ثمرین خوبیوں کے پیمانے پہ اترتی ہوئی ہر لحاظ سے فاروقی صاحب کے متوسط خاندان کے لیے قابل قبول تھی۔
چٹ منگنی پٹ بیاہ اور پھر حُسن اخلاق سے سسرال کے دل موہ لینے میں بہو نے کچھ زیادہ وقت بھی نہ لگایا۔ شوہر خوش کہ اس کے گھر والے مطمئن ہیں۔
دس افراد کے اس کنبے کی پہلی اور اکلوتی بہو کو انسان سے مشین بنانے میں کچھ محنت نہ کرنی پڑی کہ خدمت، مروت اور اطاعت اس کی گھٹی میں پڑے تھے۔
المیہ یہ تھا کہ یہ ’’مشین‘‘ شوہر کے گھر آنے تک اپنی توانائی ختم کر چکی ہوتی تھی۔ رات کو شوہر گھر میں داخل ہوتا تو تھکی ہاری نیند سے بے حال ثمرین کی مسکراہٹ میں بشاشت یا بے ساختگی کی بجائے بے زاری ہوتی۔
چار سال میں دو بچے مزید اس کے وقت کے حق دار ہوگئے۔گھر والوں کا تجاہل عارفانہ ایسا کہ بیٹے بہو کے درمیان فاصلوں کا ادراک نہ ہو سکا اور شادی کے چھٹے سال عرفان صاحب نے اپنے دفتر کی ایک لڑکی سے شادی کرلی اور اس کے ساتھ الگ فلیٹ میں رہنے لگا۔
اور آج ساس اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھی۔
’’پتا نہیں ثمرین میں کیا خوبی نظر آئی مجھے ، میاں کو تو اپنا بنا نہیں سکی۔‘‘ll