لباس انسان کے وقار و تہذیب کا مظہر ہے۔ بے لباسی و عریانی انسانی فطرت کے خلاف ہے اور اسلام کبھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: ’’اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے وہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکنے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت و زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘ (الاعراف:۲۶)
یہ بڑی اہم بات ہے کہ لباس کو ستر پوشی کے علاوہ اسے زینت کا ذریعہ بھی قرار دیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات قرآن کا یہ اعلان ہے کہ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔ اس سے اصل مقصود اس جانب متوجہ کرنا ہے کہ لباس کو زینت کے طور پر ضرور اختیار کیا جائے۔ لیکن اس میں تقویٰ کا پاس و لحاظ رہے، زینت ایسی نہ اختیار کی جائے کہ یہ شرم و حیاء کے خلاف اور اخلاقی قدروں کے منافی ہو۔ ایسا لباس نہ پہنا جائے کہ لباس پہنے ہوئے بھی بے لباس نظر آئے اور عریانیت کا مظاہرہ ہو۔
یہاں یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے یہ بات ممنوع نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت کی نعمت سے نوازا ہے اور وہ صاحب وسعت ہے تو وہ عمدہ و نفیس لباس پہنے بلکہ ایسا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ اللہ چاہتا ہے کہ جس انسان کو نعمت ملی ہوئی ہے اس کا اظہا رہو۔ البتہ اس سلسلیمیں غرور و گھمنڈ سے بچا جائے۔ ایک حدیث سے یہ معاملہ اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اس نعمت کا اثر اس کے بندے سے ظاہر ہو۔ (ترمذی)
حضرت عمر بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںض کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کھاؤ، پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک اس میں اسراف و تکبر نہ ہو۔ (سنن ابن ماجہ)
ان سب تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی رو سے لباس میں متانت، شائستگی اور عدم نمود و نمائش ہر حال میں مطلوب ہے۔ اس کی مزید تائیداحادیث سے ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا: اشتمال الصماء سے۔ یعنی ایسے لباس سے جو بالکل بدن سے چمٹا ہوا ہو اور دوسرے احتباء سے۔ یعنی ایک کپڑا کو ایسا لپیٹ لے کہ ستر کھلا رہے (ابن ماجہ)۔ لباس میں غرور کے رویہ کے اظہار کی ممانعت اس فرمانِ رسولؐ سے ہوتی ہے کہ جو شخص دنیا میں شہرت و ناموری کے لیے لباس پہنے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا۔ (ابن ماجہ)
عورتوں کے سیاق میں حدیث میں ایک خاص قسم کے لباس کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اس کی جو صفت بیان کی گئی ہے آج کا فیشن زدہ سماج اس کی پورا عکاس ہے۔ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ بہت سی لباس پہننے والی عورتیں بے لباس یا عریاں ہوتی ہیں۔ اس بلیغ جملہ نے انتہائی باریک لباس کی نہ صرف بہترین عکاسی کردی، بلکہ اس خرابی و برائی کو بھی نہایت اچھے انداز میں واضح کر دیا جو اس قسم کا لباس اپنے ساتھ لاتا ہے۔
معاشرتی برائیوں میں سے ایک اسراف اور فضول خرچی ہے۔ اور قرآن اس سے روکتا ہے۔ فرمایا گیا:
ترجمہ: ’’کھاؤاور پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک وہ (اللہ تعالی) فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف:۳۱)
یہاں یہ واضح ہے کہ ’’اسراف‘‘ میں بلا ضرورت کسی چیز کا استعمال کرنا اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا دونوں شامل ہیں۔ عام طور پر اظہارِ خوشی کے مواقع پروگرامس کے علاوہ شادی کی تقریبات میں اس کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسراف کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس سے کھانے پینے کی چیزوں کا ضیاع ہوتا ہے اور محتاجوں او رمحروموں کا حق مارا جاتا ہے۔ دوسرے اس میں نمود و نمائش اور خواہش نفس کی تکمیل کا دخل ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اسراف اور نام و نمود کا دخل ہوتا ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں تکبر و غرور کا بھی شائبہ ہوتا ہے۔ یہ رویہ ہر حالت میں مذموم ہے اور کھانے پینے کے ضمن میں بھی اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میںکھاتا ہوں جس طرح (اللہ کا) بندہ کھاتا ہے اور میں بیٹھتا ہوں جس طرح بندہ بیٹھتا ہے۔
