کردار:
۱۔ قاضی ۲۔ بہروز
۳۔ عمران ۴۔ محرر
۵۔ چپراسی
(عہد وسطیٰ کی عدالت کا منظر۔ ایک طرف عود جل رہا ہے۔ )
قاضی: کارروائی شروع کی جائے۔
محرر: (جھک کر سلام کرتا ہے۔)حضور، آج تین مقدمے سماعت کے لیے پیش ہوئے ہیں۔ ان میں دو چوری کے ہیں ،اور ایک سودے کا۔
قاضی: ٹھیک ہے، سب سے پہلے سودے کا مقدمہ پیش کیا جائے۔
محرر: جو حکم ۔
قاضی: ہمم… کیا معاملہ ہے؟
محرر: حضور،ایک کسان بہروز خان نے کپڑوں کے تاجرعمران رضوی کے خلاف شکایت درج کرائی ہے کہ انھوں نے عمران رضوی سے کنواں خریدا ہے۔ لیکن اب وہ انھیں اس کنویں سے پانی لینے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
قاضی: کیا اسے پوری قیمت نہیں ملی؟
محرر: قیمت ادا کی جاچکی ہے حضور۔
قاضی: ٹھیک ہے۔ دونوں کو عدالت میں حاضر کیا جائے۔
چپراسی:عمران رضوی اور بہروز خان ، عدالت میں حاضر ہوں۔
(دونوں عدالت میں داخل ہوتے ہیں اور قاضی کو جھک کر سلام کرتے ہیں۔)
قاضی: عمران رضوی…؟
عمران: (مسکراتے ہوئے)جی حضور۔
قاضی: بہروز خان…؟
بہروز: (پریشانی کے ساتھ) جی حضور۔
قاضی: (کاغذ پر کچھ لکھنے کے بعد) ہاں، بہروز خان۔ اپنا معاملہ عدالت کے سامنے پیش کرو۔
بہروز: حضور والا!عمران میرا پڑوسی ہے۔ دو روز پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ وہ اپنا کنواں بیچنا چاہتا ہے۔ چونکہ مجھے پانی کی قلت رہتی ہے، اس لیے میں نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ عمران نے کنویں کی قیمت پچاس دیناربتائی۔ میں نے پچاس دینار میں اس کا کنواں خرید لیا۔ دوسرے روز جب میں کنویں سے پانی بھرنے پہنچا تو اس نے مجھے پانی لینے سے روک دیا۔
قاضی: کیوں؟ عمران رضوی، کیا تمھیں اپنا پیسہ نہیں ملا؟
عمران: مجھے کنویں کی قیمت مل چکی ہے حضور۔
قاضی: تم نے اسے کنواں بیچ دیا ہے اور تمھیں اس کی پوری قیمت بھی مل چکی ہے ،پھر اسے پانی لینے سے روکنے کی کیا وجہ ہے؟
عمران:حضور، میں نے اسے کنواں بیچا ہے۔ کنویں کا پانی نہیں۔ اگر اسے پانی بھی چاہیے تواسے پانی کے پچاس دینار مزید دینے ہونگے۔
(عدالت میں شور سنائی دیتا ہے۔)
قاضی: خاموشی اختیار کریں۔ کیا معاملات کے وقت تم نے یہ بات واضح کی تھی؟
عمران: قاضی صاحب، میں نے کہا تھا کہ میرے کنویں کی قیمت پچاس دینار ہے۔ اس میں پانی کا ذکر نہیں تھا۔
بہروز: حضور والا۔ کنویں سے مراد کنویں کا پانی ہی ہوتا ہے۔
عمران:(مسکراتے ہوئے) ضروری نہیں ہے۔ کنواں سوکھا بھی ہوتا ہے۔
قاضی: تم نے درست کہا۔ کنواں سوکھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جس کنویں کا سودا ہوا اس میں تو پانی تھا۔
عمران: لیکن میری منشاء کنویں کے پانی سے نہیں تھی۔میں نے صرف کنواں بیچا ہے۔ کنویں کا پانی نہیں۔
