دین کے تین مطالبے

ابو سلیم محمد عبد الحیٔ

دین کے مطالبات میں ذاتی اصلاح کو بڑا اہم مقام حاصل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ دین کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی جائے اور اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دی جائے۔ عقائد اور عبادات کا نظام جو اسلام نے دیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد ذاتی اصلاح ہی ہے۔ اسلام نے جو عقائد دیے ہیں، ان کے ذریعہ انسان کے ذہن و فکر کی اصلاح ہوتی ہے اور عبادات کا جو نظام اسلام نے دیا ہے اس پر کاربند ہونے سے انسان کی عملی زندگی درست ہوتی ہے اور دین پر جمنے اور اس کو سربلند کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پر چلنے والے اور اسلامی دعوت کو لے کر آگے بڑھنے والے وہ لوگ ہرگز نہیں ہوسکتے جو اپنی ذاتی اصلاح سے غافل ہوں یا اسے غیر ضروری سمجھتے ہوں۔

جب کوئی شخص اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے دو چار موٹی موٹی برائیاں نظر آجائیں تو آجائیں ورنہ عام طور پر اس کا نفس اسے یہی اطمینان دلاتا رہتا ہے کہ اس میں کوئی ایسی خاص برائی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنی پڑوسن سے کچھ شکایت ہو لیکن اس کا سبب آپ یہی بتائیں گی کہ یہ برائی پڑوسن میں ہے، اس کا اخلاق اچھا نہیں ہے، وہ بڑی مغرور ہے وغیرہ۔ لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کہ آپ یہ بھی پتہ چلالیں کہ آپ کی اپنی کوتاہیاں کیا ہیں اور آپ نے کس موقع پر اپنی بات چیت اور اپنے اخلاق سے تعلقات کو بگاڑا ہے۔ غرض یہ کہ یہ بہت ہی کٹھن کام ہے کہ انسان خود اپنی ذات کے بارے میں اچھی طرح اور صحیح صحیح غور کرسکے اور اپنے عیوب کو پہچان لے۔ اپنی اصلاح کی خاطر آپ کو سب سے پہلے یہی مشکل کام انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے آپ روزانہ کسی وقت اپنے حالات پر، اپنی باتوں پر اور اپنے مشاغل پر گہری نظر ڈالیں، اور جہاں تک ممکن ہو اپنی کوتاہیوں کو سامنے رکھیں۔اس مقصد کی خاطر آپ کو اس بات کے لیے بھی کان کھلے رکھنا چاہئیں کہ دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اپنی کسی کمزوری کا حال دوسروں کی زبانی سن کر حقیقت کو سمجھئے۔ جواب میں، کہنے والے کی کمزوریاں تلاش کرنے میں نہ لگ جائیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پر نکتہ چینی کرنے والے کے عیب آپ سے کہیں زیادہ ہوں اور بالکل ظاہر ہوں لیکن آپ اس کے عیبوں میں نہ اُلجھیے! اس نے آپ کے عیبب بتا کر جو آپ کی خدمت کی ہے اس سے فائدہ اٹھائیے۔ یہ گھونٹ کچھ کم کڑوا نہیں ہے لیکن مرض کی اصلاح کے لیے کڑوے گھونٹ تو پینا ہی پڑتا ہے۔ آپ نے اپنی اصلاح کے لیے قدم اٹھایا ہے تو پھر ایسی تمام چیزوں کے لیے تیار رہیے۔

علم او ریقین

ذاتی اصلاح کے پروگرام میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ آپ کو اسلام کے اس دعوے پر پورا یقین ہو کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس کے دائرے اور ہدایات سے باہر نہیں۔ ہماری تمام مشکلات کا حل اسلام ہی ہے، یہی ہمارے لیے دنیوی سکون کا باعث ہے اور اسی میں ہماری آخرت کی فلاح ہے۔ اسلام پر چلنے والوں کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ زندگی کے کچھ معاملات میں تو اسلام کی ہدایات کو قبول کریں اور کچھ معاملات میں وہ دوسروں کی باتوں کو اختیار کریں، آپ کو اسلام کے اس دعوے پر پورا یقین ہو، آپ اپنی حد تک یہ بات اچھی طرح سمجھ چکی ہوں کہ واقعی اسلام جس طرح زندگی کے تمام معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے وہ ان سب طریقوں سے بہتر ہے جو دوسرے مذاہب پیش کرتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے آپ اسلام کا علم بڑھائیں، اتنا علم کہ وہ آپ کو اسلام کے بارے میں پورا پورا مطمئن کردے۔ آپ اسلام کو پوری زندگی کے لیے ایک قابل عمل پروگرام سمجھیں، آپ کا یہ ایمان ہو کہ اسلام نے زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایات دی ہیں وہی اور صرف وہی سب سے بہتر ہیں۔ اسلام ہی کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر آپ آخرت میں بھی کامیاب ہوسکتی ہیں۔

اس علم کے حاصل کرنے کے لیے دو طریقے ہوسکتے ہیں:

پہلا طریقہ یہ ہے کہ ان باتوں کو جاننے کے لیے باقاعدہ مطالعہ کیا جائے۔ ایسی کتابیں زیر مطالعہ رہنی چاہئیں جن میں اسلام کے بنیادی عقائد کی تشریح ہو، او ریہ سمجھایا گیا ہو کہ اسلام زندگی کے ہر معاملے میں کیا رہنمائی کرتا ہے؟ عبادات میں وہ کون سے اعمال پر زور دیتا ہے، معاملات میں اس کی دی ہوئی ہدایات کیا ہیں؟ اخلاق، معاشرت، معیشت اور سیاست غرض کہ زندگی کے ہر معاملے میں وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ہر زبان میںایسی بہت سی کتابیں موجود ہیں، جن کو پڑھ کر کوئی شخص اسلام کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں جو اسلام کا صحیح علم رکھتے ہوں، جن کی زندگیاں اسلامی اصولوں کا نمونہ ہوں اور جنھوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ اپنی پوری زندگی میں اسلام ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور زندگی کے کسی معاملے میں بھی کوئی غیر اسلامی بات قبول نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں سے آپ اسلام کا صحیح علم زبانی بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ لیکن اس طریقے میں کچھ دقتیں ہیں مثلاً آج کل کسی مناسب شخص کا ملنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور پھر ایک مشکل یہ ہے کہ اس شخص کے پاس اتنا وقت ہو نہ ہو کہ وہ لوگوں کو پوری توجہ سے پوری بات سمجھا سکے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ عورتوں کے لیے غیر مردوں سے دین سیکھنے میں کچھ اور بھی دقتیں ہیں اور ہر گھر میں ایسے اہل علم کا پایا جانا بھی آج کل ناممکن سا ہے۔ اس دشواری کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ چند خواتین مل کر دینی کتابوں کا مطالعہ کریں، اور جو عورتیں کتابیں پڑھ اور سمجھ سکتی ہیں وہ دوسروں کو سنائیں اور سمجھائیں۔ غرض یہ کہ سب سے پہلے علم ہے چاہے وہ خود کتابیں پڑھ کر حاصل کیا جائے، یا دوسروں سے زبانی سیکھا جائے۔ علم کے بغیر یقین حاصل نہیں ہوتا اور آپ خوب جانتی ہیں کہ اسلام کی بنیاد علم اور یقین پر ہے۔

زندگی کی تطہیر

دوسری چیز زندگی کی تطہیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بڑی توجہ کے ساتھ اپنی زندگی کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے اور جو خیال یا عقیدہ یا عمل اس علم کے خلاف ہمیں نظر آئے اسے جلد سے جلد دور کرنے اور اپنی زندگی کو اس سے پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بہت سے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرتے ہیں، عمل خود اس کے خلاف کرتے ہیں مثلاً خود مسلمان ہونے کے دعوے پر غور کیجیے۔ آخر کون سا مسلمان ایسا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ اسلام کا دعویٰ کرنے کے معنی یہی ہیں کہ اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنی ہوگی۔ لیکن کتنے ہیں جو جان بوجھ کر مسلسل اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں اور برابر یہ دعویٰ بھی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مسلم ہیں۔ گناہ سرزد ہو جانا اور بات ہے اور مسلسل گناہ کیے چلے جانا اور بات۔ مسلمان اللہ کی نافرمانی پر اڑ نہیں سکتا مسلمان اللہ کی نافرمانی کے لیے اسکیمیں بنا کر کام نہیں کرسکتا، بھلا سوچئے تو سہی کہ ایک طرف تو کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اللہ پر آخرت پر اور رسالت پر اس کا ایمان ہے اور وہ اللہ کی ہدایت کو ہی آخری ہدایت مانتا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دلائے جو اللہ سے بیزار کرنے والی، آخرت کا مذاق اڑانے والی اور رسالت کا یقین دل سے نکال دینے والی ہے، اور نہ صرف بچوں کو ایسی تعلیم دلائے بلکہ خود ایسے اسکول قائم کرے، انھیں چلائے اور اگر اسے موقع مل جائے تو خود وہی مادّہ پرستی کی تعلیم دے جو انسان کو خدا سے دور کرنے والی ہے۔

اگر آپ غور کریں گی تو مسلمانوں کی زندگیوں میں ایسی ہی سیکڑوں مثالیں مل جائیں گی۔ وہ مسجد میں اللہ کے سامنے اقرار کریں گے کہ ’’اے مالک ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں۔ اے مالک ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔‘‘

لیکن مسجد کے باہر ان کا کیا حال ہے، وہ خدا کے احکام کے خلاف دوسروں کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کو چھوڑ کر معلوم نہیں کس کس سے اپنی چاہتیں اور مرادیں مانگتے ہیں، کس کس چوکھٹ پر اپنا سر جھکاتے ہیں، کس کس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ سودی کاروبار، شراب سازی اور شراب فروشی، سٹہ، لاٹری، جوا، ریس، ناچ گانا، تصویر کشی، بت سازی، غرض یہ کہ کونسا ایسا کام ہے جو ایمان و اسلام کا دعویٰ کرنے والے نہ کرتے ہوں۔

یہ ہے امت مسلمہ کا ایک بڑا روگ، آپ کو بڑی توجہ کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ کہیں آپ کی اپنی زندگی میں تو کوئی ایسی خرابی موجود نہیں ہے جو ایک مسلمان کے دعویٰ ایمان کے منافی ہو۔ خدانخواستہ اگر ایسی کوئی کوتاہی موجود ہو تو آپ کا پہلا کام یہی ہوگا کہ آپ اپنی زندگی کو اس خرابی سے پاک کریں، کیوں کہ اللہ کے دین پر چلنے اور خصوصاً اسے سربلند کرنے کے لیے جس قدر پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی کی ضرورت ہے اس کا جوڑ اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی معصیتوں اور مسلسل نافرمانیوں سے نہیں لگ سکتا۔

آپ اللہ کے فضل سے باشعور اور ذمہ دار ہستی ہیں۔ اس لیے آپ کو خود اپنی تربیت کی فکر ہونی چاہیے، آپ کا احساس بیدار ہونا چاہیے۔ اگر اپنی کمزوریوں پر آپ کی نگاہ نہ ہو تو آپ اپنی اصلاح اور اپنی تربیت نہیں کرسکیں گی۔ اپنی کمزوریاں دور کرنے کی خود آپ کے اندر بے چینی ہونی چاہیے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146