گرمی دانے یا پت جنہیں عرف عام میں پریکلی ہیٹ بھی کہا جاتا ہے، سے عموماً چھوٹے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی عمومی وجہ در اصل یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے پسینے کے غدود چوں کہ ابھی پوری طرح فعال نہیں ہوئے ہوتے اور زیادہ تپش اور گرمی کے موسم میں جسم کو ٹھنڈا نہیں کر پاتے اور اسی لیے گرمی دانے نکلنے لگتے ہیں۔ ان دانوں کے پیدا ہونے کی ممکنہ وجوہات میں سخت گرم موسم کا ہونا، بچے کو ایسے کمرے میں رکھنا جہاں بہت زیادہ گرمی ہو پھر اسے گرم موٹے کپڑوں میں لپیٹنا یا پھر اس وقت بھی یہ دانے ہوجاتے ہیں، جب بچے کو پیدائشی یرقان کے چیک اب کے لیے انکوبیٹر میں رکھا گیا ہو۔
پسینے کے غدود کے سبب اندرون جلد پسینے کا اخراج شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان دانوں میں ہلکی سی سوزش شروع ہو جاتی ہے، جو عام طور پر کچھ دنوں کے بعد غائب بھی ہوجاتی ہے۔ اگر آپ ان دانوں کو کسی محدب عدّسے کے ذریعے دیکھیں تو ہر دانے میں آپ کو پسینے کا نہایت مہین مسام بھی دکھائی دے گا۔ وہ بچے جن کا رنگ صاف اور گورا ہوتا ہے، انہیں گرمی دانوں کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔
گرمی دانوں کا نکلنا کوئی پریشان کن صورتِ حال نہیں ہوتی یہ عام طور پر نکل بھی آتے ہیں اور غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ہاں اگر موسم کی تبدیلی کے بعد بھی یہ دانے برقرار رہیں اور بڑھتے چلے جائیں تو پھر ایسی صورت میں ڈاکٹر سے فوراً رجوع کریں۔
علامات
بچے کے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نکل آئیں، کبھی کبھی ان دانوں میں مواد بھی نظر آجاتا ہے۔
یہ دانے جسم کے ان حصوں پر زیادہ ہوتے ہیں جہاں پسینہ زیادہ آتا ہے۔ مثال کے طور پر نیپی بدلتے ہوئے اس کی جانگھوں میں نظر آجائیں یا اس کے شانوں یا گردن پر ہوں یا بغلوں میں ہوں یعنی جہاں جہاں پسینہ زیادہ آتا ہے وہاں وہاں یہ دانے بھی موجود ہوتے ہیں۔
اگر یہ دانے بہت زیادہ ہوں تو بچہ بے چینی محسوس کرتا ہے اور بے آرام ہو جاتا ہے۔
بچے کے دونوں گال سرخ اور دہکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا کرنا چاہیے
بچے کا لباس اُتار دیں اور اِسے سادے پانی سے نہلا دیں۔ (ٹھنڈے پانی سے نہیں) اگر فوری طور پر اسے نہلانا ممکن نہ ہو تو گیلے کپڑے سے اس کے پورے بدن کو پونچھ دیں اور جسم کو گیلا رہنے دیں۔
اس کی نیپی تبدیل کریں اور اسے صاف و خشک و آرام دہ لباس پہنا دیں۔ بچے کے چہرے اور پیشانی کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے کا عمل جاری رکھیں۔ پھر یہ دیکھیں کہ بچہ جس کمرے میں ہے وہ بہت زیادہ گرمی تو نہیں ہے۔ اس کمرے کا درجہ حرارت 16-20 ڈگری تک ہونا چاہیے۔ اگر درجہ حرارت وہی ہے تو پھر بچے کو آرام مل جائے گا۔
اگر کمرہ بہت زیادہ گرم ہو رہا ہے تو پھر کھڑکیاں کھول دیں، پنکھا چلا دیں لیکن دھیان رکھیں کہ پنکھے کی ہوا کا رخ براہ راست بچے کی طرف نہ ہو۔
بچہ اگر جوس وغیرہ پیتا ہے تو پلاتی رہیں۔ اگر آپ بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہیں تو پھر یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ بہتر ہے کہ اس کا دورانیہ بڑھا دیں۔
