خوش گوار ازدواجی زندگی سے نہ صرف شوہر اور بیوی کو سکون و قرار حاصل رہتا ہے بلکہ پورا خاندان اور معاشرہ کسی نہ صورت میں اس سے سکون حاصل کرتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر ایک جوڑے کی ازدواجی زندگی تناؤ کا شکار ہو تو نہ صرف اس کا اثر زوجین پر پڑتا ہے بلکہ پورا گھر اس کے سبب بے چینی کا شکار ہوکر سکون کھو بیٹھتا ہے۔ بعض اوقات ہی نہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زوجین کے تنازعات کے منفی اثرات گھر اور خاندان سے باہر نکل کر معاشرے کے بھی کسی نہ کسی حصہ کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جو یہاں بحث کا موضوع نہیں لیکن اتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ اگر کسی جوڑے کی ازدواجی زندگی کے معاملات گھر سے نکل کر سماج میں بھی بحث کا موضوع بننے لگیں تو خود جوڑے پر اور سماج پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہر انسان کا اچھا یا برا عمل محض اس کی ذاتی زندگی کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ آس پاس کے ماحول پر بھی کسی نہ کسی طرح اثر ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں ہر شخص اچھائیوں پر خوش ہوتا ہے اور برائی دیکھ کر غم زدہ اور پریشان ہوتا ہے کیوں کہ کہیں نہ کہیں وہ ان کے اثرات سے خود کو، اپنے اہل خاندان کو اور آگے بڑھ کر پورے سماج کو متاثر ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے جہاں اچھائیوں کو فروغ دینے کی تعلیم دی ہے وہیں برائیوں کو مٹانے کا بھی حکم دیا ہے۔ اگر انسان طاقت سے برائی کو نہ مٹا سکے تو اس کے خلاف بولنا ایمان کا تقاضہ ہے اور اگر حالات ایسے بھی نہ ہوں تو کم از کم اس برائی کو اپنے دل میں برا سمجھنا تو اس کم سے کم ایمان کا تقاضہ ہے جو مومن سے مطلوب ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر انسان اپنے دل میں برائی کو برا نہ سمجھے تو پھر برائی کو خود بھی اختیار کرے گا اور یہ رویہ اس کے ایمان اور اس کے اندر کے خیر اور بھلائی کے عنصر کو ختم کردے گا۔
جس طرح نکاح ایک ذاتی عمل ہونے کے ساتھ خاندان و معاشرے کا ایک اجتماعی عمل بھی ہے اسی طرح زوجین کی علیحدگی یا طلاق بھی ذاتی عمل ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی اثرات کا حامل عمل بھی ہے۔ نکاح سے دو افراد، دو خاندان اور سماج کے باہمی رشتے قائم ہوتے ہیں اسی طرح طلاق سے وہ تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں جو نکاح سے قائم ہوتے ہیں۔ طلاق کیوں کہ ایک ایسا منفی عمل ہے جس کے ذریعے بھلائی تلاش کی جاتی ہے اس لیے لازم ہے کہ افراد خاندان اور معاشرہ اس کے منفی اثرات سے تمام متعلق افراد، خاندان اور معاشرے کو محفوظ رکھنے کی بھی کوشش کرے۔
جس طرح نکاح میں لوگ چھان بین اور غور و فکر کرتے ہیں اسی طرح طلاق کے لیے بھی بلکہ اس سے زیادہ غور و فکر اور تدبیر و تذکیر کی ضرورت کا ہونا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان تدابیر کی طرف اشارہ کافی سمجھتے ہیں جو رشتہ ازدواج کو باقی و قائم رکھنے کے لیے قبل از طلاق اختیار کرنے کی قرآن ہدایت دیتا ہے۔ مثلاً افہام و تفہیم اور اگر باہمی طو رپر معاملہ زوجین کے درمیان حل نہ ہوسکے تو خاندان کے تجربہ کار لوگوں کی مداخلت۔ اس طرح کی کوششوں کے ذریعے زوجین، خاندان اور معاشرے کو اس رقابت و عداوت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے جو بلا کوشش نباہ کی صورت میں طلاق کے بعد سامنے آتی ہیں۔ نکاح کے نباہ کے لیے سنجیدہ کوشش نہ ہونے کی صورت میں دونوں خاندانوں کے درمیان مودت اور الفت کا تعلق نہ صرف ختم ہو جاتا ہے بلکہ اکثر فریقین یا کوئی فریق جو خود کو مظلوم محسوس کرتا ہے انتقام اور بدلے کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور بدلہ لینے کے لیے اوچھی تدبیریں اختیار کرنے پر اتر آتا ہے۔ اس سے دونوں ہی فریق سخت حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور معاشرے میں غلط اقدار فروغ پاتی ہیں۔ معاشرہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور دونوں گروپ اپنے مقابل کو بے عزت و برباد کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور یہ چیز دنیا و آخرت دونوں کو تباہ و برباد کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
معاشرتی طور پر طلاق کا منفی اثر فریقین پر تو پڑتا ہی ہے لیکن اس کا سب سے بڑا اثر مطلقہ لڑکی پر پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ یہ سوال کرتا ہے کہ لڑکی کو طلاق کیوں ہوئی؟ یہ سوال اس کے رویوں سے لے کر بعض اوقات اس اخلاق و کردار تک کو موضوع بحث بناتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں لڑکی جھگڑالو ہے، کام چور ہے، نبھاؤ کرنا نہیں جانتی اور ۔۔۔ اور کوئی چکر وغیرہ۔ جب کہ اکثر اوقات مرد کو ان سوالوں کے گھیرے میں نہیں آنا پڑتا۔ اس طرح سماجی اعتبار سے عورت کی شخصیت کو زیادہ نقصان (Damage) پہنچتا ہے اور اس کا مستقبل نئے مسائل سے دو چار ہو جاتا ہے۔
یہ کیفیت جہاں معاشرے کی اخلاقی پستی ، بے دینی اور معاملات کے فہم کی کمی کو ظاہر کرتی ہے وہیں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارا معاشرہ مطلقہ لڑکیوں کی شادی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اگر ہے تو مرد کی محض مجبوری کی صورت میں۔ ہمارے معاشرے کا ایک ذہنی فریم یا سوچ بن گئی ہے کہ طلاق کی صورت میں لڑکی ہی غلط ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کے سلسلے میں سب کچھ دیکھتے ہیں مگر دین کو نہیں دیکھتے۔ بعض اوقات اچھی تعلیم یافتہ اور دین دار لڑکیاں جاہل اور بدکردار لوگوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں اور ان کے سامنے دو میں سے کوئی ایک اختیار ہوتا ہے کہ وہ شادی کو باقی رکھیں یا دین داری کو۔
مطلقہ کی معاشرتی زندگی کو ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگتا ہے جب میکے میں کچھ مدت گزرنے کے بعد اس کے گھر والوں کا رویہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بھائی، بھاوج اور بعض اوقات ماں باپ تک اس سے اکتانے لگتے ہیں اور اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنے میکے والوں پر بوجھ ہو رہی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت اور زیادہ شدید ہوتی ہے جب میکے والے معاشی اعتبار سے کمزور یا بس پورے سورے سے ہوں۔
بعض اوقات مطلقہ کے ساتھ ایک یا ایک سے زائد بچے ہوتے ہیں اور اس صورت میں وقت کے ساتھ ساتھ بچے اور ماں کے اخراجات اور ضروریات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہی معاشی ضرورت دیگر معاشرتی مسائل کا سبب بننے لگتی ہے۔
مطلقہ کے لیے معاشرتی مسائل کا معاملہ تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ جھیلنے کی عادی ہو جاتی ہے یا لوگوں کو کچھ عرصے بعد دوسرا نیا موضوع مل جاتا ہے اور یہ بیک گراؤنڈ میں چلی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے معاشی مسائل یا تو لڑکی کے وقار اور خود داری کو مجروح کرتے ہیں یا اسے خود کفیل معاشی زندگی کے لیے اسے ذرائع آمدنی اختیار کرنے پڑتے ہیںجو اس کی عزت اور وقار کو ٹھیس پہنچاتے ہوں۔ ایسے میں اس کے لیے بڑی دشواری کھڑی ہو جاتی ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ اور ٹرینڈ ہے تب بھی باعزت روزگار دشوار ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں تو پھر وہ گھر گھر جاکر خادمہ کا کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے پڑھی لکھی خود دار لڑکیاں محض اپنی معاشی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے ڈومسٹک ہیلپ کا کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ایسے میں اگر وہ نئی عمر کی ہیں تو لالچی نگاہوں کا مقابلہ اور اپنے کردار کا تحفظ ان کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے۔
طلاق کی صورت میں ایک لڑکی ہی نہیں اس کا خاندان اور اس کے خاندان کے عزت و وقار کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ کسی ایک لڑکی کی طلاق کے سبب اس خاندان کی دوسری لڑکیوں کی شادیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ دوسری لڑکیوں کے لیے جب رشتے آتے ہیں تو لوگ یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ اس گھر میں تو پہلے سے ایک طلاق شدہ لڑکی موجود ہے اس طرح دوسری لڑکیوں کے رویہ، معاملات اور اخلاق و کردار کو بھی خورد بین سے دیکھا اور جانچا جانے لگتا ہے۔
خاندان، معاشرے اور خود فریق پر جو طلاق کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا بنیادی سبب تو سماج اور معاشرے کی بگڑی اور غیر اسلامی سوچ ہے، جس نے شریعت اور اللہ اور رسول کے ذریعے دی گئی رعایت کو عیب اور برائی بنا دیا ہے۔ اسی طرح سماج اور معاشرے کا وہ غلط رویہ بھی ہے جو ایک مطلقہ لڑکی کے ساتھ وہ اختیار کرتا ہے۔ حالاں کہ ضروری نہیں کہ ہر طلاق شدہ لڑکی غلط ہی ہو اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ آئندہ کی ازدواجی زندگی میں بھی لڑکی کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو اس سے پہلے ہوا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ طلاق کا سبب لڑکی ہی کی غلطی رہی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ مطلقہ آئندہ کی ازدواجی زندگی میں بھی اسی رویے پر قائم رہے گی اس لیے کہ انسان ماضی سے سبق لے کر مستقبل کو اپنے تجربات کی بنیاد بہتر بنانے کی یقینا کوشش کرتا ہے۔
خاندان اور معاشرے کو طلاق کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے سماج کے فکری سانچوں کو درست کریں اور یہ سمجھیں کہ اگرچہ طلاق اس حیثیت سے بری چیز ہے کہ وہ دو رشتوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے، مگر جب رشتے کو آگے بڑھانا عذاب زندگی بننے لگے تو اس کو اچھی زندگی میں تبدیل کرنے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بتایا ہے۔ اگر ہم اس کا احترام نہیں کریں گے تو پورا سماج بحران سے دو چار ہوجائے گا۔
ہمارے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں بھی طلاق ہوتی تھی۔ صحابہ اور صحابیاتؓ کے طلاق اور خلع کے واقعات ہمارے سامنے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ طلاق تو دراصل کسی وجہ یا وجوہ نباہ نہ ہونے کے سبب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں طلاق شدہ عورت یا مرد کا طلاق شدہ ہونا عیب تصور نہیں کیا جاتا تھا اور معاشرہ انہیں بلا تکلف پھر سے رشتہ ازدواج کی پیشکش کرتا تھا۔ خود رسولِ پاکؐ کی بیٹی اور آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کے درمیان طلاق ہوئی اور ان کی بعد کی ازدواجی زندگی اچھی اور کامیاب گزری۔
مسلم سماج کو طلاق کو برائی اور مطلقہ کو برا سمجھنے کی نہیں بلکہ اسلام کے متعین کردہ دین داری کے معیار کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک ہم انہیں اختیار نہیں کریں گے ہمارا سماج مسائل کا شکار رہے گا۔