طبقۂ نسواں پر سیدہ عائشہؓ کے احسانات

حافظ افروغ حسن

اُم المومنین سیده عائشهؓ پوری امت مسلمہ کی رحیم ماں، شفیق محسنہ اور قابلِ احترام معلّمہ تھیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنی روحانی اولاد کی تعلیم وتربیت، اس کی خیر خواہی و ہمدردی اور اُسے مشکوٰۃِ نبوت کے نور سے منور کرنے میں صرف کر دی۔
سیدہ عائشہؓ نے اپنے کردار اور اپنے طرز عمل سے پوری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ایک عورت اسلام کی حدود میں رہ کر بھی علمی، مذہبی، اجتماعی، سیاسی پند و موعظت، اصلاح وارشاد اور ملک و ملت کی بھلائی کے کام انجام دے سکتی ہے۔ اس طرح سیدہ نے اپنی ہم جنسوں کے سامنے ایک ایسا ولولہ انگیز اور ہمت افزا نمونہ پیش کیا جس سے اُن میں اپنے مرتبے اور مقام کی بزرگی کا احساس اُجاگر ہوا ۔ اور ان میں بے پناہ قوت عمل بیدار ہوئی جس کے نتیجے میں اس اُمت میں ایسی بے شمار ہستیاں پیدا ہوئیں کہ گو ان کا تعلق جنس نسوانی سے تھا لیکن اخلاص وتقویٰ، زہد و اطاعت علم و ادب اور دینی علوم کی ترویج واشاعت میں اُنہوں نے وہ عظمت حاصل کی که ائمہ کرام بھی اُن کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرنا اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہیں۔ سیدہؓ کا یہ عملی کرداراس طبقے پر احسانِ عظیم ہے۔
سیدہ عائشہؓ کا دوسرا اہم احسان طبقہ خواتین پر یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کے اور خواتین کے درمیان ایک اہم اور مضبوط واسطے کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی رہیں۔ صحابیات اپنی عرضداشتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اُن ہی کی معرفت پہنچاتی تھیں اور سیدہ امکانی حد تک اُن کی حمایت کرتی تھیں جس کے نتیجے میں زبانِ رسالت مآب سے ایسی ہدایات اور فیصلے جاری ہوئے جو قیامت تک کے لیے اُن کے انسانی، اخلاقی اور معاشرتی حقوق کی ضمانت دینے والے چارٹر کی حیثیت اختیار کر گئے۔ چندمثالیں پیش خدمت ہیں :
حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک عبادت گزار اور پارسا صحابی تھے۔ اُن کی طبیعت پر زہد و رہبانیت کا بڑا غلبہ تھا۔ ایک دن اُن کی بیوی حضرت عائشہ کے پاس آئیں۔ وہ ہر قسم کی نسوانی زیب و آرائش سے خالی تھیں۔ سندھ نے اُن سے طبیعت کی اس ویرانی کا سبب پوچھا۔ وہ شرم و حیا کی وجہ سے کھل کر بات نہ کر سکیں ، لیکن باتوں باتوں میں اتنا ضرور کہا کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات کا تمام وقت نفلی نمازوں کی ادائیگی میں بسر کر دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ نے اس صورت حال کا تذکرہ آپ سے کیا حضور ﷺ فوراً حضرت عثمانؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’اے عثمان! تمہیں رہبانیت کا حکم نہیں ملا ہے۔ کیا میرا طرز زندگی پیروی کے لائق نہیں، میں تم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور اُس کے احکام کی سے زیادہ نگہداشت کرتا ہوں اور بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے طرز عمل میں اعتدال کی روش اپنالی ۔
ایک عورت کو چوری کے جرم میں سزادی گئی ۔ اس کے بعد اُس نے توبہ کر کے نیکی کی راہ اختیار کر لی لیکن پھر بھی کچھ خواتین اُس سے ملنا جلنا پسند نہ کرتی تھیں۔ وہ حضرت عائشہؓ کے پاس اکثر آتی تھی اور آپ اُس سے محبت بھرے انداز میں ملتیں بلکہ ضرورت کے وقت اُس کی درخواست حضور کی خدمت میں پہنچا دیتیں ۔
ایک خاتون کو اس کے شوہر نے زدو کوب کیا جس سے بدن پر نیل پڑ گئے۔ وہ فریادی بن کر م المؤمنین کے آستانے پر پہنچی اور اپنا بدن دکھایا ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ نے اس بی بی کی تکلیف بھری داستان آپ کے سامنے ان الفاظ میں بیان کی :’’یا رسول اللہ! مسلمان بیویاں جو تکلیف اُٹھاتی ہیںمیں نے اُس کی مثال نہیں دیکھی۔ اس بے چاری کا بدن اس کے کپڑے سے زیادہ سبز ہو رہا ہے۔‘‘
