ہاں کیا کروں، ہمارے خاندان کی بیٹیوں کے نصیب ہی خراب ہیں، بہوئیں عیش کررہی ہیں ہمارے گھروں میں‘‘۔ اکثر شبنم یہ دکھڑا روتی رہتیں۔ ان کی بیٹیاں پھوہڑ تو تھیں ہی، بدزبانی بھی بہت کرتی تھیں۔ جب کہ شبنم نے خدمت گزاری سے شوہر کا دل جیتا تھا اور سسرالیوں کے آگے کبھی جواب نہ دیا۔
شبنم کے شوہر ملازمت پیشہ تھے، گزر اوقات نپے تلے انداز سے ہوتی تھی۔ جب بڑی بیٹی دس سال کی ہوئی تو شبنم نے ملازمت اختیار کرلی۔ صبح ناشتا بنا کر رکھ جاتی، شام کو واپس آکر سالن روٹی کا بندوبست کرلیتی۔
یونہی دن نکل رہے تھے۔ نہ لڑکوں کا پتا تھا کہ کیسا پڑھا، کیا تمیز سیکھی۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ بچوں کی کوئی خواہش نہ رہ جائے۔ ابھی پانچ، چھ سال ہی گزرے کہ بڑی بیٹی کی شادی کا خرچ آگیا۔ ساتھ ساتھ بیٹے کی بھی شادی کردی۔ ایسی ہی چھوٹے بچوں کی بھی ہوگئی۔ جب بیٹیاں سسرال گئیں تو ان کو پتا چلا کہ کیا کمی رہ گئی۔ آئے دن شوہر سے لڑ جھگڑ کر آجاتیں، نہ کام وقت پر کرتیں نہ ادب آداب سے کسی سے بات کرتیں۔
بیٹی فوزیہ کو بھی پیسے کمانے کا جنون چڑھا۔ شروع شروع میں تو شوہر نے منع کیا کہ گھر بار سنبھالو، ابھی بچے چھوٹے ہیں، کل یہ بڑے ہوجائیں گے، ماں ہر وقت بچوںکے ساتھ رہتی ہے، ان کو اچھے برے کا بتاتی رہتی ہے۔ ’’میں انہی کی اچھائی کے لیے تو کمانے نکلی ہوں۔ میرے بچے بڑے سے بڑے اسکولوں میں پڑھیں گے، اچھے سے اچھا کپڑا پہنیں گے، کھانا پینا بھی اچھا ہوگا‘‘۔ شوہر یہ سب سن کر خاموش ہوجاتے۔ دن پَر لگا کر اْڑ گئے، بچے بھی بڑے ہوگئے۔
ان کی بیٹیوں نے کام تو کیا لیکن بے ڈھنگا، بے تکا۔ کیوں کہ ماں کی تربیت ہی نہیں تھی اور نہ وقت تھا۔ وقت تو ایک اہم کام میں خرچ ہورہا تھا۔ ہاں پیسہ کمانے میں… خالہ رضیہ نے شبنم اور فوزیہ دونوں کو بات سمجھائی کہ بڑے سچ کہتے ہیں کہ جو عورتیں کمانے کی ذمے داری اٹھاتی ہیں وہ خود دہری ذمے داری لے رہی ہیں۔ نہ تو گھر کو توجہ دیتی ہیں نہ اولاد کی صحیح تربیت ہوتی ہے۔ ایسی ہی ضرورت پڑ جائے تو گھر میں رہ کر کمانے کا بندوبست کرلیں، اس طرح گھر کے بڑے بوڑھے بھی خوش ہوں گے اور بچوں کی بھی بہترین نگہداشت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہماری ساری ذمے داریوں کے متعلق سوال کرے گا۔