سورہ التحریم کی آیت 6 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان بنیں گے‘ جس پر تند خو فرشتے متمکن ہیں جو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ذرا بھی رو گردانی نہیں کرتے۔‘‘
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کی پرورش و پرداخت کیسے ہوتی ہے؟ اگر وہ کسی مشرک ، لا دین یا دہریہ کے گھر پیدا ہوا ہے تو اس کی نشوونما اسی ماں باپ کے فکر و نظر اور دین کے مطابق ہوگی اور اربوں انسان دور جدید میں موجود خدا بے زار زندگی گزار رہے ہیں ۔ مگر آیت مذکورہ تو اہل ایمان سے مخاطب ہے لہٰذا اس تحریر کا موضوع اہلِ ایمان ہیں جن کو یہ باور کرانا ہے کہ کیسے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچا سکتے ہیں۔
ہر بچہ جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی پرورش و پرداخت تین دائروں میں ہوتی ہے۔
پہلا دائرہ ماں کی گود اور اس کے گھر کا آنگن ہے۔ یہی اس کی مابعدالطبیعیات کا بنیادی مرکز ہے جہاں وہ اپنے دینی، اخلاقی اور خاندانی جبلت سے نہ صرف آگہی حاصل کرتاہے بلکہ اس کی پوری زندگی کی عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بس مسلم والدین اس معاملے میں کتنی حساسیت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں،یہ نہایت اہم ہے۔ ماں کی گود کا مدرسہ پانچ سال کی عمر تک کس طرح کی بنیاد رکھ رہا ہے،یہی بات طے کرتی ہے کہ بچہ آگے چل کر کس طرح کے اخلاق و کردار کا حامل ہونے والا ہے۔ اس مرحلے کی کوتاہی دراصل ہماری اولاد کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہے اور ان کی دنیا و آخرت کو خسارے میں ڈال سکتی ہے۔
دوسرا دائرہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں بچہ دنیاوی اور دینی تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے۔ جس کا سلسلہ پرائمری اسکول سے شروع ہو کر اعلیٰ تعلیم گاہوں تک دراز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کا نصابِ تعلیم کیا ہے۔ جو نصاب تعلیم ہے نسل نو اسی سانچے کے مطابق پروان چڑھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو دیکھنا ہو تو اس ملک کے نصاب تعلیم کو دیکھ لو۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں آج بھی برطانیہ کے سامراجی دور کا نظام تعلیم رائج ہے جس میں اخلاق و کردار کی تعمیر کا تصور یا تو معدوم ہے یا اتنا کمزور ہے کہ وہ بھلائی اور برائی کے تصور کو واضح ہی نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نسل ہر اس چیز کو درست تصور کرتی ہے جس سے اسے خوشی حاصل ہو یا جس سے مادی فائدہ حاصل ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا نظام دن بہ دن کرپشن اور اخلاقی فساد کی دَل دَل میں دھنستا جارہا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اساتذہ قوم کے معمار ہیں یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد قابلِ احترام ہیں۔ جو اب اپنے منصب سے روگردانی کی وجہ سے پہلے جیسے نہیں رہے۔ ایک تو نصاب تعلیم اور نظامِ تعلیم کا کھوکھلاپن اور دوسرے اسکولی اساتذہ کا اخلاقی قدروں سے نابلند ہونا دونوں نے مل کر نظام تعلیم کو صنعت میں تبدیل کردیا ہے۔ جو پیسہ کمانے والا پروڈکٹ بنارہی ہیں اور وہ یہ نہیں جانتا کہ کمانے کے درست اور نادرست ذرائع بھی ہوتے ہیں۔ ایسے نظام تعلیم میں باشعور والدین کی ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اپنے دین، ایمان اور عقیدئہ توحید اور اس کے تقاضوں کا فہم ہمارے بچوں کو اب اسکول میں حاصل نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہم انہیں جہنم کا ایندھن بننے کے لیے چھوڑ دیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں! اس کا علاج کرنا ہوگا اور علاج کی صورت یہ ہے کہ اپنے گھر کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کا مرکز بنائیں اور انہیں دین و اخلاق کا وہ شعور دیں جو ان کی دنیا و آخرت دونوں کی کامیاب کی ضمانت ہو۔
تیسرا دائرہ معاشرہ ہے، جس میں بچہ جب گھر سے باہر نکلنا شروع کرتا ہے تو سن بلوغت سے عمر کے آخری ایام تک اپنے دوستوں، رشتے داروں، دفاتر، اپنے معاشی مصروفیات کے دائروں میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ صحبتیں، یہ تعلقات اور یہ رشتے انسان کی زندگی پر اچھے یا برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اچھے کی صحبت میں بچہ اچھا اور برے کی صحبت میں برا بنتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’’عطر فروش کی دکان پر بیٹھو گے تو عطر کی خوشبو لباس میں بس جائے گی اور اگر لوہار کی دکان پر بیٹھو گے تو گرمی محسوس ہوگی اور ممکن ہے کہ بھٹی کی چنگاریوں سے کپڑے بھی جل جائیں۔‘‘
اس کے علاوہ انسان اپنے فاضل وقت کو گزارنے کے لیے مختلف مشاغل بھی اختیار کرتا ہے یہ بات درست ہے کہ کتابوں کی دوستی سب سے اچھی ہے۔ مگر یہاں بھی خود کو جہنم سے نجات کے لیے مثبت اور معلوماتی کتابوں سے دوستی ضروری ہے۔ اگر اس مرحلے میں ہم اپنے بچوں کی صحت مند لٹریچر سے دوستی کرانے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے اپنی اولاد کی تربیت کا ایک اہم پڑاؤ طے کرلیا۔ یہ وہ خطرناک مرحلہ ہے جس میں بچوں کے غلط صحبت کے سبب بگڑ جانے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ دنیا ہے، اس کی تین حصے کی آبادی مذہب بے زاری میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ مسلمان ہی شیطان کا اصل ہدف ہے دیگر مذاہب کے لوگ اور ان کے پیشوا ہتھیار ڈال چکے ہیں اور تلبیس ابلیس کا شکار ہو چکے ہیں۔
یہ آیت اہلِ ایمان کو ہی حکم دیتی ہے کہ بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان بنیں گے۔