خاوند کو جب معلوم ہوا کہ اس کی بیوی بارگاہ نبوت میں پہنچ گئی ہے تو وہ دوڑا ہوا آیا، آپؐ نے فریقین سے تنازع کی تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ قصور دونوں کا تھا۔ ایسے ہی کسی موقع پر حضورؐ نے مردوں کو تلقین کرتے ہوئےفرمایا:’’اے لوگو ، اللہ کی باندیوں یعنی اپنی بیویوں کومت مارو۔ اپنی بیویوں کو مارنے والے مرد تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ عورتوں کے ساتھا چھا سلوک کر و۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اُوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے۔ اس کو سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ (بخاری، ابو داؤد)
اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ کا اپنے ہم جنس طبقے پر تیسرا احسان یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی ایسے افکار و خیالات کا پوری شدت سے دفاع کیا جس سے عورت کی ذلت و پستی کا ادنیٰ سے ادنیٰ احساس ابھرتا تھا۔ آپ ایسے لوگوں کا سختی سے محاسبہ کرتی تھیں جو عورت کو ایک ذلیل مخلوق تصور کرتے تھے۔ مثلاً: حضرت ابو ہریرہ نے روایت بیان کی کہ اگر نماز کی حالت میں نمازی کے سامنے سے عورت، کتا یا گدھا گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ سیدہؓ کو جب اس روایت کا علم ہوا تو فرمایا:
’’تم نے کتنا برا کیا کہ عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کر دیا۔ کیا عورت بھی ایک ناپاک جانور ہے؟ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پاؤں پھیلائے سوتی رہتی،حجرے میں جگہ نہ تھی۔ جب حضورؐ نماز میں مصروف ہوتے اور سجدے میں جاتے ہاتھ سے سرکاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ کھڑے ہوتے تو پھر پاؤں پھیلا لیتی کبھی ضرورت ہوتی تو بدن چرا کر سامنے سے نکل جاتی۔‘‘ (بخاری)
ایک صحابی نے روایت بیان کی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بدشگونی اور نحوست تین چیزوں میںہے یعنی عورت ، مکان اور گھوڑے میں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ نے جب یہ بات سنی تو غصے میں آکر بولیں:’’ قسم ہے اس خدا کی جس نے محمد ﷺ پر قرآن نازل کیا۔ حضور نے یہ ہرگز نہیں فرمایا ؛ البتہ یہ فرمایا ہےکہ اہل جاہلیت ان تین چیزوں سے نحوست کی فال لیتے تھے۔ راوی نے پہلا فقرہ نہیں سنا، اُس لیے اس سے یہ غلطی ہوئی ہے۔‘‘
أم المؤمنین سیدہ عائشہؓ کا صنف نازک پر چوتھا اہم احسان یہ ہے کہ انہوں نے ایک فقیہ اور مفتی کی حیثیت سے اپنی قوت اجتہاد و استنباط سے کام لے کو شرعی احکام کی توضیح و تشریح اس انداز میں کی جس میں اس طبقے کی فطری مجبوریوں اور ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتوں اور رعایتوں کا اہتمام ہو۔ ان معاملات میں چونکہ سیدہ صدیقہ کا استدلال کتاب و سنت پر مبنی ہوتا تھا ، چنانچہ بعد میں اسلامی قانون کے ماہرین کا فیصلہ عام طور پر ان کے حق میں رہا اور آج بھی اکثر اسلامی ملکوں میں اُنہی کے فتووں پر عمل ہے۔ چند مثالیں بطور نمونہ پیش ہیں:
(1)حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فتویٰ دیتے تھے کہ ناپاکی کی حالت میں عورت کو غسل کرتے وقت چوٹی کھول کر بال اچھی طرح بھگونے چاہیں ۔ سیدہ عائشہؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ابن عمرؓ عورتوں کو یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ اپنے جوڑے منڈوا لیں۔ میں آنحضرت ﷺکے ساتھ غسل کرتی تھی اور صرف تین دفعہ پانی ڈال لیتی تھی اور ایک بال بھی نہیں کھولتی تھی۔‘‘
(2) حج میں حاجیوں کے لیے سر کے بال منڈوانا اور ترشوا نا بھی ضروری ہے، مگر عورتوں کو کس قدر بال کٹوانے ہیں تو حضرت ابن زبیرؓ فتویٰ دیتے تھے کہ ناپ کر چار انگل بال ترشوا نے لازمی ہیں، اپنے بھانجے کا یہ فتویٰ معلوم کر کے سیدہؓ نے فرمایا:’’لوگو ! کیا تمہیں ابن زبیر کے فتوے پر تعجب نہیں ہوا کہ وہ محرم عورت کو چار انگل بال کٹوانے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ کسی طرف سے ذرا سا بال لے لینا بھی کافی ہے۔‘‘
