امانت

احمد داؤد

فالتو اور بے کار چیزیں جمع کرنے کے لیے انھوں نے علاقے بانٹ رکھے تھے۔ محمد جان شہر کے اندرونی علاقے میں چکر لگاتا اور فقیر خان کوٹھیوں والے علاقے میں گھوم پھر کر کاٹھ کباڑ جمع کرتا۔ جو چیزیں دوسروں کے لیے بے کار ہوتیں، خاص طور پر امیر لوگوں کے لیے یا جو سامان استعمال ہونے کے بعد فضول سمجھا جاتا، وہ ان دونوں کی روزی کا وسیلہ تھا۔ چیزوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کر کے شیخ مطلوب کے بڑے کباڑ خانے تک پہنچانے کے بعد شام کی روٹی ملتی تھی۔

وہ دونوں تقریباً ہم عمر تھے۔ محمد جان پچھلے مہینے دس سال کا ہوا تھا، اس کا باپ ان پڑھ تھا لہذا اس کی پیدائش کا دن اور سال لکھ نہ سکا۔ محمد جان کے پیدا ہونے کے بعد وہ ٹریفک کے حادثے میں مر گیا۔ فقیر خان اس سے دو مہینے بڑا تھا، اس کی ماں کو اس کی پیدائش کا سال اور مہینہ زبانی یاد تھا۔۔۔۔ اس سال سیلاب آیا تھا اور لوگ روزے رکھ رہے تھے

دونوں ایک ہی بستی میں رہتے اور انھوں نے چیزیں جمع کرنے کے لیے علاقے بانٹ رکھے تھے۔ پہلے وہ اپنے بڑوں کے ساتھ ردی سامان تلاش کرتے تھے مگر سال بھر سے اکیلے اس کام پر لگے ہوئے تھے کیوں کہ ان میں حوصلہ اور اعتماد پیدا ہوچکا تھا۔ سارا دن وہ اپنے اپنے علاقے میں گھومتے، کندھے پر بوری رکھے رنگ برنگی ردی اشیاء جمع کرتے اور شام کو شیخ مطلوب کے کباڑ خانے میں جاکر انھیں الگ الگ کرتے، ان کا وزن کراتے اور دس پندرہ بیس پچیس جتنے روپے بنتے، شیخ صاحب کے منشی سے وصول کر کے گھر آجاتے۔

شیخ مطلوب اپنے کمرے میں بیٹھا انھیں تکتا رہتا اور بہت کم ان سے بات کرتا۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شیخ مطلوب کہاں رہتا ہے، وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ یہ شخص ان کا ردی سامان خرید کر چند روپے دے دیتا ہے۔ ایک آدھ مرتبہ مطلوب نے ان سے بات کی تو صرف اتنی کہ کسی شئے کو بیکار سمجھ کر مت چھوڑو، اٹھا کر لے آیا کرو۔

صبح جب وہ ردی چیزیں اکٹھی کرنے نکلتے تو بچے اسکول جا رہے ہوتے… صاف ستھرے کپڑے پہنے مختلف سرکاری اور نجی اسکولوں کے بچے رنگ برنگ وردی میں خوبصورت پرندوں کی طرح نظر آتے۔ کبھی کبھی ان دونوں کے دل میں بھی اسکول جانے کی خواہش پیدا ہوتی لیکن یہ سوچ کر اپنی تمنا دبا دیتے کہ اگر ہم اسکول جانے لگے تو شام کو روٹی کون دے گا۔ اسکول جانے والے بچوں کے خوبصورت بستے دیکھ کر وہ سوچتے کہ اگر اتنے ڈھیر سارے بستے انھیں مل جائیں تو شیخ مطلوب بہت روپے دے گا۔

محمد جان کو شہر میں بعض اوقات لوگوں کا غصہ بھی برداشت کرنا پڑتا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اس نے کسی چیز کو فالتو اور بے کار سمجھ کر اٹھایا تو اس کے مالک نے اسے برا بھلا کہا کیوں کہ وہ چیز کسی خاص مقصد کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ اس کے علاقے میں زیادہ تر کارخانے اور دکانیں جو تھیں۔

