ایک نیا شادی شدہ جوڑا جب اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں کہ جن پر عمل کر کے یہ اپنی ازدواجی رفاقت کو ناخوش گوار واقعات کا نشانہ بننے سے بچا سکتے ہیں؟
پہلی نظر میں دیکھا جائے تو یہ سوال کثیر الجہت نظر آتا ہے اور اس سوال کے ایک کے بجائے متعدد جوابات ہوسکتے ہیں۔ اکثر افراد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’کامیاب ازدواجی زندگی‘‘ کی پشت پر ایک نہیں بلکہ کئی عناصر موجود ہوتے ہیںجو مجموعی طور پر ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگرچہ کبھی کبھار کسی بات پر میاں بیوی کے درمیان ہوجانے والی تکرار ’’ناخوش گوار واقعات‘‘ کے زمرے میں نہیں آتی، ہاں اگر کوئی ایسی بات ہو کہ جس سے گھر کا ماحول ہی یکسر تبدیل ہونے لگے تو یہ تشویشناک ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں سے ازدواجی زندگی میں تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کرتے وقت ہی تھوڑا سا وقت صرف کر کے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر کے اس طویل سفر کا آغاز کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کامیاب ازدواجی زندگی نہ گزار سکیں۔ اس طرح فکری ہم آہنگی بھی ممکن ہوسکے گی اور ایک دوسرے کے لیے ایثار بھی پیدا ہوگا۔
ازدواجی زندگی کے عمومی مسائل
ازدواجی زندگی کا آغاز خوشیوں بھرا ہوتا ہے۔ سب لوگ جوڑے کو ’’ہمیشہ سکھی اور خوش رہو‘‘ کی دعائیں دیتے ہیں لیکن آج کل یہ بات نہایت عام ہوگئی ہے کہ شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد میاں بیوی میں اختلافات ہو جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ازدواجی زندگی کے آغاز میں ہی اگر نوبیاہتا جوڑا یہ بات جان لے کہ زندگی میں صرف خوشیاں، سکھ اور آرام ہی نہیں بلکہ دکھ، مصیبتیں اور آلام بھی ہیں تو شاید ایسی نوبت نہ آئے کہ رشتہ خدانخواستہ علیحدگی پر منتج ہو۔
ازدواجی زندگی میں ہر نوبیاہتا جوڑے کو دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں اول جذباتی رشتے اور انہیں نبھانے کے دوران ہونے والی اونچ نیچ سے پیدا شدہ حالات کی تلخی اور دوسرے معاشی حالات۔
گھریلو تلخیاں
اگر شادی خاندان میں ہو تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے خاندان میں خود کو ایڈ جسٹ کرنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کرنا پڑتی ہے لیکن اگر شادی غیر خاندان میں ہو تو پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خاندان کو سمجھنے اور ان میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ بعض لوگ فطرتاً شرمیلے ہوتے ہیں جب کہ بعض لوگ اتنے خوش مزاج ہوتے ہیں کہ بہت جلد سسرال کے ماحول کو اپنا لیتے ہیں، حتی کہ اُن پر یہ شائبہ تک نہیں ہوتا کہ وہ کبھی غیر تھے۔
بات کوئی بھی ہو لیکن ایک امر طے شدہ ہے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کو الجھنوں کا شکار بنانے میں گھریلو تلخیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ گھر انسان کا قلعہ ہوتا ہے، اگر کوئی شخص خود کو اپنے قلعے میں غیر محفوظ تصور کرنے لگے تو اس کا ہر کام بے یقینی کا شکار ہونے لگتا ہے اور ایسے میں غلطیوں کے سرزد ہونے کی بھی بہت گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ ذیل میں چند عملی باتوں کی طرف توجہ دلانا اہم معلوم ہوتا ہے:
٭ سسرال کے ماحول کو سمجھیں۔
٭ اجنبیت کی دیوار کو گرا کر خوش گوار تعلقات کا آغاز کریں۔
٭ جس انداز میں سسرال والے رشتے ناطوں کو نبھاتے ہیں اس پر تنقید کرنے سے گریز کریں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بات صریحاً خلاف دین ہو۔
٭ اگر سسرال میں کوئی مسئلہ ہو تو اپنے میکے کے بجائے شوہر، ساس، سسر یا بڑی جیٹھانی، دیورانی یا نندوں سے اس پر مشورہ کرلیں۔
