اسلام کےخلفائے راشدین میں حضرت عثمان غنی تیسرے خلیفہ ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاپورا نام عثمان بن عفان ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو مشہور کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر ہیں ۔ پانچویں پشت پر آقائے نامدار پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب مل جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نانی’’بیضاء‘‘ عبدالمطلب کی بیٹی اور پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی پھوپھی تھیں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی اعلیٰ صفات سے مرصع ہے ۔ جیسےآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی حیا دار، نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے ، رشتہ داروں اور غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہنے والے انتہائی رحم دل انسان تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیارے نبی ﷺ کو انتہائی عزیز رکھتے تھے۔ اس سے متعلق حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:’’ہر نبی کا ایک رفیق ہے ۔ میرا رفیق عثمان ہے۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ حضور ﷺاپنی دو بیٹیاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں ایک کے بعد ایک دی گئیں۔ اس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ کو ذوالنورین کا خطاب ملا ۔ دو مر تبہ ہجرت کا شرف آپ کو ملا ۔ پہلی حجرت حبشہ اور دوسری حجرت مدینہ منورہ۔ دونوں ہجرتوں میں زوجہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ساتھ تھیں۔
ہجرت کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی ۔ نمازیوں کی کثرت سے تنگی محسوس ہونے لگی تو پیارے نبی ﷺنے فرمایا جو کوئی مسجد سے متصل جگہ خرید کر توسیع کے لیے دے گا اسے جنت کی بشارت ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کی توسیع کے لیے جگہ خرید کر دے دی۔ عہد بنوی میں مسجد کچی اینٹوں سے، چھت کھجور کی شاخوں سے اورستون کھجور کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے۔
حضرتعثمان غنی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم خدمات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر قرآن جمع کرکے کتاب اللہ کواختلاف و تحریف سے بچا لیا۔ جمع و حفاظت قرآن کا تاج آپ کے سر ہے ۔ حضرت حفصہؓ کے پاس موجود قرآن پاک کا وہ نسخہ مستعار لیا گیا جو عہد صدیقی میں جمع ہوا تھا ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد وہ نسخہ حضرت فاروق اعظم ؓکو منتقل ہوا، آپؓ کی شہادت کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ کی حفاظت میں چلا گیا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لغت قریش پر قرآن لکھواکر نسخےممالک اسلامیہ جیسے شام، مصر، بصرہ، کوفہ، مکہ روانہ کیے اور ایک نسخۂ مدینہ منورہ میں رکھا گیا۔ مورخ اسلام حضرت قاضی محمد سلیمان صاحب منصورپوری کہتے ہیںکہ’’ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلحاظ خلافت بڑے کامیاب خلیفہ تھے۔ آج جوکوئی شخص قرآن مجید پڑھتا ہے اس پر جامع قرآن کا احسان ہے ۔‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جامع القرآن تھے۔
ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیاضی میں اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ ؓ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو دیکھا کہ مہاجروں کو پینے کے پانی کی بے حد قلت ہے۔ وہاں صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ آپؓ نےوہ کنواں خرید لیا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔اسی طرح اور بھی کئی کنویں کھدوائے اور مسلمانوں کے نام وقف کردئیے۔ چراگاہیں بنائی گئیں اور راستے بھی ۔
سخاوت میں آپؓ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبرؓکے دورِ خلافت میں شدید قحط پڑا۔ اسی زمانے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےایک ہزار اونٹ اناج سے لدے شام سےآئے۔ لوگ اناج خریدنے دوڑ پڑے۔ بڑھ چڑھ کرقیمت دینے کی پیشکش کی۔ مگر آپؓ نے کہا’’کیوں نہ غلہ اس کے ہاتھ بیچوں جس سے ایک روپئے کے دس روپئے مل رہے ہیں؟ تم گواہ رہو میں نے یہ سب غلہ مدینہ کے فقراء و مساکین کو فی سبیل اللہ دے دیا۔‘‘ ہے کوئی ایسا مخلص اورفیاض شخص جو شمع نبوی پر پروانہ وار وارفتہ ہوتا ہو ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار عہدِ نبوی کےچند پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور پاکﷺ سے والہانہ محبت اور شیفتگی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ روانہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کورشک ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف کعبۃ اللہ ادا کر رہے ہوں گے۔ مگر حضوراکرم ﷺنے فرمایا’’مجھے امید نہیں کہ وہ میرے بغیر طواف کریں گے۔‘‘ جب عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس ہونے لگے تو خود اہلِ قریش نے درخواست کی کہ تم مکہ آئے ہو توطواف کرتے جاؤ۔ محبت رسول میں سرشار جواب سنیے، جسے سن کرحب رسول کے دعویداروں کے سر شرم سے جھک نہ جائیں، جواب دیا’’مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ حضور ﷺروکے گئے ہوں اور میں طواف کرلوں۔‘‘چشم فلک نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی نبی پاک حضرت محمد ﷺ سے محبت و شیفتگی ، خلوص وفا، صدق وصفا اورایثار وقربانی نہ دیکھی ہو ۔
ذوالنورین کی شرم و حیا کا واقعہ
ایک واقعہ سناتی چلوں جن کے بارے میں سرکار دو جہاں حضرت محمد ﷺ نے فرمایاکہ ’’کیا میں اس سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔‘‘ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے ، آپؐ کے ایک یا دو زانوے مبارک کھلے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ کچھ ہی دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تشریف لائے، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ آپؐ حضرت عثمان غنی رضی کودیکھ کر اپنا زانوئے مبارک ڈھانپ لیا اور سیدھے بیٹھ گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وجہ پوچھ لی تو فرمایا ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ ‘‘