک دن میری بیٹی دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی: ’’ابا جان! پھوپھی کی حالت خراب ہے۔‘‘
میں گیا تو وہ سنبھل چکی تھی۔ کہنے لگی:’’بھیا! باقی لوگوں کو کمرے سے باہر بھیج دو۔‘‘
جب دیگر لوگ چلے گئے تو کہنے لگی: ’’بھائی جان! دل پر بوجھ ہے۔ اسے ہلکا کرلوں۔ سانس کی ڈور معلوم نہیں کب کٹ جائے۔‘‘
پھر وہ سانس درست کرتے ہوئے کہنے لگی: ’’بھائی جان! سہاگ رات جابر میرے پاس آیا اور کہنے لگا ایک بھول ہو گئی ہے۔ لیکن اب سچ کے سوا چارہ نہیں۔ منگنی کے بعد مجھے سانپ نے ایسے انداز میں کاٹا کہ شفایاب ہونے کے بعد میں مرد نہ رہا۔ شادی کی تاریخ طے ہو گئی اور مجھ سے کچھ نہیں بن پا رہا تھا۔ میں والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کم از کم وہ شادی کی عارضی خوشی دیکھ لیں۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی ستا رہا تھا کہ ایک بے گناہ لڑکی کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ معاشرے میں بدنامی کے خوف اور والدین کو غم سے بچانے کے خیال نے میری زبان پر تالے ڈال دیئے تھے۔ میں خاموش رہا اور شادی ہو گئی۔ لیکن اب تجھے اختیار ہے جو سلوک چاہو کرو۔ میں کوئی انتقامی عمل نہ کروں گا۔ چاہو تو میری عزت رکھ لو چاہو تو بے عزت کر دو۔‘‘
میں نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’دن کی روشنی میں، میں نے اس کی شکل دیکھی تو وہ انتہائی خوبصورت شخص تھا۔ میرے دل نے مجھ سے کہا: ’’قدرت ظلم نہیں کرتی۔ اپنے ہی اعمال کے نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ میں نے ایک مرد کی خاطر اپنی ماں کا دل جلایا تھا۔ اور وہ مرد میرے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ پھر قسمت مجھ پر ایسی مہربان ہوئی کہ غیروں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ پھر قسمت نے میرے لیے ایک خوبصورت نوجوان کا انتخاب کیا۔ شاید میری ماں کی بددعا نے اسے سانپ بن کر ڈس لیا۔ میں نے دل سے جابر خان کو اپنا ساتھی تسلیم کر لیا۔
’’اس کے باوجود وہ ایک بلند کردار شخص تھا۔ میں نے یہ سب کچھ تمہیں اس لیے بتایا ہے کہ میرا بوجھ ہلکا ہوجائے ایسا نہ ہو کہ میں بے ہوشی کے عالم میں غیروں کے سامنے کچھ اگل دوں۔ مجھے جابر کی عزت بہت عزیز ہے ۔‘‘
یہ سن کر مجھے اتنی اذیت ہوئی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ لیکن میں غیرت اور عظمت کے اس پیکر کو سلام کرتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی عورت صدیوں میں کہیں جاکر پیدا ہوتی ہے۔
یہ کہہ کر ضمیر بابا خاموش ہو گیا۔
(اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ، مرسلہ: ڈاکٹر اقبال احمد ریاض، وانم باڑی)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146