اسلام سے پہلے عرب میں وراثت میں عورت کا حصہ نہ تھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے اس کو یہ حق دلایا لیکن بعض ایسی صورتیں بھی پیش آئیں جن کا حل تلاش کرنے کے لیے کتاب وسنت سے استنباط کی ضرورت پیش آئی۔ ایسے موقعوں پر سیدہ نے اپنی ہم جنس بہنوں کا حق فراموش نہیں کیا ۔ مثلا اگر کسی کا وارث لڑکا نہ ہوا صرت بیٹیاں پوتے اور پوتیاں ہوں تو تقسیم کس طرح ہوگی ؟ حضرت ابن مسعودؓ ایسی صورت میں پوتیوں کو حصہ نہیں دلاتے۔ صرف پوتوں کو میراث میں حصہ دار بناتے ہیں، مگر حضرت عائشہ پوتیوں کو بھی حصہ دلاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی کو مجبور کرے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے،ور نہ اُسے قید میں ڈال دیا جائے گایا قتل کر دیا جائے گا اور شوہر مجبوراً طلاق دے دے تو سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ایسی طلاق شریعت کی رو سے صحیح نہ ہوگی ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے سوا تمام فقہاء و محدثین نے سیدہ کے بیان کردہ اس اصول کو تسلیم کر لیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر اسلامی قانون میں یہ دفعہ نہ ہوتی تو شرافت ماب اور با عصمت خواتین کا ظالم و جابر امراء وسلاطین کے دست ظلم سے محفوظ رہنا مشکل ہو جاتا۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا اپنی روحانی بیٹیوں پر پانچواں اہم احسان یہ ہے کہ انہوں نے ان کی نسوانی شرم وحیا اور عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے دین متین کے بیان کردہ احکام و فرامین کی خود بھی پوری طرح پابندی کی اور انہیں بھی ان پر عمل پیرا ہونے کی سختی سے تاکید کی تاکہ وہ غیر اسلامی فیشن اور رواج کے سیلاب میں بہہ کر اپنے اسلامی وقار اور جنسی تشخص کو نہ کھو بیٹھیں چند مثالیںپیش ہیں :
(1) عورتوں کو ایسا زیور پہننا جس سے آواز پیدا ہو ممنوع ہے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر سیدہ صدیقہ ؓ کے پاس آئی۔ آپ نے فرمایا: گھنگھرو پہن کر میرے پاس نہ آیا کرو۔ اس کے گھنگھرو کاٹ ڈالو۔‘‘ ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا۔
بولیں: ’’آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس گھر اور جس قافلے میں گھنٹہ بجتا ہو وہاں فرشتے نہیں آتے۔‘‘ (موطا امام مالک)
(2) حفصہ بنت عبدالرحمنؓ آپ کی بھتیجی تھیں۔ وہ ایک دن نهایت بار یک دو پٹہ اوڑھ کر اپنی پھوپھی کے پاس آئیں۔ سیدہؓ نے دوپٹہ دیکھتے ہی غصے سے اُسے پھاڑ ڈالا اور فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتیں کہ خدا نے سورۃ نور میں کیا احکام نازل فرمائے ہیں۔ اس کے بعد گاڑھے کا دوسرا دوپٹہ منگوا کر اوڑھایا۔ (موطا امام مالک)
(3) سیدہ عائشہؓ ایک دفعہ ایک گھر میں بطور مہمان تشریف فرما ہوئیں۔ دیکھا کہ دو جوان لڑکیاں بغیر چادر اوڑھے نمازپڑھ رہی ہیں۔ تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بغیر چادر اوڑھےنماز نہ پڑھے کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے۔(مسند احمد)
(4) عرب کے یہودیوں میں دستور تھا کہ کسی عورت کے بال چھوٹے ہوتے تو وہ مصنوعی بال جوڑ کر بڑے کر لیتی۔ اُن کو دیکھ کر عرب کی مسلمان عورتوں میں بھی اس کا رواج ہو گیا ؛ چنانچہ ایک دفعہ ایک عورت نے سیدہؓ کے پاس آکر عرض کی کہ میری بیٹی کے بال بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے ہیں۔ آج وہ دُلہن بنی ہے کیا بال جوڑ دوں ؟ جواب میں صدیقہؓ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والوں اور جوڑنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ ( مسند احمد )
(5) عہد رسالت کے بعد مختلف قوموں کے ساتھ میل جول، تمدن کی وسعت اور دولت کی فراوانی کی وجہ سے مسلمان خواتین میں زیب وزینت اور رنگینی کا چلن کافی بڑھ چکا تھا۔ اس حالت کو دیکھ کر تنبیہ کے انداز میں فرمایا : ’’عورتوں نے زینت و آرائش کی جو نئی نئی باتیں پیدا کی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں ہوتے اور ان کے یہ اطوار دیکھتے تو جس طرح یہود کی عورتیں مسجدوں میں آنے سے روکی گئی تھیں یہ بھی روک دی جاتیں۔‘‘  (بخاری)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146