فقیر خان کی موج تھی، اس کے علاقے میں زیادہ تر عالی شان کوٹھیاں تھیں۔ ان کے باہر اکثر چیزیں اسے پولی تھن کے تھیلے میں بند مل جاتیں۔ ایک دفعہ اسے کئی کھلونے سفید رنگ کے تھیلے میں پڑے ہوئے ملے تو وہ بہت خوش ہوا۔ ان کھلونوں میں تالیاں بجانے والا بندر، چابی سے چلنے والی موٹر جس کی چابی نہیں تھی، آنکھیں مارنے والی گڑیا، ڈرم بجانے والا بھالو اور ایک سیٹی شامل تھی۔ اس دن محمد جان اور فقیر خان کی بستی میں بہت رونق تھی کیوں کہ فقیر خان وہ سارے کھلونے لے کر پہلے اپنے گھر گیا اور بستی کے بچوں میں بانٹ کر پھر شیخ مطلوب کے کباڑ خانے پہنچا۔

’’آج تم نے دیر کر دی، کدھر چلے گئے تھے۔‘‘ منشی نے پوچھا اور پھر شیخ مطلوب کی طرف دیکھا جو اپنے کمرے سے نکل کر ان کے پاس آگیاتھا۔

’’آج مجھے کھلونوں کا ڈھیر مل گیا تھا۔‘‘ فقیر جان خوشی سے بولا ’’میں اپنی بستی کے بچوں میں کھلونے بانٹ کر ادھر آیا ہوں۔‘‘

’’اوئے بیوقوف! شیخ مطلوب کہنے لگا ’’تمہاری بستی کے بچوں کو کھلونوں کا کیا کرنا ہے؟ ادھر لاتے تو چار پیسے مل جاتے۔‘‘

فقیر خان نے بوری میں سے استعمال شدہ چیزوں کا ڈھیر نکالتے ہوئے کہا ’’پیسے تو روز مل جاتے ہیں، کھلونے کبھی کبھی ملتے ہیں۔‘‘

’’کیا کیا تھا کھلونوں میں؟‘‘ شیخ مطلوب نے پوچھا۔

فقیر خان نے دماغ پر زور دیا، اسے سارے کھلونوں کے نام نہیں آرہے تھے۔ سوچ سوچ کررک رک کر اس نے اپنے انداز میں کھلونوں کے بارے میں بتایا۔ شیخ مطلوب نے فقیر خان کی بات سن کر کہا ’’آئندہ اگر ایسی چیزیں ملیں تو ادھر لایا کر، زیادہ پیسے ملیں گے۔‘‘

ایک دن فقیر خان کو ویسی ہی چیز مل گئی۔

سردی کا موسم تھا۔ سورج نکل آیا تھا لیکن دھوپ نہیں نکلی تھی۔ ہر طرف دھند نکلی ہوئی تھی۔ گھاس تک پر کہرا جما ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ سڑکوں پر لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی۔ صبح سویرے اسکول جانے والے بچے گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔ فقیر خان اور محمد جان اس چوک پر پہنچے جہاں انھیں الگ ہونا تھا۔

’’فقیرئیے! آج دوپہر کا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔‘‘ محمد جان نے اونچی آواز میں کہا۔

’’کھانا کہاں کھائیں گے؟‘‘ فقیر محمد نے پوچھا۔

’’تم کوٹھیوں کا چکر لگا کر اسی چوک پر آجانا میں شہر کا مال ڈھونڈ کر آجاؤں گا۔ باہر کھوکھے پر روٹی کھائیں گے۔‘‘

یوں چوک میں دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ محمد جان شہر کے مضافاتی علاقے میں چلا گیا اور فقیر خان نے کوٹھیوں کارخ کیا۔ خوبصورت گھروں والے اس علاقے میں شہر کے امیر لوگ رہتے تھے۔ بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں، جن میں سنگ مرمر، سنگ سرخ اور سنگ سیاہ کے علاوہ پتلی اینٹیں اور خوبصورت رنگ اس طرح لگائے گئے تھے کہ ہر کوٹھی اس بچے کی طرح سجی نظر آتی جس کی سالگرہ منائی جا رہی ہو۔

فقیر خان زمین پر نگاہیں دوڑاتا، کوٹھیوں کے دروازے اور پچھواڑے کے ارد گرد مثلاشی نظروں سے ٹہلتا ٹہلتا جب ایک سفید رنگ کی کوٹھی کے سامنے پہنچا تو اس کی نظر لوہے کے دروازے کے باہر رکھے پلاسٹک کے تھیلے پر پڑی، جسے ملازم نے رات کے وقت باہر رکھ دیا تھا۔ اس علاقے میں لوگ دن بھر کی گندگی اور استعمال شدہ چیزیں مومی لفافوں اور تھیلوں میں ڈال کر باہر رکھ دیتے تاکہ سرکاری خاکروب صبح اٹھیں اٹھا کر لے جائیں۔ فقیر خان سرکاری خاکروب نہیں تھا اس لیے بہت صبح نکلتا تاکہ خاکروبوں کے آنے سے پہلے چیزیں اٹھالے۔

فقیر خان کی نظر تھیلے میں ایک بند لفافے پر گئی تو اس نے جھٹ اسے اٹھا کر ٹٹولا اور کھولنا چاہا لیکن کوٹھی کے اندر ٹہلتے کتے نے بھونک کر اسے ڈرادیا۔ فقیر خان نے جلدی سے تھیلے کو بوری میں ڈالا اور آگے بڑھ گیا۔ دوپہر تک اس نے پلاسٹک کے تین ڈبے پانچ ٹوٹی ہوئی شیشے کی بوتلیں، ایک ٹوٹی ہوئی ایش ٹرے، کاغذوں کا ڈھیر، مومی لفافے اور پھٹے ہوئے کئی کپڑے جمع کرلیے۔ ایک ڈرم میں اسے بکری کے دوسینگ بھی ملے جو اس نے بوری میں ڈال لیے۔ اب اسے محمد جان سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا اور بھوک لگی۔ اس نے ردی کی بوری کندھے پر رکھی اور چوک کی طرف چل دیا۔

وہاں ایک کھوکھے پر محمد جان اس کا انتظار کر رہا تھا۔ دونوں نے تندور سے روٹیاں اور دال کی پلیٹ لے کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد دونوں نے اپنا اپنا سامان فٹ پاتھ پر کھول کر مختلف چیزوں کو الگ کیا۔ اچانک فقیر خان کو پلاسٹک کے تھیلے کا خیال آیا، جلدی سے بوری سے نکال کر اس نے اسے کھولا اورلفافہ کھول کر اس میں بند چیزیں دیکھنے لگا۔ اندر سے ٹوٹا ہوا آئینہ بچے کے دودھ پینے کی بوتل، ٹشو پیپر کے ٹکڑے، کنگھی اور ایک ہار نکلا۔ فقیر خان نے ہار غور سے دیکھا اور محمد جان سے پوچھا: ’’یہ ہار تو بالکل نیا لگتا ہے۔‘‘

’’نیا ہوتا تو ان چیزوں کے ساتھ نہ ہوتا، لاؤ مجھے دکھاؤ۔‘‘ محمد جان نے فقیر خان کے ہاتھ سے ہار لیا اور پھر بغیر سوچے سمجھے اسے فقیر خان کے گلے میں ڈال کر تمسخر سے کہا۔ ’’یہ تم پہنا کرو، بالکل لڑکیوں والا ہار ہے۔‘‘

