معاشرے کی تعمیرو ترقی میں عورت کا کردار کلیدی اہمیت کا حاصل رہا ہے۔ تہذیب کے بنانے میں اور نسلوںکی تعمیر میں ایک عورت بحیثیت ماں، بیوی، بہو اور ساس اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ لیکن قابل غور و فکر ہے کہ معاشرے نے عورت اور اس کردار کے ساتھ کیا کیا آج ہمارے سماج میں دو بڑے ایشوز اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک زوجین کے باہمی تعلقات، دوسرا والدین اور اولاد کے تعلقات۔ ان تعلقات کی وجہ سے سماج میں خاندانی اقدار متاثر ہو رہی ہیں اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔ لیکن چند اہم وجوہات میں سے ایک آج کا تعلیمی نظام ہے۔ بہترین تعلقات کے یے جو چیزیں ضروری ہیں وہ ہیں پیار، محبت، ایثار، قربانی، عفو و در گزر اور ان سارے جذبات سے آج کا تعلیمی نظام خالی ہے۔ اس کے برعکس آج فرائض کی ادائیگی سے زیادہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا رجحان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عورت اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھائے بلکہ اسے پورا حق ہے۔ انسانی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ہیں جہاں عورت نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن آج کی عورت یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ پہلے عورت میں جدید تعلیم کی کمی تھی۔ معاشرتی تربیتی نظام مضبوط تھا۔ گھر کا ماحول اور خاندانی نظام خود بخود انہیں خاندانی اقدار سکھا دیتا تھا اور آنے والی زندگی کی تربیت فراہم کر دیتا تھا۔ ان پہلوؤں سے آج کی عورت محروم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم پھر واپس ان سارے پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوں۔
دوسری وجہ آج کا ہمارا میڈیا ہے۔ ٹی وی سیریل کے ذریعے سے ایسی ذہن سازی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پرانی خاندانی اقدار متاثر ہو رہی ہیں اور انسان کی ساری ترجیحات خود اپنی ذات کے ارد گرد گھوم رہی ہیں۔ یہ میڈیا لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ کے لیے بہت سارا مواد فراہم کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم تصورات کی دنیا اور حقیقی دنیا میں فرق نہیں کر پا رہے ہیں۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان لوگوں کے سامنے ایسے کردار پیش کریں جو مثالی ہوں جس سے معاشرے پر اچھا اور بہترین اثر پڑتا ہے۔
تیسری وجہ ایسے NGO’s اور اداروں کی سرگرم جدوجہد ہے جو Gender justice کے لیے کام کرتی ہیں۔ صنفی مساوات کا نعرہ لگانے والی یہ تنظیمیں اس با ت پر ابھارتی ہیں کہ عورت مرد کے برابر ہے۔ ایک طرف عورت کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو دوسری طرف بے جا طرف داری ہو رہی ہے۔ سارے قوانین اسی کے حق میں ہیں۔ اگر ایک مرد اونچی آواز سے بھی بات کرے تو عورت اس کے خلاف معاملہ درج کر دیتی ہے۔ اور بلا تحقیق اس کے خلاف کارروائی شروع کی جاتی ہے جب کہ اسلام ہی برابری بہترین تصور دیتا ہے۔ جہاں تک Rewards & Right کی بات ہے یہ تو برابر ہیں جیسے عورت کو بھی مرد کی طرح اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ مرد کو جیسے اعمال کا اجر و ثواب ہے ویسا ہی عورت کے لیے بھی ہے لیکن رول اور ذمے داریوں میں فرق ہے۔ ان کی جسمانی اور نفسیاتی ودیعتوں کے حساب سے ضروری ہے۔ جسمانی اور نفسیاتی فرق کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان لازماً سوچ میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ نقطہ نظر کے اختلاف کے ساتھ ہی زندگی کو خوش گوار بنانا ہے، اور عورت اس کام کو انجام دے سکتی ہے اور وہ اس کی اہل ہے۔
عورت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ جہیز ایک بڑی اور اہم وجہ ہے تعلقات کی خرابی میں۔ ساس بہو کو طعنے دیتی ہے، جس کی وجہ سے بہو ساس کو برا بھلا کہہ دیتی ہے اور شوہر ان سب چیزوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔
ایک اور وجہ لڑکا لڑکی کی رضامندی کا خیال نہ رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے شادی کردیتے ہیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک عورت شکایت کرتی ہے کہ میرے باپ نے میری مرضی کے بغیر اپنے بھتیجے سے میری شادی کردی تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں پورا اختیار ہے کہ چاہو تو اس نکاح کو باقی رکھو یا ختم کردو۔ یہ سن کر لڑکی نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ نے جو کچھ بھی کیا وہ مجھے خوش دلی کے ساتھ منظور ہے۔ میں تو صرف لڑکیوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس معاملے میں ماں باپ آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام بھی ایک وجہ ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ شوہر بیوی کے تعلقات اچھے رہنے کے باوجود سسرالی تعلقات صحیح نہ ہونے کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نہ ساس بہو کو بیٹی سمجھتی ہے اور نہ بہو ساس کو ماں کا درجہ دیتی ہے۔ اکثر ایسے تنازعات میں دیکھا گیا ہے کہ شوہر بیوی کو الگ گھر کی طرف بڑھا دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ مشترکہ خاندان کے بہت سارے فائدے ہیں لیکن اگر کہیں نقصانات زیادہ ہیں تو بہتر ہے کہ انہیں الگ سے زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ منفرد خاندان کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے زوجین کے تعلقات میں ناخوش گواری پیدا ہوتی ہے ۔ زوجین کے تعلقات میں تنازعہ کا ایک اور وجہ شک و شبہات بھی ہیں۔ زوجین اپنے تعلقات میں شفافیت کو برقرار رکھیں۔ پسماندہ طبقہ میں معاش بھی ایک وجہ ہے۔ مرد دن بھر محنت کر کے ان پیسوں میں شراب پی کر بیوی بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔
ان سارے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے پاس چند تدابیر ہیں جنہیں وومن ہیلپ لائن کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خاندان کی اچھی زندگی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
۱- قرآن و سنت کی روشنی میں حقوق و فرائض کا احساس دلایا جاتا ہے۔
۲- شوہر و بیوی کے تنازعات کی صورت میں دونوں کے والدین کو سمجھایا جاتا ہے کہ بے جا مداخلت نہ کریں۔
۳-کبھی Nuclear family بنانے سے بھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
۴- طلاق کا صحیح و قرآنی طریقہ بتایا جاتا ہے۔ ایک طلاق کے بعد عدت کا دور خود شوہر کے گھر میں گزارتی ہے جس کی وجہ سے ٹوٹتا ہوا رشتہ واپس جڑنے لگتا ہے۔ بیک وقت تین طلاق کے Casesبھی آتے ہیں، مگر ان کو Counselling کیا جاتا ہے کہ قرآنی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- معاشی مسئلہ اگر کسی خاندان کو توڑتا ہے تو پھر اس کو مالی مدد بھی کی جاتی ہے۔
سماج میں ایک طرف لاعلمی ہے دوسری طرف علم و شعور رکھنے والے حضرات کو ان چیزوں سے دلچسپی نہیں۔ شادی ایک سماجی بندھن ہے۔ نکاح فسخ کرنے کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے فریقین کورٹ میں معاملہ درج کرتے ہیں جو مزید پریشانیاں بڑھا دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں Court ہی کے ذریعے سے نکاح فسخ کرتے ہیں۔ لیکن آج مسلمان بھی یہی راستہ اپناتے ہیں ، اس کی وجہ لاعلمی یا صحیح رہ نمائی نہ مل پانا ہے۔ جو لوگ کورٹ جاتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر ہے ہیںتو وہ کہتے ہیں کہ سوائے کورٹ کے کوئی ہے جو ہمارے مسئلے کو حل کرسکے۔
ہمارے معاشرے میں کوئی ایسا ٹھوس ادارہ نہیں جہاں سے یہ کام بحسن و خوبی انجام پاتا ہو۔ ایسا ایک ادارہ آج سے معاشرے میں بہت بہترین نتائج لائے گا۔
ہمارا تجربہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ معاشرے کے ازدواجی تنازعات کو حل کرنے کے لیے جگہ جگہ کونسلنگ سنٹرس بنائے جائیں کیوں کہ معاملات صرف اس وجہ سے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کی صحیح کونسلنگ نہیں ہو پاتی۔ اگر ایسا ہونے لگے تو گھر ٹوٹنے کے زیادہ تر واقعات ختم ہوجائیں۔
اسی طرح شہر شہر دار القضا قائم کیے جائیں جہاں مسلمان اپنے ازدواجی معاملات کو حل کرسکیں اور انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنے اور وقت اور پیسہ برباد کرنے سے بچایا جاسکے۔ اس طرح ہم ملک کے عدالتی نظام کے بھی مددگار ثابت ہوں گے جو پہلے ہی سے زیر بار ہے۔lll