آپ اپنے علاقے کے کروڑ پتی لوگوں کی لسٹ بناکردیکھ لیں۔آپ حیران رہ جائیں گے کہ انھوں نے ان کروڑوں کی کیا کیا قیمت چکائی ہے۔ مثلاً وہ گھر داماد تھا اور دوسرے شہرسے سائیکل پر پانچ پانچ کلو سامان لے کر آیا کرتا تھا اوربازارمیں اپنے سسرکی پرچون کی دکان پہ بیچا کرتا تھا۔ آج چالیس سال کے بعد اس کے پانچ سے زیادہ گودام ہیں جہاں کنٹینرزکے حساب سے مال آتا ہے اورٹرکوں کے حساب سے لوڈہوہوکر مارکیٹ میں سپلائی ہوتاہے۔آج شہرکے چند کروڑپتی لوگوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔بے شمار جائیدادوں، گاڑیوں اور کوٹھیوں کامالک ہے۔بزنس کی دنیاپہ اس کا راج ہے۔ مارکیٹ میں روزانہ کی بنیادپہ ریٹ وہ دیتاہے۔
اب آئیے دوسرے پہلوکی جانب۔اس کے بڑے بھائی کی وفات ہوئی توجنازہ پڑھ کروہ اپنے آفس میں موجودتھا۔اس کے پاس اپنے بھائی کی بیوہ اور بچوں کودلاسہ دینے تک کاوقت نہیں تھا۔لوگ تعزیت اور سوگ کے لئے آتے اور وہ موجودنہ ہوتا۔ساری نعمتوں کے باوجودپیٹ بھرکر کھانااورجی بھرکرسونااس کے مقدرمیں نہیں۔
اس کاکوئی دوست نہیں۔اس لئے کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں۔کسی فلاحی اور رفاہی کام کی بھی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ایک بار اسے ہارٹ اٹیک ہوا تو ڈاکٹرزنے سختی سے بیڈریسٹ پر بھیج دیااور اس بیڈریسٹ کے دوران وہ پرانے کھاتے اورحساب چیک کیا کرتا۔ کسی نے اسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھااورتفریح یا آؤٹنگ کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
اس نے ایک بار مجھ سے پوچھاتھاکہ میں چوبیس گھنٹوں میں کتنی روٹیاں کھاتاہوں۔میں نے کہاکہ کم وبیش پانچ روٹیاں کھاتاہوں تواس نے ٹھنڈی سانس لے کرمیری قسمت پہ رشک کرتے ہوئے کہاتھاکہ تم خوش نصیب ہوجوپیٹ بھرکرکھاناکھاتے ہوجبکہ میں چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ آدھی روٹی کھاتاہوں ورنہ زیادہ تر دوائیاں کھاتاہوں۔میں نے پوچھاکہ حاجی صاحب آپ رات میں سوتے کتناہیں؟جواب میں انھوں نے ایک محرومی سے پھرپورآہ بھری اورکہاکہ ڈھیرساری گولیاں کھانے کے باوجودبمشکل دوگھنٹے سوپاتاہوں۔
یہ وہ چند قیمتیں ہیں جواس نے کروڑپتی ہونے کی چکائی ہیں۔اب وہ ذاتی طور پرکن کن محرومیوں کاشکارہے؟۔اس بارے میں کوئی دوسراکچھ نہیں کہہ سکتااور یہ کسی ایک شخص کی داستان نہیں،اکثرکروڑپتیوں کی کہانی ہے اورسامانِ عبرت ہے۔
کوئی بھی سہولت ہو،وہ اپنی قیمت ضروروصول کرتی ہے۔مثال کے طورپہ اگرآپ اچھی صحت چاہتے ہیں تواس کے لئے وقت کی قربانی دیناہوگی۔واک کرناہوگی اورورزش کے لئے وقت نکالناہوگا،پسینہ بہانا ہوگا۔ اگر آپ خوب گہری نیند سوناچاہتے ہیں تودن بھرایمانداری سے کام کے بعد مطمئن ضمیرلے کر بسترپہ جائیں اورجی بھرکر مزے کی نیند سے لطف اندوزہوں۔صبح تازہ دم اور ہشاش بشاش اٹھیں اورپھرسے ایک نئے دن کی ابتداء کریں۔
کیلکولیٹرنے پہاڑے،کمپوزنگ نے خطاطی اور کتابت،ڈش ٹی وی اورکیبل نے مطالعہ اور اسمارٹ فون نے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی جگہ لے لی ہے۔ پہلے میلوں کاسفرکرکے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں جایاجاتاتھااورآج ایک ہی جگہ اکٹھے بیٹھ کر بھی اکیلے اور تنہاہیں۔جیسے جیسے سہولتیں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے وقت جیسی نعمت سے برکت اٹھتی جارہی ہے۔ میڈیکل سائنس میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی ہونے کے باوجودبیماریوں میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ ذرائع آمدو رفت میں بے پناہ اضافہ ہونے کے باوجوداورذاتی گاڑیاں ہونے کے باوجود کسی اپنے کے ہاں جانے کے لئے وقت نہیں ہے۔ دولت کی فراوانی توہے لیکن خوشحالی نہیں ہے۔ اچھا بزنس اوراچھی جاب توہے مگرآسودگی نہیں ہے۔ گاڑی اور بنگلہ توہے مگر اطمینان نہیں ہے۔نرم وملائم بستر توہے مگر نیندنہیں ہے۔ سب کچھ سمیٹ لینے کی ہوس توہے مگر احساس ِ تحفظ نہیں ہے۔ چاہئے تویہ تھاکہ اتنی ساری سہولتوں کے ہوتے ہوئے صلاحیتیوں کو زنگ نہ لگنے پاتا،مگربے چینی ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
ان ساری سہولتوں اور آسانیوں کو پانے کے چکر میں یہ احساس تک نہ ہواکہ ہم نے کیا کیا کھودیا ہے۔ آج جب یہ احساس ہواہے توازالہ ممکن نہیں۔آج سے یہ ہم پہ ہے کہ کیسے ہم سہولت اور صلاحیت میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔میرے نزدیک اس کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ اپنی سہولتوں اورآسانیوں میں ان کو ضرور شامل رکھیں جوان سے محروم ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی آپ کی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگنے دے گا۔lll