حضرت یعقوب کا تربیتی اسوہ

کاشف نسیم

اس سے پہلے اس ضمن میں حضرت لقمان علیہ السلام کا تذکرہ آچکا ہے۔ اس تحریر میں اللہ کے ایک اور نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہے جو ہمیں بہ حیثیت والد اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کے لائق بنا سکیں۔
اگر آپ سورۂ یوسف کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس وقت کا خواب ہے جب وہ بچے تھے۔ وہ اپنے والد کو اپنا خواب سناتے ہیں۔ قرآن میں اس کا ذکر یوں ہے:’’جب یوسف نے اپنے والد سے کہا تھا : ابا جان ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ (یوسف:4)
اس واقعے سے جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بطور والد اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو کس قدر اعتماد دے رکھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے کے پاس اپنی انتہائی راز کی بات بیان کرنے کے لئےاپنے باپ سے زیادہ قابل اعتماد اور کوئی تھا ہی نہیں چنانچہ انہوں نےاپنے دِل کا حال بتاتے ہوئےاپنا خواب ان کے سامنے رکھ دیا۔
ایک والد کا اپنی اولاد سے اسی طرح کا تعلق، بے تکلفی، باہمی ربط، شفقت اور محبت مطلوب ہے کہ اولاد اپنے باپ سے دل کا حال بیان کرکے اطمینان محسوس کرے۔ یہ رویہ موجودہ دور کے ان باپوں کے برعکس ہے جن کے پاس زندگی کی مصروفیات سے اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ گفتگو کرسکیں یا ان کا حال چال جان سکیں۔ یہ رویہ ان سخت گیر والد حضرات کے رویہ کے بھی بر خلاف ہے جو اپنی اولاد کے لئے ایسے داروغہ کی طرح ہوتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی بچے سہم جاتے، گھر کے کونوں میں دبک جاتے ہیں اور اگر بلایا جائے تو ایک مجرم کی طرح نظریں جھکائے حاضر ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کا خواب پوری توجہ سے سنا اور نہایت حکمت سے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’میرے پیارے بیٹے ! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہارے لیے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے کیوں کہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔‘‘ (یوسف: 5)
ایک والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں کو مجتمع اورمتحد رکھے‘ ان کے درمیان محبت پروان چڑھائے اور دوریاں پیدا نہ ہونے دے اور اگر کسی وجہ سے ایسا ہو جائے تو ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں پر سیدنا یعقوب علیہ السلام نے یہی کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ بیٹا یوسف! میں تمہیں یہ خواب اپنے بھائیوں سے بتانے کے لئے اس وجہ سے روک رہا ہوں کہ تمہارے بھائی تمہارے دشمن ہیں، وہ تم سے نفرت کرتے ہیں کیوں کہ وہ تمہارے سوتیلے بھائی ہیں۔ نہیں! بلکہ انہوں حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ’’بیٹا! یہ خواب اپنے بھائیوں کو اس لیے مت سنانا کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ تمہارے بھائیوں کے دل میں برے وسوسے ڈال کر انہیں اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں اور تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔
یہ فطری بات ہے کہ گھر میں چھوٹے بچوں سے زیادہ محبت کی جاتی ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب ان سے لاڈ کرتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام ایک تو یعقوب علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے تھے۔ دوسرا بچپن میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اس لیے یعقوب علیہ السلام اس فطری جذبے کی وجہ سے انہیں اضافی توجہ دیتے تھے مگر بیٹے اس فطری جذبے کوسمجھنے کے بجائے اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ہمارے ابا جان ہمارے مقابلے میں یوسفؑ سے زیادہ محبت کرتے اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کی یہ منفی سوچ حسد میں تبدیل ہوگئی اورانہوں نے کسی بھی طرح یوسف علیہ السلام کو راستے سے ہٹاکر والد گرامی کی تمام تر توجہ اور محبت اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے یوسف علیہ السلام کو ٹھکانے لگانے کا ایک منصوبہ تیار کرلیا۔ وہ اپنے والد کے پاس آکر اصرار کرنے لگے کہ ابا جان ہم تفریح کرنے جارہے ہیں آپ ہمیں یوسف کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دیں۔ ہمارا یہ چھوٹا بھائی وہاں جاکر ہمارے ساتھ کھیلے گا اور خوش ہوجائے گا۔ یعقوب علیہ السلام نے پہلے تو انہیں ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ مسلسل اصرار کرنے لگے تو انہوں نے ان کو اس شرط پر یوسف کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی کہ وہ اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے کہ جنگل میں بھیڑیا اسے کھا جائے۔
پھر ہوا یوں کہ وہ یوسفؑ کو اپنے ساتھ لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا۔ اس کی قمیص لی اس پر جھوٹا خون لگا کر رات کے وقت اپنے والد کے پاس جا کر آنسو بہانے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھاگیا ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔ دیکھیں یہ اس کی قمیص ہے جو اس کے خون سے لتھڑی ہوئی ہے۔
