پروفیسر گورمن ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ وہ ایک روشن دماغ ادیب اور دانشور بھی تھے۔ کئی ظاہری و باطنی موضوعات پر ان کی گہری نظر تھی۔ نفسیات پڑھے ہوئے تھے اور صاحب کتاب بھی تھے۔ ان کی کتابیں شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ اکثر سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں ان کا شمار ہوتا۔
ایک دن انھیں قریبی شہر سے ایک خط موصول ہوا جسے پڑھ کروہ غصے سے بھنا اٹھے۔ وہ خط راجر نامی ایک نوجوان کی طرف سے تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے لیکن عرصے سے بے روزگار ہے۔ ملازمت ملتی نہیں اور اگرملتی ہے تو جلد چھوٹ جاتی ہے۔ نوبت اب فاقوں پر آ چکی ہے۔ اگر گورمن صاحب مہربانی کر کے اسے دو سو ڈالر بھیج دیں، تو اس کے کچھ دن اچھے گزر جائیں گے۔
گورمن صاحب نے ایک دفعہ پھر خط پڑھا۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ خط کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ اگر راجر ان کے سامنے ہوتا، تو اس کا بھی یہی حشر کر ڈالتے۔ وہ ایسے کام چور نوجوانوں سے خوب واقف تھے جو دل جمعی سے کوئی کام نہیں کرتے۔ روز ملازمتیں بدلتے اور تفریحات میں لگے رہتے ہیں۔ وہ خط پھاڑنے لگے تھے کہ اچانک انھیں خیال آیا، اسے جواب دیا جائے۔ چناںچہ وہ خط لکھنے بیٹھ گئے۔
پہلے تو پروفیسر صاحب نے اسے خوب سخت باتیں سنائیں اور لتاڑا۔ جب غصہ کچھ کم ہوا، تو اْسے محنت کی عظمت پر طویل لیکچر دے ڈالا۔ چونکہ وہ غصے میں تھے اور بعض لوگوں کا دماغ ایسے وقت تیزچلتا ہے‘ لہٰذا انھوں نے لفظ محنت کی کئی زاویوں سے وضاحت کر ڈالی۔ آخر میں قلم کی روانی میں وہ اسے قناعت اور سادگی کا بھی درس دے بیٹھے۔
خط بہت لمبا ہو گیا، اچھا خاصا کسی مضمون کا مسودہ لگ رہا تھا۔ بہرحال انھوں نے وہ خط اسے ارسال کر دیا۔ جلد ہی اس کا جواب آ گیا۔ راجر نے ان سے معافی مانگی تھی۔ ساتھ ہی لکھاکہ آپ کاخط پڑھ کر میرے ذہن پر چھائی ہوئی دھند آہستہ آہستہ ہٹنے لگی ہے۔ میں جاہل مطلق تھا، آپ کے گراں قدر خیالات سے بہت کچھ سیکھا۔ اب عہد کیا ہے کہ آئندہ بھی آپ سے سیکھتا رہا ہوں گا۔
اس نے مزید لکھا کہ میں وقت کی اہمیت اور اصول پسندی جیسے موضوعات پر بھی راہنمائی چاہتا ہوں۔ میں ایک لاابالی نوجوان ہوں۔ وقت کیا ہوتا ہے مجھے پتا نہیں۔ اسی طرح میں اصولوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ آپ اگر ان باتوں پر کچھ روشنی ڈالیں گے، تو یقینا یہ معلومات میری کردار سازی میں معاون ثابت ہوں گی۔ میں ساری زندگی آپ کا شکرگزار رہوں گا۔
گورمن صاحب کی پیشانی پر غصے سے بل پڑ گئے۔ وہ بڑبڑائے: ’’پاگل، جاہل، مجھے فارغ سمجھتا ہے کہ میں اس کے خط کا جواب دوں۔‘‘انھوں نے خط ایک طرف ڈال دیا۔ لیکن یہ موضوعات ان کے پسندیدہ تھے، چناںچہ کچھ دن بعد وہ اسے دوبارہ خط لکھنے بیٹھ گئے۔ انھوں نے پہلے اسے حسب عادت ڈانٹا پھر وقت کی اہمیت اوراصول پسندی پر مفصل خط لکھ ڈالا۔
فوراً ہی راجر کا جواب بھی آ گیا۔ اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ آپ کے فرمودات میرے لیے روشنی ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے میں طویل عرصہ اندھیرے میں بھٹکتا رہا ہوں۔ آپ کی باتوں سے میری شخصیت تبدیل ہو رہی ہے۔ آخرمیں اس نے یکسوئی اور کردار کی مضبوطی پر بھی ان سے کچھ لکھنے کو کہا۔ گورمن صاحب بڑبڑاتے ہوئے پھر ان موضوعات پربھی خط لکھنے بیٹھ گئے۔ راجر کا جواب فوراً آ گیا۔ ان کی تحریروں کی تعریف کے ساتھ ہی اس نے کچھ نئے موضوعات پر رائے مانگی تھی۔ غرض راجر کے خط آتے رہے۔ گورمن صاحب جواب دیتے رہے۔
اس طرح انھوں نے سچ کی اہمیت، وعدے کی پاسداری، مساوات اور دیگر موضوعات پر مفصل خطوط لکھ ڈالے۔ آخر ایک دن راجر کا خط آیا۔ لکھا تھا، جناب آپ نے جس محنت اور جانفشانی سے میری ذہنی تربیت کا کام انجام دیا ہے،اس سے میرے تمام مسائل حل ہونے والے ہیں۔ میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ اس کے بعد خط آنے بند ہو گئے۔
گورمن صاحب اپنے کاموں میں لگ کر جلد ہی اسے بھول گئے۔ دو مہینے بعد ایک دن وہ کچھ کتابیں خریدنے دکان پر گئے۔ مالک ان سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ اس کے مستقل گاہک تھے۔ اس نے پچھلے دنوںشائع ہونے والی کچھ کتابیں ان کی خدمت میں پیش کیں اور ایک کتاب اٹھا کر بولا ’’گورمن صاحب! پچھلے ایک مہینے سے اس کتاب نے فروخت کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان دنوں یہ ’’ہاٹ کیک‘‘ بنی ہوئی ہے۔‘‘
گورمن صاحب نے کتاب لے کر دیکھی۔ اس کا عنوان تھا ’’کامیابی کے دس راہنما اصول۔‘‘ انھوں نے الٹ پلٹ کر دیکھا پھر بولے: ’’کسی نئے ادیب کی لگتی ہے، خیر دے دو۔‘‘
دفتر پہنچ کر انھوں نے نئے کتابوں کا بنڈل سامنے رکھ لیا۔ کچھ دیر دوسرے کام نمٹاتے رہے پھر بنڈل کھولا اور پہلے ’’کامیابی کے دس راہنما اصول‘‘ نامی کتاب اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگے۔ جوں جوں اس کے مندرجات پر نظر دوڑائی، ان کے چہرے کی رنگت بدلتی گئی۔ وہ تو وہی خطوط تھے جو انھوں نے راجر نامی بے روزگار نوجوان کو لکھے تھے۔ طیش میں آ کر انھوں نے پیش لفظ پڑھا، وہ راجر کی طرف سے ہی تھا۔
اس نے تمام باتیں صاف لکھی تھیں کہ کس طرح اس نے بے روزگاری سے تنگ آ کر پروفیسر گورمن کو خطوط لکھے۔ جواب میں انھوں نے کس طرح پندونصائح سے اس کی راہنمائی کی۔ اس نے خطوط میں سے سوائے گورمن کی ڈانٹ ڈپٹ اور لتاڑنے کے اور کوئی چیز حذف نہیں کی تھی۔ آخرمیں لکھا: ’’مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے مارکیٹ میں آنے کے بعد ضرور میری زندگی تبدیل ہو جائے گی۔‘‘
گورمن صاحب اپنی نرم و آرام کرسی پر اس طرح بیٹھے تھے جیسے انگاروں پر بیٹھے ہوں۔ وہ مٹھیاں بھینچتے ہوئے غرائے: ’’بیٹا جی! زندگی تو میں تمھاری ایسی تبدیل کروں گا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو گے۔ میں ابھی تمھیں اس کا مزا چکھاتا ہوں۔‘‘
وہ فون اٹھا کر کسی کا نمبر ملانے لگے تھے کہ دروازہ کھلا اوران کے دیرینہ دوست اور وکیل، مسٹر ولیم دفتر میں داخل ہوئے۔ وہ چہک کر بولے: ’’آہا گورمن! میں نے سوچا آج کھانا تمھارے ساتھ کھایا جائے۔‘‘
وہ کچھ رکے پھر حیرت سے بولے ’’لیکن تم تو اس وقت کسی لال ٹماٹر کی طرح نظر آ رہے ہو۔ لگتا ہے کچھ دیر میں تمھارے کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا۔ تمھاری چندیا کے چند بال بھی بالکل سیدھے کھڑے ہیں۔ میرے عزیز! تم بتائو گے کہ کیا حادثہ پیش آ گیا؟‘‘ پروفیسرگورمن نے کتاب ان کے آگے پھینک دی اور بولے ’’یہ دیکھو!‘‘ وہ بولے ’’بہت اچھی کتاب ہے۔ میں نے بھی پڑھی ہے بلکہ میں تو آج کل ملنے والوں کو اسے خریدنے کی تلقین کرتا ہوں۔‘‘ گورمن غصے سے دہاڑے ’’تم نے شاید اس کا پیش لفظ نہیں پڑھا۔‘‘ ’’صحیح! مجھے پیش لفظ پڑھنے کی عادت نہیں۔‘‘ وکیل صاحب نے کہا۔ ’’تو اب پڑھ لو۔‘‘ گورمن گرجے۔
وکیل صاحب نے پیش لفظ پڑھا اور زور دار قہقہہ لگایا: ’’ہاہاہاہا!‘‘ یہ تو اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہو گیا۔‘‘ ’’لطیفے کو بھاڑ میں ڈالو، میں تمھیں اسی وقت اپنا وکیل کر رہا ہوں۔ ہم اس پر مقدمہ دائر کریں گے۔‘‘ وکیل صاحب مسکرائے اور بولے ’’پیارے گورمن! اس سے کیا ہو گا؟‘‘ ’’میں اسے مزا چکھانا چاہتا ہوں۔ اس نے میرے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ اسے میرا نام بطور ادیب دینا چاہیے تھا۔ اسے کتاب کی آمدنی بھی مجھے دینی پڑے گی۔‘‘ وکیل صاحب سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے ’’راجر نے کہیںیہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے یہ کتاب خود لکھی ہے۔ اس نے تو جوں کے توں تمھارے خطوط شائع کر دیے۔ پیش لفظ میںتمھارا نام بھی دیا ہے …..اس میں دھوکا کہاں ہے؟‘‘
’’دھوکا ہے۔ اس نے مجھے ایک منصوبے کے تحت یہ خطوط لکھنے پر اکسایا۔‘‘ وہ تلملا کر بولے۔ ’’ٹھیک، لیکن اگر تم چاہتے تو اسے جواب نہ دیتے۔ وہ تمھارا کیا کر لیتا؟ تم شایداس بات سے واقف نہیں کہ خطوط قانوناً مکتوب الیہ کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ جو چاہے ان کا کر سکتا ہے۔ چاہے انھیں آتشدان میں جھونک دے یا سینے سے لگا کر رکھے یاشائع کرا دے۔ ہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو یا کسی کی عزت پرحرف نہ آئے۔ ہم یہ کیس پہلے دن ہی ہار جائیں گے۔‘‘ وکیل صاحب نے کہا۔
گورمن صاحب کسی ہارے گھوڑے کی طرح کرسی پر ڈھیر ہو گئے۔ وکیل صاحب بولے ’’یار گورمن، دل بڑا رکھو، سمجھو یہ تمھاری ہی نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے۔ بس اس کی آمدنی اور کوئی لے اڑا اور اس سے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے؟ پہلے ہی تمھاری کئی کتابیں مقبول عام ہو چکیں اور ہر کتاب نے تمھارا بینک بیلنس اوپر ہی پہنچایا ہے۔ میرا تو خیال ہے، تم راجر کو مبارک باد کا ایک خط لکھ ڈالو۔‘‘
گورمن صاحب آہستہ آہستہ معمول پر آ رہے تھے۔ بولے ’’خط تو میں نہیں لکھ رہا، ہاں جلد ہی اس واقعہ پر ایک کہانی لکھوں گا۔‘‘ وکیل صاحب مسکرا کر بولے:
’’یہ ہوئی نہ بات۔ چلو اب جلدی سے کھانا منگوا لو۔ بڑے زور کی بھوک لگی ہے اور ہاں یہ کھانا تمھاری طرف سے ہو گا۔‘‘
یہ سن کر پروفیسرگورمن مسکرانے لگے۔