شوہر کے معاملے میں تمام ہی بیویوں کی تمنا یکساں ہوتی ہے کہ وہ ان کے کہے کو مانیں۔۔۔ پتھرپہ لکیر کی طرح نہ سہی، دیوار پر لکیر کی طرح ہی سہی۔۔۔ کہ یہ زیادہ اطمینان بخش رہتا ہے۔ کبھی اپنی ہی بات کے مضر اثرات محسوس کرلیے جاتے ہیں، پھر بھی مطالبہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا دیوار پر کھینچی لکیر مٹا کر نئی لکیر کھینچ دینا آسان ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایک بیگم صاحبہ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ جاکر گدھے کا سر لے آؤ۔پوچھا: کیا کریں گی؟ کہنے لگیں کہ شوہر کو الو بنانے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔ اس کو پکا کر کھلا دو تو وہ اشاروں پر ناچنے لگے گا۔ چناں چہ خادمہ باہر گئی اور کہیں سے لے آئی۔ اس نے صحن میں رکھا ہی تھا کہ شوہر آگئے۔ پوچھا یہ سر کون لایا ہے؟ بیگم نے کہا کہ ابھی ابھی ایک کوا اسے چونچ میں اٹھائے جا رہا تھا کہ اس پر چیل جھپٹی اور یہ صحن میں گر گیا۔ شوہر نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ نے خادمہ سے کہا کہ اسے پھینک آؤ۔ پوچھا: کیوں؟
کہنے لگیں: خاوند اسے دیکھ کر ہی الو بن گئے لہٰذا اب اسے کھلانے کی ضرورت نہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنے صارف کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھتی ہیں۔ ٹی وی پر دن رات چلنے والے اشتہارات میں کیا کچھ خواب نہیں دکھائے جاتے۔۔۔۔! فلاں شیمپو لگائیں بال ایسے سلکی، ملائم اور پھریرے ہوجائیں گے کہ بال بال میں موتی پرولیں۔ چمک ایسی کہ جیسے کہکشاں کے سارے ستارے ٹوٹ کر بالوں کی گھٹاؤں میں آبسے ہیں۔ بس پھر اپنے چمکدار بالوں کو لہرائیے اور جس کے چاہیں دل میں اتر جائیے۔ لیکن دل میں اترنے سے پہلے بالوں کے اترنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب ایک علیحدہ شیمپو آپ کے لیے فوری ٹانک کا کام دے گا، بس اسے لگائیں اور بالوں کو جڑوں سے لے کر نوک تک گھنا اور مضبوط بنا لیں… پھر مضبوطی کے بجائے خشکی سر کی جلد پر بسیرا کرلیتی ہے… اب اس کے لیے ایک بالکل نیا اور جدید شیمپو آزمائیں اور سر اور کندھوں دونوں کو خشکی سے آزاد کرائیں۔ خشکی سے آزادی کے ساتھ سر بھی بالوں سے آزاد ہونے لگتا ہے تو نیا فرمان جاری ہو جاتا ہے، بالوں کے لیے ہر مسئلے کا حل کنڈیشنر میں چھپا ہے جس کے بغیر آپ ہمیشہ ان مسائل کا شکار رہیں گے۔ لیجیے اب آپ کے غسل خانے کے ریک پر ایک مزید بوتل کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ البتہ سر کی چوٹی آدھی رہ جاتی ہے۔
بقول اشفاق احمد صاحب کے ۱۹۶۰ء میں شیمپو سے کوئی واقف نہ تھا اور ان کے ایک سکھ دوست نے ایک دفعہ ان کے ہاتھ پر گندی سی لیس دار چیز لگا کر اس سے واقف کرایا اور کہا کہ اس پر پانی گرا کر سر میں مل لو… سر چھپا چھپ جھاگ سے بھر گیا۔
تو بہنواور بیٹیو! ۱۹۶۰ سے پہلے خواتین اور حضرات دونوں شیمپو کے بغیر رہا کرتے تھے اور خوب رہا کرتے تھے۔ بال چمک دار، گھنے اور خشکی سے آزاد رہا کرتے تھے۔ بھلا کیسے؟ اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے ۱۹۶۰ء کے نوجوانوں سے رجوع کریں… کہ شاید وہ ہی مزید الو بننے سے بچا سکیں۔lll