یعقو ب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کی بات سنی مگر ان پر یقین نہیں کیا کیوںکہ وہ ان بچوں کے باپ تھے اور باپ اپنے بچوں کو خوب سمجھتا ہے اوراسے اپنے بچوں کے تمام رویوں کا خوب علم ہوتا ہے۔
یعقوب علیہ السلام نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا اور کہنے لگے ’’تم لوگوں نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔‘‘ (یوسف:18)
ہماری اولاد ہمارے لیے آزمائش ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔‘‘ (الانفال:28)
آزمائش پر پورا اترنے کے لے صبر کرنا لازمی ہے اس لیے ایک والد کے منصب کے ساتھ صبر جڑا رہتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اچھا والد نہیں بن سکتا ہے۔ یہ صبر مختلف موقعوں اور مختلف حالات میں ہو سکتا ہے۔ کہیں نافرمانی کی صورت میں، کہیں اولاد کی تکلیف ،بیماری یا موت کی صورت میں اور کہیں ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے جو حضرت یعقوب کو پیش آئی۔ اولاد کے سلسلے میں صبر بہت بڑی چیز ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی صبر کی وجہ سے خلیل اللہ قرار پائے۔
طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب یوسف علیہ السلام اپنی تمام آزمائشوں سے گزر کر مصر میں وزیر بنے تواس وقت سارے علاقوں میں قحط سالی تھی اورحضرت یعقوب علیہ السلام کا علاقہ بھی قحط سے دوچار تھا۔ چنانچہ ان کے بیٹے جب غلہ لینے دوسری دفعہ مصر روانہ ہوتے ہیں تو اپنے والد گرامی سے کہتے ہیں ابا جان ! بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں اس طرح ہمیں ایک حصہ غلہ زیادہ مل جائے گا۔ جب وہ بنیامین کو لے کر مصر جانے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو میں تمہیں بنیامین کو ساتھ لے جانے کی اجازت تو دے رہا ہوں مگر اب کی دفعہ امانت میں خیانت نہ کرنا کیوں کہ تم پہلے بھی ایک وعدہ توڑ چکے ہو۔
پھر جب ان کے بیٹے مصر کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں تو اس وقت یعقوب علیہ السلام انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’اے میرے بچو ! تم سب ایک دروازے سے شہر میں داخل مت ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے‘ میرا کامل توکل اسی پر ہے اور ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘ (یوسف:67)
حضرت یعقوب علیہ السلام کا اندازِ تربیت دیکھیں کہ وہ بار بار اپنے بچوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ تے ہیں۔ انہیں توحید کا درس دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ اللہ کے پاس ہی سارے اختیارات ہیں۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔
جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے مصر پہنچتے ہیں اور یوسف علیہ السلام اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس روک لیتے ہیں تو ان کے بیٹے واپس آکر اپنے والد کو ان کا قصہ بتاتے ہیں کہ ابا جان بنیامین کے تھیلے میں سے بادشاہ کا پیالہ نکلا تھا جس کی وجہ سے انہیں مصر میں روک لیا گیا ہے۔ اس موقع پرحضرتیعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں کو دوبارہ مصر روانہ کیا اور کہا کہ: ’’میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور بنیامین کے متعلق جاننے کی کوشش کرو اور ناامید نہ ہونا کیوں کہ ناامیدی کافر قوم کی علامت ہے۔‘‘ (یوسف:87)
اس طرح ایک دفعہ پھر یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو اللہ کی رحمت کے متعلق بتاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بالآخر یہ بچے مصر پہنچتے ہیں تو یہ اپنے بھائی یوسف کو پہچان لیتے ہیں اور وہ سب کو اپنے پاس بلاکر مصر میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب یعقوب علیہ السلام کے انتقال کا وقت قریب آتا ہے تب وہ اپنی تمام اولاد کو جمع کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں ’’(بتاؤ) میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کے معبود کی جو واحد ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار رہیں گے۔‘‘ (البقرۃ:133)
یہ ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی میں سے اولاد کی تربیت کے چند نمونے کہ اس دنیا سے جاتے جاتے بھی انہیں اپنے بچوں کی فکر لاحق ہے کہ میرے مرنے کے بعد ان کے ایمان کا کیا ہوگا؟ کہیں وہ اللہ کو بھول تو نہیں جائیں گے؟ اس لیے وہ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں کہ بچو! جو سبق ساری زندگی تمہیں پڑھایا ہے ذرا میرے مرنے سے پہلے اسے میرے سامنے دہراؤ تاکہ میں مطمئن ہوجاؤں۔ اس لیے ایک والد کی ہمیشہ یہی فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر سے بہتر کس طرح کرسکتا ہے۔ وہ انہیں اللہ کے قریب کرے ، ان سے محبت و شفقت سے پیش آئے اور انہیں سمجھائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی تربیت کے لیے باپ کو کہیں سختی اور کہیں نرمی کرنی پڑتی ہے۔کہیں محبت کی ضرورت پڑتی ہے تو کہیں پر ڈانٹنا بھی پڑتا ہے۔ بس یہ بات ذہن میں تازہ رہے کہ ایک والد کی تربیت کا حاصل یہ ہو کہ کس طرح اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے ’’جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) صدقہ جاریہ‘ ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (مسلم:1631)ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146