٭ گھر میں ہونے والی ایسی باتیں جن سے کبھی کبھار دل شکنی ہوجاتی ہو، ان کا میکے والوں سے اظہار کرنے سے گریز کریں۔
٭شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے سسرال والوں سے اچھے تعلقات قائم کرے اور سسرال والوں پر ایسی بیجا تنقید کرنے سے گریز کرے کہ جن سے اس کی بیوی کی دل آزاری ہوتی ہو۔
٭ شوہر کو چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ ساتھ سسرال میں ہونے والی تقریبات میں بھی شرکت کرے اور کبھی بھی بیوی پر ایسی پابندیاں نہ لگائے جس سے کہ اس کو اپنے رشتے داروں سے ملنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو۔ یاد رکھیں کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کی بنیاد ہی دو فریقین کے ایک دوسرے کے رشتے داروں سے احترام کے سلوک پر قائم ہے۔
اگر ہم تھوڑی سی توجہ سے کام ملیں تو ازدواجی زندگی میں گھریلو اور جذباتی طور پر شروع ہونے والی تلخیوں سے خود کو بڑی حد تک بچا سکتے ہیں۔
معاشی حالات
گھریلو زندگی کو خوش گوار بنانے میں معاشی حالات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر گھر میں جذباتی لحاظ سے سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن معاشی اعتبار سے مسائل موجود ہیں، تب بھی ازدواجی زندگی کو گھن لگ سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مضبوط ازدواجی رفاقت کے لیے اگرچہ دولت سر فہرست نہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر گھر میں معاشی بدحالی ہو تب بھی ازدواجی زندگی خوشیوں بھری نہیں رہ سکتی ہے۔
پہلے ہمیں ایک چیز سمجھ لینی چاہیے وہ یہ کہ دولت کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں، اسی طرح ہماری ضروریات بھی لا محدود ہوسکتی ہیں۔ جان لیں کہ زندگی میں دولت تین چیزوں کے لیے درکار ہوتی ہے۔
٭ ضروریات پوری کرنے کے لیے۔
٭ آسائشیں حاصل کرنے کے لیے۔
٭ تعیشات پانے کے لیے ۔
مثال کے طور پر سخت گرمیوں کے ماحول میں ہم بغیر پنکھے کے رہتے ہیں۔ علاقے میں بجلی بھی موجود ہے لیکن گھر میں پنکھا نہیں تو ایسے میں بجلی کا پنکھا ہمارے لیے ضرورت ہے۔ اب گھر میں پنکھا تو ہے لیکن پڑوسی نے نیا روم کولر لے لیا اور اس کی دیکھا دیکھی ہم بھی اپنی چادر دیکھے بنا پاؤں پھیلالیں اور روم کولر خرید لیں تو یہ آسائش ہوئی۔ ایسے میں کہ گھر میں روم کولر اور پنکھے، دونوں موجود ہیں، آمدنی بھی محدود ہے لیکن آمدنی پر غور کیے بغیر ایک بڑی رقم خرچ کر کے ائیر کنڈیشنڈ خرید لیا جائے تو یہ تعیش کے زمرے میں آگیا۔
بات چھوٹی سی ہے لیکن سمجھنے کی ہے اور جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ کبھی بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسا کام نہ کریں کہ جو آپ کے گھریلو معاشی حالات یا خرچ و آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا ہو۔ مثلاً آپ کے معاشی حالات ایئر کنڈیشنڈ خریدنے کے تو متحمل ہوسکتے ہیں لیکن اس کے استعمال کی صورت میں ماہانہ بجلی کا اضافی بل آپ کے بجٹ کو درہم برہم کرسکتا ہے اور یہ چیز ازدواجی زندگی کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
اس لیے سب سے بہتر بات صبر و قناعت، اخراجات میں میانہ روی اور استطاعت کے مطابق اخراجات بہترین روش ہے۔ ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم میانہ روی کے ذریعے معاشی مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ اور حلال کمائی میں ہم اضافہ کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔
ذہن نشین کرلیجئے یہ بات کہ خوش گوار ازدواجی زندگی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس پر چلنے کے لیے برداشت، درگزر اور مستقبل بینی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر آپ ان چیزوں کے ہمراہ ازدواجی زندگی کے سفر پر چلیں گے تو نہ صرف سفر خوش و خرم کٹے گا بلکہ منزل پر پہنچ کر تھکن کے بجائے طمانیت کا احساس ہوگا۔