صابن ایک صفائی کرنے والی شے ہے۔ جب چربی اور الکلی کو آپس میں ملا کر ابال لیا جاتا ہے تو ہمیں صابن حاصل ہو جاتا ہے۔
اس کے لیے کئی حیوانی یا نباتاتی چربیاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ جانوروں کی چربیوں میں بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کی چربی شامل ہے۔ نیز وہیل کا سخت کیا ہوا تیل بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نباتاتی تیلوں میں ناریل کا تیل، پام کا تیل، بنولے کا تیل، زیتون کا تیل، سویا اور دوسرے تیل شامل ہیں۔الکلی میں سوڈا اور پوٹاش جیسی اشیاء استعمال کی جاسکتی ہیں۔ صابن بنانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں اور ان کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ کس قسم کا صابن بنایا جا رہا ہے۔
آج ہمارے پاس درجنوں اقسام کے صابن موجود ہیں، جن کے استعمالات الگ الگ ہیں۔ آج ہمارے پاس ٹوائیلٹ سوپ ہیں۔ برتن دھونے والے صابن ہیں، کپڑے دھونے والے صابن ہیں، قالین دھونے والے صابن ہیں۔ طبی خصوصیات کے حامل صابن ہیں اور متعدد دیگر اقسام کے صابن ہیں جن میں فرش اور دیواریں وغیرہ دھونے کے لیے بھی طرح طرح کے صابن ہیں۔ آج ایسے صابن بھی موجود ہیں جو صرف بچوں کی نرم و نازک جلدکے لیے ہوتے ہیں یا جو صرف چہرہ دھونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
صابن کو جب جلد پر ملا جاتا ہے تو اس کا کچھ حصہ اس سے الگ ہوکر جلد کی چکنائی کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔ یہ جلد پر موجود میل کی تہوں کو صاف کرتا ہے۔ میل کی تہیں اس کے ساتھ مل جانے کے بعد نرم پڑ جاتی ہیں اور پھر وہ پانی سے باآسانی دھل کر صاف ہوجاتی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ ہم صابن سے نہانے کے بعد خود کو زیادہ تر و تازہ محسوس کرتے ہیں۔ صابن کے استعمال سے جسم کے تمام مسام کھل جاتے ہیں، صاف ہوجاتے ہیں اور وہ ’’سانس لینا‘‘ شروع کردیتے ہیں۔
تاہم یہ ضروری ہے کہ صابن ہلکا ہو اور مضر اجزاء سے پاک ہو۔ اس کے اجزاء کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے کہ چربی کے اثرات کے حامل تیزاب اور الکلی ایک دوسرے کے اثر میں توازن پیدا کردیں۔ الکلی کی زیادہ مقدار کا پتہ ایک آسان سے ٹیسٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اور اس کے مطابق صابن کے استعمال کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے لٹمس (Litmus) پیپر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر لٹمس پیپر اپنے ہلکے اور قدرتی رنگ کو برقرار رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ صابن ہلکا ہے لیکن اگر کاغذ کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں الکلی کی مقدار زیادہ ہے۔
علاوہ ازیں اگر کسی صابن کے استعمال کے بعد جلد میں خارش ہونے لگتی ہے یا جلد میں بہت زیادہ خشکی نمودار ہوجاتی ہے تو یہ صابن آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ بہت تیز قسم کے صابن اگرچہ سستے ہوتے ہیں لیکن وہ جلد کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
ایک زمانہ تھاجب صابن موجود نہیں تھا۔ اس وقت چہرے اور جسم کی صفائی کے لیے دوسری اشیاء استعمال کی جاتی تھیں۔ لوگ اپنے جسموں پر تیل ملتے تھے یا طرح طرح کے رس اور نباتاتی عرق وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ کئی قسم کی مٹی بھی جسم کو صاف کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
بیسن میں دودھ ملا کر اس کا لیپ کرنے اور اسے جسم پرملنے کا طریقہ برصغیر میں بہت پرانا ہے۔ اس لیپ کو مزید موثر اور بہتر بنانے کی غرض سے اس میں پسی ہوئی ہلدی اور صندل کو بھی شامل کر دیا جاتا ہے۔ تقریبات کے موقع پر لوگ اسی طریقے سے ابٹن تیار کرتے تھے اور اسے بدن پر ملتے تھے اور ابٹن کا استعمال ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت عام ہے۔ خاص طور سے شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کے جسم پر ابٹن کی مالش کرنا گویا شادی کے لوازمات میں سے ایک ہے۔
آج انسانی چہرے اور جسم کی صفائی کے لیے صابن کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی، گرد و غبار اور موسم کی سختیوں کے مقابلے کے لیے صابن کے استعمال کی اشد ضرورت ہے۔
جلد کو نظر انداز مت کیجئے
اگر آپ اپنی جلد پر کوئی توجہ نہیں دیں گی تو وہ اور زیادہ خراب ہوتی جائے گی اس پر دھول مٹی، میل کچیل اور مردہ خلیوں کی تمہیں چڑھتی جائیں گی جن میں طرح طرح کے جراثیم آزادی کے ساتھ پرورش پاتے رہیں گے، اس کی وجہ سے آپ بہت سارے جلدی امراض میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔
اس صورت حال سے بچنے کی غرض سے صابن کو ہمیشہ پانی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور صابن اور پانی کے آمیزے کی مدد سے جلد کو صاف کیا جاتا ہے۔ پانی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جلد کو گیلا کردیتا ہے اور پھر جب اس پر صابن ملا جاتا ہے تو اس میں جھاگ پیدا ہوتا ہے جو جلد پر موجود گندگی اور چکنائی کو صاف کر دیتا ہے پھر جب جلد پر مزید پانی کے چھپاکے مارے جاتے ہیں تو جلد بالکل صاف ہوجاتی ہے۔
تاہم سب کچھ بالکل ایسا ہی نہیں ہے۔ ہر چیز کے کچھ نہ کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ گندگی کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ صابن جلد پر خشکی کے اثرات بھی پیدا کرتا ہے۔ چناں چہ صابن کے بہت زیادہ استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ صابن کا زیادہ استعمال جلد کو اس کی حفاظتی تہ سے محروم کرسکتا ہے اور اس کی وجہ سے جلد انفیکشن کا اثر بہت جلد اور آسانی کے ساتھ قبول کرلے گی۔
اگر آپ کی جلد دھلنے کے بعد بہت زیادہ خشک محسوس ہوتو آپ اس پر کوئی موئسچرائزر استعمال کریں۔ متبادل کے طور پر ایسے صابن کا انتخاب کریں جس میں تیل اور موئسچرائزر شامل ہوں۔ ایسے صابن بھی مفید ہیں جن میں گلیسرین شامل ہو یا جن میں چربی کی زیادہ مقدار موجود ہو۔ تاہم ایسے صابنوں کو زیادہ عرصے تک نہیں رکھنا چاہیے کیوں کہ اس طرح ان میں بدبو پیدا ہوسکتی ہے۔ صابن میں الکلی، چربی، خوشبو، رنگنے والا مادہ اور بعض اوقات Anti Oxidants بھی شامل ہوتے ہیں، جن کے باعث انہیں زیادہ عرصے تک الماری میں رکھا جاسکتا ہے۔
بعض صابن تو خالصتاً کاسمیٹک ہوتے ہیں جب کہ بعض دوسرے صابن طبی خواص کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ وہ جراثیم کو ہلاک کرتے ہیں۔ فی الوقت جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ صابنوں کا رواج بھی بڑھ رہا ہے اور انہیں خاصے بڑے پیمانے پر تیار اور استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیم، ہلدی اور چندن وغیرہ کے صابن ایک عرصے سے بازار میں موجود ہیں۔ پھولوں کے تیل والے یا جانوروں سے حاصل ہونے والی اشیاء جیسے مشک والے صابن بھی استعمال میں آرہے ہیں لیکن ان کی قیمت زیادہ ہیں۔
خوشبودار صابن
صابنوں کی دنیا میں ایک نیا اضافہ ایسے صابنوں کا ہے جو پھلوں اور پھولوں کے اجزاء او رخوشبو کے حامل ہوتے ہیں۔ آڑو، سیب، رس بھری، چیری، انگور، بادام وغیرہ کی خوشبو کے صابن تیار کیے جا رہے ہیں۔ ملتانی مٹی سے بھی صابن بنائے جا رہے ہیں جو طبی خواص کے حامل ہوتے ہیں اور اسی طرح کی دوسری قدرتی اشیاء سے صابن تیار کیے جا رہے ہیں جو صفائی کی بہت عمدہ قوت کے حامل ہوتے ہیں۔
گلیسرین کے صابن ایک طویل عرصے سے زیر استعمال ہیں۔ گلیسرین ہلکی ہوتی ہے اور وہ خشکی کے اثرات کو کم کرتی ہے۔ یہ جلد کے لیے بہت تیز نہیں ہوتی اور ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو طویل عرصے سے جلدی تکالیف کا شکار ہیں۔
’’اروما تھراپی‘‘ (خوشبو کے ذریعے علاج) والے صابن، صابنوں میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ ان صابنوں میں الکلی کی مقدار کم ہوتی ہے اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ یہ جسم کو ایک صحت مند چمک عطا کرتے ہیں۔
ٹوائیلٹ سوپ اب مختلف شکلوں کی ٹکیوں میں دستیاب ہیں۔ نیز بوتلوں میں رقیق حالت میں بھی دستیاب ہیں۔ رقیق صابن ہاتھ دھونے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ خاص طور سے ہوٹلوں، اسپتالوں، لیبارٹریوں، ہوائی اڈوں اور دوسرے پبلک مقامات پر۔
طبی خواص کے حامل صابن کو جلدی تکالیف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کاربولک ایسڈ والے صابن کو اینٹی سپٹک اثرات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صابن کا انتخاب کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھئے:
٭ ایسے صابن کا انتخاب کیجئے جو آپ کی جلد کے لیے مناسب ہو۔
٭ صابن میں ہلکی سی خوشبو اور ہلکا سا رنگ ہونا چاہیے۔ تیز خوشبو کو غیر معیاری چربی کی بو کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا سکتا ہے۔ گہرے رنگوں کو دیگر نقصان دہ اجزاء کے خراب رنگوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭ اگر کوئی صابن الرجی پیدا کرتا ہے تو اس کے استعمال کو فوراً ہی ترک کردیجیے۔
٭ ایسا صابن بچوں کی جلد کے لیے بہت مفید ہے جس میں زیتون کے تیل کا زیادہ تناسب موجود ہے۔
٭ایسا صابن موسم سرما میں استعمال کے لیے زیادہ مفید ہے جس میں موئسچرائزر کا تناسب زیادہ ہو جب کہ گرمی کے موسم کے لیے لیموں کے اثر والاصابن زیادہ موزوں ہے۔
صابن کی قیمتیں دس بارہ روپے فی عدد سے لے کر کئی سو روپے فی عدد تک ہیں۔ بہت زیادہ قیمتی صابن بھی بازار میں موجود ہیں۔ اگر آپ کو اپنی جلد عزیز ہے اور آپ اس کی مناسب طور پر دیکھ بھال کرنا چاہتی ہیں تو پھر ایک اچھے صابن کا انتخاب کیجیے۔