بچے کے دانے اگر زیادہ ہیں تو پھر اسے نھلانا زیادہ مفید ہے لیکن پانی میں کچھ شامل نہ کریں، بلکہ سادے پانی سے نہلائیں۔
ایسی صورتِ حال میں بعض اوقات ٹالکم پاؤڈر بھی جلد پر سوزش پیدا کردیتا ہے لہٰذا اس کے استعمال سے بھی پرہیز کریں۔
احتیاط
بچے کو باہر کی گرم فضا میں نہ لے جائیں۔ اگر گرم موسم میں بچہ گاڑی کے اندر موجود ہے تو گاڑی کی فضا اچانک گرم ہوسکتی ہے اور بچہ پانی کی کمی یا لو کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔
ضمنی دوائیں اور علاج
دیسی نباتاتی طریقۂ علاج میں بے شمار سکون بخش جڑی بوٹیاں دستیاب ہیں جس میں رومن کیمومائل اور ایکانیسیا شامل ہیں، جنہیں جلد پر براہِ راست لگانے کے علاوہ بطور مرہم و لوشن کے لگانے سے بھی گرمی دانوں کی بے چینی میں کافی حد تک کمی کی جاسکتی ہے۔
ہومیو پیتھی میں (urtica)ارٹیکا (Urtica 6C urens, nettle)استعمال کراتے ہیں اور خارش دور کرنے کے لیے ارٹیکا کا مرہم دیا جاتا ہے۔ اروماتھراپی میں مالش کے لیے تیل دیتے ہیں، جس سے اگر دانوں کی وجہ سے ورم آگیا ہو تو وہ ختم ہو جاتا ہے اور بچے کی جلد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ پھلوں و پھولوں سے علاج کے سلسلے میں ترش سیب کے رس کو ڈھیر سارے پانی میں ملا کر ہلکا کر کے براہِ راست متاثرہ حصوں پر لگا کر فوراً خشک کرنے کے بعد سکون بخش مرہم لگانے سے بھی بچے کو فوراً آرام ہو جاتا ہے۔
میلیا و دیگر جلدی سوزش
نو مولود بچوں میں عام طور پر دانے اور دھبے وغیرہ ہوجاتے ہیں۔ اس میں سے زیادہ تر ان غدود کی وجہ سے ہوتے ہیں جو رحم مادر سے باہر آکر ایک نئے ماحول اور ایک نئی دنیا سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عام طور پر خود بخود ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔
لیکن زیادہ تر ماؤں کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ بچے کے ان دانوں کا سبب کیا ہے۔ اسی لیے وہ اگر احتیاطی طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرلیں تو بہتر ہوتا ہے۔
میلیا (Milia)
میلیا بچے کے چہرے پر سفید ننھے ننھے دھبوں کو کہا جاتا ہے۔
اس کی تین اقسام ہیں۔ بچے کی ناک پر زردی مائل گلابی دھبے (یا اس کی پیشانی اور چہرے پر) اس کا سبب وہ ننھے غدود ہیں جو ایک خاص قسم کی چکنی شحمی رطوبت پیدا کرتے ہیں۔ جنہیں شحمی غدود (Sebaceous Glands)کہا جاتا ہے۔یہ رطوبت جسم کے لیے قدرتی چکناہٹ کا کام انجام دیتی ہے۔
سیبم (Sebum) کی ضرورت سے زیادہ پیداوار ان ہی ہارمونز کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ مارمونز ابتدائی چند ہفتوں میں اپنا واضح اثر دکھاتے ہیں اس لیے میلیا ہو جایا کرتا ہے اور جب ہارمونز اور سیبم (Sebum) کی کارکردگی معمول کے مطابق ہوتی ہے تو یہ نشانات غائب ہو جاتے ہیں۔ اس دوران یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ میلیا غائب ہوتے ہوئے اپنا کوئی نشان چھوڑ جائے۔
دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو پسینے کے غدود کے بند ہوجانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ دانے ان جگہوں پر زیادہ نمودار ہوتے ہیں جو بہت زیادہ گرم ہوں۔ اس میں بچہ بہت بے قرار اور بے چین رہتا ہے اور یہ دانے اس کے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔
اس میں یہ کرنا چاہیے کہ بچے کو ہلکے کپڑے پہنائیں یا اسے سادے پانی سے نہلا دیں۔ ضروری ہے کہ نہلاتے وقت لازمی طور پر ٹھنڈے پانی کے استعمال سے گریز کریں۔ یہ دانے ویسے تو چند دنوں میں غائب ہوجاتے ہیں لیکن ان کی واپسی کا امکان باقی رہتا ہے۔
میلیا کی تیسری قسم وہ ہوتی ہے جو ایک قسم کے پروٹین کمپاؤنڈ کیراٹن کی وجہ سے نمودار ہوتی ہے۔ سفیدی مائل دھبے چہرے پر یا کبھی کبھی جسم کے دیگر حصوں پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ یہ میلیا چند ہفتوں میں صاف ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی نشان بھی نہیں رہتا۔
جلد کی سرخی
تقریباً نصف فیصد نوزائیدہ بچوں میں سرخ دھبے ان کی جلد پر نمودار اور واضح دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دھبے زیادہ تر پشت سینے اور پیٹ پر ہوتے ہیں اور ہر دھبے کے بیچ میں ایسی کھرنڈ موجود ہوتی ہے جس میں بعض اوقات انفکشن بھی ہوتا ہے لیکن دو چار دنوں میں یہ دھبے خود بخود غائب بھی ہو جاتے ہیں۔ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں یہ دھبے بہت ہی کم بچوں کو ہوتے ہیں۔
جلد کی دوسری حالتیں
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کی جلد پر غیر معمولی دانے یا دھبے وغیرہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہوتا ہے کہ نئی دنیا میں آنے کے بعد بچے کا دورانِ خون اپنے نئے ماحول سے مطابقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
چند بچوں کے ہاتھ اور پاؤں ابتدائی دنوں میں بھورے مائل نیلے ہوتے ہیں۔ یہ دورانِ خون کے تیز ہونے کی نشانی ہے۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں کو گرم کپڑوں سے چھپا دیا جائے تو ان کی اصل رنگت واپس آجاتی ہے یعنی وہ گلابی ہوجاتے ہیں۔
ایک واضح سرخ نشان یا ابھرا ہوا دانہ یا پُدم بھی بچوں میں عام طور پر ہوتا ہے اور اس کی وجہ باہر کی دنیا میں آکر ان کے دوران خون کا معمول سے کہیں زیادہ تیز ہو جانا ہے لیکن بعد میں ان کے خون کا دوران آہستہ آہستہ باہر کے ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتا ہے۔
ایک اور انوکھی صورتِ حال کچھ بچوں میں یہ ہوتی ہے کہ ان کے جسم کا ایک حصہ تو بالکل گلابی مائل ہوتا ہے جب کہ جسم کا دوسرا حصہ بہت کم دکھائی دیتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ صورتِ حال پریشان کن نہیں ہوتی اور کچھ دنوں کے بعد جسم کے دونوں حصے ایک رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ نو مولود بچوں کی رنگت زرد ہونا ایک عام سی بات ہے۔ خاص طور پر ان بچوں میں جن کی پیدائش دیر سے ہوتی ہے۔ یہ زردی مائل تاثر ان کی کلائیوں، ٹخنوں، ہتھیلیوں اور تلوؤں پر زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
لیکن اس سے بچے کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہیں ہوتی، بے بی آئل یا زیتون کے تیل کی مالش سے یہ پیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔
ضمنی دوائیں اور علاج
پھلوں اور پھولوں سے علاج (Batch Flower Remedy) میں جلد کو فوری سکون بخشنے والی کریمز اور مرہم جب کہ اروما تھراپی میں خاص قدرتی سکون آور روغن جیسے لیونڈر آئل کی براہِ راست جلد پر نرمی سے مالش اس تکلیف دہ صورتِ حال کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔lll