یہ بات کب،کیوںاور کیسے معلوم ہوئی یاد نہیں، لیکن سمجھ خوب آئی۔ایک شخص نے اپنی مشکلوں سے تنگ آکراللہ العلیم الخبیرکی خدمت میں عرض کیا کہ وہ بہت ہی مصیبت زدہ ہے،سب سے زیادہ تکلیف میںہے، اس کو مصیبتوں سے نجات دلائی جائے۔ حکم ہو اکہ پاس پڑی دوسروں کی مصیبتوں ،اور مشکلات کی گٹھڑیوں میں سے جو سب سے زیادہ ہلکی لگے وہ گٹھڑی اْٹھا لو۔فرداً فرداً سب گٹھڑیوں کو جانچنے کے بعد وہ شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی اپنی گٹھڑی ہی اس کے لیے سب سے مناسب ہے۔ یہاں یہ ارشاد باری تعالیٰ بھی ذہن میں رہے کہ :
’’اللہ کسی شخص کو اْس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘ (سورہ بقرہ :286)
اس ایک روایت،تمثیل،اورلوک کہانی یا جو کچھ بھی ہے، ہر کوئی اپنی استعدا د یا سمجھ کے مطابق ہی اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرے گا۔کیوں؟ اس لیے کہ ہرانسان دوسرے سے اْسی طرح مختلف ہے کہ جیسے ایک ہی درخت کے دو پتے۔یوںہر مخلو ق کو انفرادیت کی یہ عطا اللہ کے بینظیرالخالق اور المصور ہونے کی ایک عظیم الشان دلیل ہے۔ اللہ کی صفات اور اْس کی تخلیقات کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی تاکید اسی لیے ہے کہ اس طرح اْس پاک ذات کا الواحد(بے مثل) القہار اور الرازق(حاجت روا) ہونے پر ایمان پختہ تر ہوتا چلا جائے :
’’اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے تاکہ تم تعقل کرسکو ‘‘ (سورہ بقرہ: 242)
’’اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں۔‘‘ (یونس:24)
’’ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘
پہلے ذکر آچکا ہے کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے، اس اختلاف کے باعث وہ ا پنی زندگی بھی ایک مخصوص، مختلف اندازاورطریقے سے گذارتا ہے۔ اور یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انسانوں کی اکثریت زندگی اپنی پسند کے بر عکس گزار تی ہے یا گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ا ور وہ انسان مثالی ہوتے ہیں، جو اس سفر کو بھرپور جدوجہد سے ایک منظم انداز میں مکمل کرتے ہیں۔ پتھر کے زمانے کے انسان کی مانند محض معاش، تحفظ اور ایک چھت کاحصول اْن کا مطمحِ نظر نہیں ہوتا۔ وگرنہ ان میں اور ایک پودے کی جڑ میں کیا فرق جو جبّلی طور پر زمین میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔
حقیقی زندگی میں جو انسان محدود سوچ، مخصوص حالات، کسی جسمانی عارضے یامعذوری کے باعث حتی المقدور جد وجہد نہیں کرپاتا وہ اوروںکے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ لیکن اْس کے برعکس ایک مثالی انسان خواہ وہ معذور ،اپاہج ہواپنی خداداد وسیع سوچ، بلند ہمتی، سازگار ماحول اورحوصلہ افزائی کے سبب وہ کچھ کر گذرتا ہے کہ جوایک عام تندرست انسان کے لیے کامیابی اور ہمت کی مثال بن جاتاہے۔حاصلِ کلام یہ کہ قدرت نے انسان کوبہت زیادہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اْس کی بلند سوچ اْس کی زندگی میںحیرت انگیز مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔
بلند سوچ انسان کو ایسانڈر بھی بناتی ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے عمر کی پروا کیے بغیر ایک نوے سالہ خاتون نے چھاتے کے ذریعہ ہزاروں میٹر کی بلندی سے چھلانگ لگائی ہے۔اسی طرح ایک شخص بلند عمارتوں کے درمیان یا کسی خطرناک دریا کے اوپربلندی پر تنے رسے پر سے واجبی حفاظتی انتظامات کے ساتھ گذر جاتا ہے۔ سائیکل، موٹر سائیکل، اور کار یا ہوائی جہازکے ذریعہ یابیسیوں اور طریقوں سے حیرت ناک کرتب انجام دیتاہے۔ چندانسانوں میں ایسی ودیعت اللہ کی خاص نوازش ہوتی ہے جسے وہ ذاتی کا وش سے حیرت انگیز مہارت میں بدل کر ایسے پْرخطر کرتب انجام دیتے ہیں۔ لیکن ایسے جان لیوا کاموں میں خیر کا پہلو کم،شوق،نام و نمود اورپیٹ کادخل زیادہ ہے۔ ایسے کام دل کا بہلاواہیں، ان میں حقیقی فلاح کا پہلو کم ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ایسی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ مثبت فائدہ اْٹھائے۔ ابھی چند دن پہلے ایک معذور شخص نے نانگا پربت کی چوٹی سرکی ہے، اور اسی طرح جوانی میںاس چوٹی کو سر کرنے والے شخص نے ابوہ کارنامہ اَسّی(80) سال کی عمر میں دوبارہ انجام دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج بہترتکنیک کی فراہمی، جدید علم، اور فی زمانہ ایجادات نے کئی مشکل مراحل کو سر کر لینا آسان ضرور بنا دیا ہے لیکن کسی بھی مہم کو انجام دینے کے لیے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ سے نہ ہلنے والے جس ارادے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا انحصار صرف اور صرف انسان کی ذاتی بلندسوچ، ہمت وحوصلے پر ہے۔ اور یہ سب بھی اللہ ہی کی دین ہے ، اس شخص کا ذاتی کمال ہے تو وہ صرف یہ کہ اْن خصوصیات کو مثبت سوچ اور بہترین انداز میں استعمال میں لا کر نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی بہتر انداز میں گزارے بلکہ عام انسانوں کی زندگی میں بہتری لا ئے، مثلاً فلاح عام کے کام کا اجرا کردے،کسی خیر کے کام میں اپناحصہ ڈال دے۔
اب چندایسے افراد کا ذکر جو جسمانی معذوری کے باوجودتاریخ انسانی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ نو صدی قبل مسیح کا مشہوریونانی شاعر ہومر نابینا تھا۔ اس نے اپنی رزمیہ شاعری سے مردہ قوم میں زندگی اور حریت کی روح پھونکی۔ تیمور لنگ مغلیہ خاندان کا جد ِ امجد ، ایک عظیم سپہ سالار، سفاک فاتح’ لنگ‘ اس لیے کہلایا کہ ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا۔ رنجیت سنگھ (1839۔1780) پنجاب کا حکمران ایک آنکھ سے محروم تھا۔ رْوزویلٹ (دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی صدر) دونوں ٹانگوں سے معذور تھا۔امریکی مصنف اور ایک متحرک سماجی شخصیت، ہیلن کیلر (1880ء۔1968ء) سماعت اور بصارت سے محروم تھیں۔ فورڈ کاروں کا موجد ہنری فورڈ بے اندازہ دولت مند ہونے کے باوجودکوئی ٹھوس غذا استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ علامہ اقبالؒکے ایک نابینا معالج ’حکیم نابینا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔
دنیا میں ا یسے لوگوں کی بیشتر مثالیں ہیں جنھوں نے جسمانی معذوری کے باوجود ایک فعال زندگی گزاری اور دوسروںکے لیے قابل تقلید مثا ل بھی بنے۔ ان میں درس و تدریس، طب، سائنس، سیاست، صنعت ،تجارت، کھیل اور اداکاری جیسے شعبوں سے وابستہ شخصیات شامل ہیں۔ lll