عورت کو معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بنیاد کے پتھر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا اساسی منصب قدرتی طور پر ایک تخلیق کار کا ہے،اس طرح کہ اس کا وجود انسانی تخلیق کا سرچشمہ قرار پاتاہے۔یہی سبب ہے کہ وہ معاشرے پر اپنے پورے احساسات، جذبات اور خیالات کو برتنے کا ہنر جانتی ہے۔عورت کی یہ بنیادی حیثیت ازلی ہے اور تا ابد قائم رہے گا تاہم عورت کے مقام اور مرتبے کو معاشرے نے تقریباً ایک زمانے تک حاشیے پر ڈال رکھاتھا۔اس سلسلے میں تو ایسے آج بھی یہ دعوا نہیں کیا جاسکتا کہ اسے کامل آزادی مل گئی ہے تاہم صورت حال پہلے سے غنیمت ہے۔تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ماقبلِ اسلام یعنی دورِ جہالت میں اس کی سماجی حیثیت بالکل صفر تھی۔یہ مردوں کے جبر و استبداد کا شکار تھی لیکن وقت نے کروٹ لی اور ظہورِ اسلام کے بعد باوقار طریقے سے عورتوں کے حقوق اور ان کے سماجی مرتبہ کا تعین کیا گیا۔ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا گیا اور اس کی انفرادی شخصیت کا اعتراف کیا گیا۔ عورتوں کو نہ صرف شب وروز کی زندگی اور اس کی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا بلکہ اسے معاشرے کا اہم ستون گردانا گیااور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے اس کے رول کو کلیدی مانا گیا۔عورتوں نے مردوں کے شانہ بہ شانہ زندگی کے ہر مرحلے کو طے کرنے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کااستعمال کیا۔عورتوں کے مزاج میں یہ وسعت اسلام کی دین ہے۔اسلام نے عورتوں کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا۔لہٰذا اسلامی مملکت میں بیوی اپنے شوہر کی اَردھانگنی نہیں ہوتی، جو تا حیات شوہر کے زیر تصرف رہتی ہے بلکہ اسے باوقار سماجی منصب عطا کرتے ہوئے اسلام نے خلع اور شوہر سے گلو خلاصی کے حقوق بھی فراہم کئے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت کی رْو سے اسلامی سماج کی عورت اپنے خاوند کا لباس اور شوہر اپنی بیوی کا لباس ہے یعنی بحیثیت انسان یہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔یہی سبب ہے کہ اسلام نے عورت سے ستی ہونے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا اور اسے انسانیت پر مبنی اپنے آفاقی تصورِ حیات کے منافی جانا۔
اسلام نے معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت کی یہ فلاسفی رکھی کہ اس کے تعامل اور اشتراک سے سماجی زندگی میں آسانی پیدا ہوگی۔چنانچہ حدیث رسول ﷺ میں عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب اوربنی سے براہ راست سوال پوچھنے اور استفسار کامشورہ دیاگیا ہے۔حضرت عائشہ کے مطابق… نبی کریم زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہمیشہ آسان راہ کا انتخاب کرتے تھے ،چونکہ مردوں کا عورتوں کے ساتھ میل جول زندگی میں آسانی و سہولت پیدا کرتا ہے …اس لیے ہم ہمیشہ نبی کریم کو زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
معاشرتی زندگی میں عورت مرد کی شرکت کا دوسرا اسلامی محرک وہ ہے، جو اسے خیر کے بہت سارے میدانوں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔اس کو مختلف و متنوع تجربات سے ہم کنارکرتا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔یہ بات مکمل صورت میں اس وقت سامنے آئے گی جب ہم معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت کے بقیہ محرکات جیسے عملِ خیر،طلب علم ، حفظان صحت، عدلیہ،سیاست اور دیگر معاشرتی سرگرمیوں میں ان پر اعتماد کرپائیں گے اور ان کی شراکت کویقینی بنائیں گے۔
آزادیِ نسواں کے متذکرہ اسلامی تصور کی روشنی میں ہم پاتے ہیں کہ اسلام نے ایک دائرئہ میں رہتے ہوئے عورت مرد کے درمیان سلام و نیاز کے تبادلہ، طلب علم کے دوران، مسجد میں، مناسک حج کے موقع سے،جہاد کے میدان میں،جنگ کے بعد رخمیوں کی دیکھ بھال میں،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے امر میں،اچھی چیز کی پیش کش یا کسی اچھی چیز کے مطالبے کے دوران، جوڑے کی تلاش، شادی کا پیغام دینے اور شادی کے وقت مرد عورت کی ملاقات،تقریبات اور ولیمہ کی دعوت میں،زیارت کے وقت،اظہارِ محبت اور حسن نگہداشت کے دوران،اعزاز و اکرام اور اعترافاتی تقریب کے موقع سے،ضیافت، طلب دعا،ہدیوں کے تبادلے،مریضوں کی عیادت،سفر کے دوران،وفات سے متعلق مختلف امور کی انجام دہی کے موقع سے، گواہی، سفارش، مباہلہ اورمسلمان مردوں کی غیر مسلم خواتین سے ملاقات اور معاشرتی شراکت کا انتظام کیا ہے۔
مرد و زن کی شراکت کے عمل سے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں مسلم خواتین نے عہد نبوی میں بھی مختلف پیشہ ورانہ کاموں میں اپنی فعال حصہ داری درج کرائی ہے۔اجرت اور معاوضہ پر رضاعت اور دایہ گری ،گلہ بانی، کاشت کاری اور پودا لگانا، گھریلو صنعت جیسے ’بردہ‘بنانا،عطر کا کاروبار،پیشہ ورانہ کام کا نظم و انصرام چلانا،علاج و معالجے کے معاملے میں عورتوں کا مریضوں کو دوا پلانا،مسلح افواج کو اپنی خدمات پیش کرنا،صفائی ستھرائی کے کام کرنا،گھریلو کام کی انجام دہی کے معاملے میں مسلم خواتین کے واضح نقوش ملتے ہیں۔
خواتین کی آزادی کے اسلامی تصور کا باب انتہائی روشن ہے۔یہ سلسلہ عہد رسالت سے لے کر آج تک قائم و دائم ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ آج کے مسلم معاشرے میں اسلامی تصورِ آزادی کی زمینی حقیقت اور نوعیت کیا ہے۔ البتہ اسلامی اسٹیٹ کی جب بھی بات ہوگی تو اس میں اسلام کے ذریعے خواتین کو دی گئی جملہ آزادی کا باب بلاشبہ روشن تر ہوگا جیساکہ عہد رسالت کے اسلامی سماج میںاس تصور کی شکلیںموجود ہیں۔ خواتین کی آزادی کے باب میںیہ اسلامی تصور دراصل وہ پیمانہ یاآئینہ ہے جس میں عصر حاضر کی نام نہاد تصور نسواں کی پامال اور قدروں سے تہی دامن تحریک کامکروہ چہرہ دیکھا جاسکتا ہے۔اس امر کی جانب اشارہ اب تقریباً بے معنی سا لگتا ہے کہ آزادی کے نام پر آج کی عورت استحصالی صارفیت کے عہد میں ایک کموڈیٹی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ایسے میں اسلامی تصورنسواں بقائے ناموس یا عورت کی حرمت کے تحفظ کی ایک مضبوط پناہ گاہ ہے۔ lll