بہروز: حضور، میں نے پانی کے لیے ہی کنواں خریدا ہے۔ اگرچہ میں نے واضح نہیں کیا لیکن کنویں سے میری مراد کنویں کے پانی سے ہی تھی۔
قاضی: (چند لمحے سوچنے کے بعد) اچھا، عمران رضوی تم نے اسے اپنا کنواں بیچا ہے کنویں کا پانی نہیں۔
عمران : جی حضور۔
قاضی: کنواں بہروز کا ہے۔
عمران: بے شک۔
قاضی: اور پانی تمھارا۔
عمران:جی حضور۔
قاضی: بہت خوب۔ عدالت عمران کی اس بات کو منظور کرتی ہے کہ کنواں بہروز کا ہے اور پانی عمران کا۔
عمران:(خوشی سے) قاضی صاحب زندہ باد۔ قاضی صاحب پائندہ باد…
قاضی: (مسکراتے ہوئے)عمران رضوی، اگر کنواں عمران کا ہے تو پھر اس میں تمھاراپانی کیوں ہے؟
عمران:جی …؟
قاضی: کیا تم دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت اپنا سامان رکھ سکتے ہو؟
عمران:نہیں۔
قاضی: تم دوسرے کی زمین پر بغیر اجازت فصل اگا سکتے ہو؟
عمران:(گھبراتے ہوئے) جی نہیں۔
قاضی: پھر دوسرے کے کنویں میں تم نے اپنا پانی کیوں رکھا؟
عمران:جی …؟ وہ … وہ …
قاضی: اس جرم میں تم پر سو دینار جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
عمران:(پریشان ہوکر) یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں،حضور۔
قاضی: اور جب تک تم بہروز کے کنویں سے اپنا پانی نہیں نکال لیتے، تمھیں اپنے پانی کے لیے کرایہ ادا کرنا ہوگا۔
عمران:کرایہ…!!
قاضی: پانچ دینار یومیہ۔
عمران:روز کے پانچ دینار۔ حضور میں یہ نہیں کرسکتا۔ مجھ پر رحم کیجیے۔ میں برباد ہوجاؤں گا۔
قاضی: اگر تم نے یہ نہ کیا تو تمھیں قید کردیا جائے گا۔
عمران:(روتے ہوئے) حضور مجھ پر رحم کیجیے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی۔
قاضی: میں کچھ نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر بہروز تمھیں معاف کردے تو عدالت اس پر غور کرسکتی ہے۔
عمران:(بہروز کے سامنے جاکر گڑگڑاتا ہے۔ ) میرے بھائی مجھے معاف کردو۔ میں نے پیسوں کی لالچ میں تمھیں لوٹنا چاہا لیکن میرا پانسہ مجھ پر ہی الٹا پڑ گیا۔ میں نے تمھیں کنواں اس کے پانی کے ساتھ دیا۔ مجھے معاف کردو۔
بہروز: قاضی صاحب۔ اگر یہ کنویں کے ساتھ اس کا پانی بھی دینے کو تیار ہے توپھر میں اپنا مقدمہ واپس لیتا ہوں۔اور اسے معاف کرتا ہوں ۔ اور آپ سے بھی اس پر رحم کی درخواست کرتا ہوں۔
قاضی: بہت خوب بہروز۔ عدالت تمھاری بات پر اس شخص کو بری کرتی ہے۔ آج سے کنواں اس کے پانی کے ساتھ بہروز کا ہے اور اس پر عمران کا کوئی حق نہیں۔ یاد رکھوعمران۔ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں گرتا ہے۔ خبردار جو آئندہ کسی کو اس طرح لوٹنے کی کوشش کی۔
عمران:(آنسو پونچھتے ہوئے جھک کر سلام کرتا ہے۔)