اس دور میں عام خواتین کے سماج میں بعض نہایت اہم تبدیلیاں ایسی رونما ہوئی ہیں، جن سے غفلت، شہادت حق اور دعوت الی اللہ کی وسعت اور اثر اندازی میں حارج ہوسکتی ہے۔ ہمارے پیش نظر اس وقت صرف اپنے ملک میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
سب سے اہم تبدیلی مسلم خواتین کے درمیان تعلیم کا فروغ ہے۔ سیکولر تعلیم تو بہت تیزی سے بڑھی ہے، اب گریجویٹ مسلم لڑکیوں کے علاوہ پی ایچ ڈی، انجینئرس، ڈاکٹرس اور سائنٹسٹ مسلم خواتین میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ اس اضافے کی شرح غیر مسلم آبادی کی نسبت سے بہت کم ہے، لیکن پھر بھی اضافہ قابل قدر ہے۔ تعلیمی ترقی کا سب سے خوش آئند پہلو مسلم خواتین کی دینی تعلیم میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ آج سے صرف دو دہائیوں قبل خواتین کی دینی تعلیم کے لیے مدارس اور جامعات تقریبا ناپید تھے۔ لیکن اب الحمد للہ، ایسے جامعات اور مدارس قائم ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں، جن میں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد حوصلہ افزا ہے۔
اس دو طرفہ تعلیمی ترقی سے مسلم خواتین میں اعتماد بڑھا ہے۔ ان کے اندر اپنے سماجی حالات کو درست کرنے اور اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ اس کا سب سے امید افزا پہلو یہ ہے کہ دعوت دین سے وابستہ ہونے اور اس میں موثر رول ادا کرنے پر آمادگی بڑھی ہے، اس کے علاوہ ملت اسلامیہ کے بعض اہم اداروں میں بھی ان کی نمائندگی بڑھی ہے۔
دوسری تبدیلی یہ ہے کہ ملک میں خواتین کی ہمہ جہتی تعلیمی اور معاشی ترقی غیر معمولی سرعت سے بڑھی ہے۔ پروفیشنل میدان میں بھی ان کے اثرات بڑھے ہیں۔ اور ان کے اندر یہ امنگ بھی بڑھی ہے کہ وہ سماجی میدان میں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہوں، ان کی ساری جدوجہد کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ مغربی طرزِ زندگی اور کلچر سے بے انتہا متاثر ہیں اور حقوق نسواں اور آزادیِ نسواں کی تحریکوں کے نقطہ نظر کو اختیار کرنے میں اپنی فلاح و بہبود سمجھتی ہیں، اگرچہ روایتی ہندو سماج سے وہ متنفر ہیں اور اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ مگر اسلام کے متعلق غیر مسلم مردوں کی طرح یا تو ناواقف ہیں یا اس کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہیں، ان کے سامنے اسلام کا صحیح اور متوازن تصور کبھی پیش نہیں کیا گیا ہے۔
ان خواتین تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا موثر اور بارآور ذریعہ مسلم خواتین ہی بن سکتی ہیں۔ افسوس ہے کہ اس طرف مناسب توجہ نہ ہونے کی وجہ سے آدھی غیر مسلم آبادی سے ملت اسلامیہ کا دعوتی ربط تقریباً صفر ہے۔ لہٰذا مسلم خواتین کو شہادت حق کے فریضہ کی اجتماعی کوشش کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہے۔یہ محض انفرادی کوشش سے ممکن نہیں۔ ملت اسلامیہ کا رجحان بالعموم یہ ہے کہ خواتین کی دعوتی تحریک کی جو بھی کوشش ہوتی ہے یا ہو رہی ہے، اس کی راہ نمائی اور قیادت مرد حضرات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ضرورت ہے کہ داعی خواتین پر اعتماد کیا جائے، ان کو تجربے کرنے دیے جائیں اور صرف عمومی رہ نمائی اور مشورے پر اکتفا کیا جائے۔ ہم نے خواتین کے بیشتر اجتماعات ایسے دیکھے ہیں، جن کے پروگرام ترتیب دینے میں بھی مردوں کا غیر معمولی دخل ہوتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ملک کے اندر اور باہر، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایسی خواتین ،جو اسلامی تعلیمات کو بھرپور انداز سے تقریر اور تحریر میں پیش کرسکتی ہیں۔ ان کو مواقع فراہم کرنے چاہئیں اور ان کو نئے اور مناسب تجربے کرنے کی آزادی ملنی چاہیے۔ دینی جامعات سے فراغت حاصل کرنے والی طالبات میں سے بہت سی ایسی ہیں، جو ذہین اور حوصلہ مند ہیں اور دعوتی تحریک میں شریک ہونے کی آرزو مند ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اجتماعی جدوجہد کے فروغ میں خواتین کے متعلق ہمارا قدامت پرستانہ موقف حارج ہوتا ہے۔ خاتون خانہ کا ایسا تصور جس کے نتیجے میں شادی کے بعد ہونہار خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو جلا دینے کا موقع نہیں ملتا، اس لائق ہے کہ اس پر ازسرنو غور کیا جائے۔ اس سلسلے میں تعلیم یافتہ خواتین کی معاشی جدوجہد کے لیے تو دین دار ماں باپ بھی مضائقہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی ہمت افزائی بھی کرتے ہیں۔ جہاں تک مغربی نظریات سے متاثر ماں باپ کا تعلق ہے، وہ یہ تلقین کرتے ہیں کہ پیداواری عمل میں مسلمانوں کی آدھی آبادی کا حصہ لینے سے محروم کرنا، ان کی معاشی اور سماجی پس ماندگی کا سبب بنے گا۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ خواتین کا دعوتی جدوجہد میں حصہ لینا، ملت اسلامیہ اور اسلام کی زندگی، اس کی رفعت اور سربلندی اور جدید حالات میں اس کی پیش رفت کے لیے لازمی ہے۔ اس مقصد کے لیے محض اجازت نہیں بلکہ سہولت فراہم کرنا اورترغیب دینا دونوں شامل ہیں۔
ملت اسلامیہ کو داعی خواتین کی تایری اور ان کی اجتماعی جدوجہد کو ممکن بنانے کے لیے منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے سب سے پہلے خواتین کے دینی مدارس میں نصابی تبدیلی کرنا ہوگی، خواتین کو دعوتی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنے کے لیے عائلی زندگی کی مصروفیات میں ضروری تبدیلی لانی ہوگی۔ ٹکنالوجی نے ایسی سہولت فراہم کردی ہے، جس سے وقت بچتا ہے، خاص کر معاشی لحاظ سے خوش حال خاندانوں میں۔ افسوس ہے کہ یہ فاضل وقت تفریحات میں ضائع ہو جاتا ہے، یا گپ شپ میں۔ اس مقصد کے لیے ایسا انتظام کرنا ہوگا، جس سے خواتین داعیات سفر کرسکیں، دعوتی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ مگر ان سے زیادہ اہم یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کے انجام دہی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے شریک کار بن جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مرد اور عورت کو یکساں استعداد اور صلاحیتیں عطا کی ہیں اگرچہ ان کے فطری وظیفہ حیات میں فرق کی وجہ سے بعض امتیازات بھی رکھے ہیں۔ لیکن ان امتیازات کے ساتھ دعوتی جدوجہد میں حصہ لیا جائے تو یہ مزید نتیجہ خیز ہوگی۔
اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دینی اقدار اور اصولوں کو نظر انداز کیا جائے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ دینی تعلیمات کی پاس داری اور حجاب کی شرعی پابندیوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس دور میں بھی مسلم خواتین نے دعوت حق کا فریضہ بہ خوبی انجام دیا ہے، جس کی ایک مثال بیجنگ کانفرنس ۱۹۹۵ء میں مغربی افریقہ کی باحجاب خواتین کی شرکت تھی۔ ان کی اپنی ورک شاپ بھی منعقد ہوئی تھی۔ اس لیے یہ اندیشہ صحیح نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات کی پابندی ان کے داعیانہ کردارکو نبھانے کے قابل نہیں رکھتی۔ ان جیسی داعیانہ کردار اور استعداد کی حامل خواتین کے اندر یہ شعور پیدا کرنا چاہیے کہ اگرچہ ان کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے لیکن ان کی اہمیت اس فریضے کی انجام دہی میں مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔
اگر خواتین بہ راہِ راست ان کوششوں میں حصہ لیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ بہ راہ راست خواتین کے احساسات اور جذبات سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کی رعایت کرسکیں گی۔ انہیں اس کا بہ راہ راست علم ہوتا ہے کہ مسلم سماج کی خواتین، طالبات اور نوخیز لڑکیاں باہر کے کن اثرات سے مغلوب اور متاثر ہیں، ان کی اس مغلوبیت کے کیا اثرات ان کے اسلامی اقدار کے شعور و ادراک پر پڑتے ہیں۔ حجاب کے متعلق ان کے کیا نظریات ہیں اور عائلی زندگی میں حقوق و فرائض کا وہ کیا تصور رکھتی ہیں، اپنی آزادی کو وہ کیا مقام دیتی ہیں، اپنے سماج سے متاثر ہوکر وہ معاشی آزادی اور پروفیشنل زندگی کو کیا مقام دیتی ہیں، اپنے حقوق کے بارے میں کہیں وہ کسی غیر متوازن نقطہ نظر کی حامل تو نہیں ہیں۔ مساجد میں نماز کی ادائیگی کے متعلق پابندی کے بارے میں ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ یہ، اور اسی طرح کے مسائل سے مردوں کی واقفیت بالواسطہ ہونے کی وجہ سے ناقص بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات مرد کی اہمیت کی غماز بھی۔
اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد میں خواتین عملی حصہ لیں۔ اپنے اہتمام میں وہ ایسی اجتماعی تنظیم بنائیں، ایسے مذاکرے اور سمینار کریں، جس سے خواتین استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ مسلم سماج کے عملی مسائل کو حل کرنے میں حصہ لیے سکیں۔