کھانے پینے کے اسلامی آداب میں تین باتیں بہت اہم ہیں: کھانا شروع کرنے سے قبل بسم اللہ کہنا، دائیں ہاتھ سے کھانا اور پلیٹ/برتن میں سے اپنے سامنے سے کھانا۔ حسنِ اتفاق کہ ایک حدیث میں ان تینوں اصولی آداب کو جمع کر دیا گیا ہے۔ حضرت عمر ابن ابی سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بچپن میں آپﷺ کے زیر تربیت تھا۔ کھاتے وقت میرا ہاتھ برتن میں ادھر ادھر پھرتا رہتا تھا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے بچے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور تمہارے قریب جو چیز ہے وہی کھاؤ (صحیح بخاری)
اسی طرح یہ حدیث بھی بہت نقل کی جاتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب کوئی چیز پئے تو دائیں ہاتھ میں لے کر پئے۔ (صحیح مسلم)
یہ بات بخوبی معروف ہے کہ اسلام کی رو سے مہذب طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر کھایا پیا جائے۔ قرآن کریم میں اس باب میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملتی ، لیکن بعض مفسرین نے ایک آیت سے اس ضابطہ کو اخذ کرنے کی کوشش کی ہے او روہ یہ آیت ہے:
ترجمہ: ’’اور جنہوں نے کفر کیا وہ بس (دنیا کی چند روزہ زندگی کا) لطف اٹھا رہے ہیں، وہ جانوروں کی طرح کھاتے ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ (محمد:۱۲)
اس آیت کا مفہوم مفسرین نے عام طور پر یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح کھاتے وقت جانور کی غرض صرف پیٹ بھرنا اور بھوک مٹانا ہوتی ہے، وہ یہ سب نہیں سوچتا کہ وہ جو کچھ کھا رہا ہے حلال ہے کہ نہیں؟ اس کا چارہ کہاں سے آرہا ہے، کس نے اسے پیدا کیا ہے، اسے دینے والے کا کچھ حق عاید ہوتا ہے کہ نہیں؟ اسی طرح کافر کو بھی جو کچھ مل جاتا ہے وہ بے فکر ہوکر اور حلال و حرام کی تمییز کے بغیر کھاپی لیتے ہیں، وہ یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ کھانے کا مقصد کیا ہے، کون اس کا دینے والا ہے، آیا ہمارے ذمہ اس کا کچھ حق واجب ہے کہ نہیں؟ اس آیت کی تفسیر میں اہم بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے مذکورہ مفہوم بیان کرنے کے بعد یہ بھی لکھا ہے:
’’اس آیت سے ضمناً کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے جس کا آج کل دعوتوں میں عام رواج ہے، کیوں کہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوہ بتایا گیا ہے۔ احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے سختی سے منع کیا گیا ہے جس سے کھڑے ہوکر کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے جانوروں کی طرح کھڑے ہوکر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کھانے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس میں عیب نہ نکالا جائے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی چیز پسند نہیں ہے تو بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دے، لیکن اس میں عیب نہ لگائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا، اگر رغبت ہوتی کھالیتے اور اگر ناپسند فرماتے تو اسے چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری)
اوپر قرآن و سنت کے حوالے سے آدابِ معاشرت کے کچھ اہم پہلو واضح کیے گئے جن میں گھر میں دخول، ملاقات، سلام و کلام، لباس و پوشاک، چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے آداب خاص اہمیت رکھتے ہیں اور معاشرت کی موجودہ صورتِ حال میں ان کی معنویت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