’’میں یہ اماں کو دوں گا۔‘‘ فقیر خان بولا۔

’’نہیں، کباڑئیے کو دے دینا، دو تین روپے مل جائیںگے۔‘‘

’’نہیں یار، یہ گھر لے کر جاؤں گا۔ اٹھو دیر ہو رہی ہے۔‘‘

دونوں نے اپنا اپنا سامان سمیٹا اور شیخ مطلوب کے کباڑ خانے کی طرف چل دیے۔ وہ اپنے کمرے میں نہیں تھا، اس کے منشی سے دونوں نے پندرہ پندرہ روپے لے کر گھر کا رخ کیا۔

رات کو فقیر خان کی جھگی میں بڑی رونق تھی۔ اس کی ماںنے چمکتا دمکتا ہار دیکھا تو بیٹے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے ملا ہے۔ بیٹے کے بتانے پر ماں نے محمد جان کے بابا اور اس کی بہن کو بلالیا۔ سارے لوگ اس ہار کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے لگے۔

’’یہ سونے کا ہے اصلی سونے کا؟‘‘ فقیر خان کی ماں بولی ’’فقیرئیے! صبح ہوتے ہی وہاں پھینک آنا جہاں سے اٹھایا ہے۔‘‘

’’تاکہ کوئی اور اٹھالے۔‘‘ فقیر خان تلخی سے بولا۔

’’نہیں نہیں، یہ ہم اسی کو واپس کریں گے، جس کی چیز ہے۔‘‘ محمد جان کا بابا بولا۔

فقیر خان کی ماں نے ہاں میں سرہلایا اور کہا ’’جس کی چیز ہو اس کے گلے میں اچھی لگتی ہے، خدا ہمیں حرام کھانے سے بچائے۔‘‘

محمد جان کی بہن نے ہار پر انگلیاں پھیریں، سونے کے خوبصورت ہار میں جگہ جگہ سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے پتھر لگے تھے جو اسے بہت اچھے لگے۔ وہ یہ ہار اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی مگر فقیر خان کی ماں نے ہار لے کر ایک ڈبے میں بند کیا، اسے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے لگی۔

صبح کی پہلی نشانی مرغ کی اذان تھی پھر پرندے بولنے لگے اور سورج دھند کے پیچھے سے جھانکنے لگا۔ فقیر خان اور محمد جان نے بوریاں کندھے پر رکھیں اور اپنے سفر پر نکلے لیکن اس دفعہ ان کے ساتھ دو بڑے بھی تھے… یعنی محمد جان کا بابا اور فقیر خان کی ماں۔

فقیر خان انہیں اپنے ساتھ اس سفید کوٹھی تک لے گیا جہاں کل صبح اس نے سفید تھیلا اٹھایا تھا۔ انھوں نے دروازے پر زور ور سے ہاتھ مارے، جب اندر سے کوئی نہ نکلا تو دروازے کے ساتھ لگی گھنٹی پر فقیر خان نے انگلی رکھ کر زور سے دبائی، دو تین مرتبہ گھنٹی بجانے کے بعد اندر سے ایک بوڑھا ملازم باہر نکلا اور غصے سے بولا:

’’ارے گھر والے سوئے ہوئے ہیں… تم لوگ صبح ہی صبح مانگنے آجاتے ہو۔‘‘

محمد جان کا بابا زور سے بولا ’’ہم مانگنے والے نہیں، حلال کی اور محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔‘‘

’’تو پھر کیا بات ہے، کس سے ملنا ہے؟‘‘ ملازم نے پوچھا۔

’’ گھر کا مالک کون ہے؟‘‘ فقیر خان کی ماں بولی۔

’’وہ اس وقت سو رہے ہیں۔‘‘

’’اسی کو دے دیتے ہیں اماں، یہ مالک کو پہنچا دے گا۔‘‘ فقیر خان بولا۔

’’ناں ناں، اسے نہیں دینا۔‘‘ ماں بولی۔

محمد جان کے بابا نے اونچی آواز میں کہا ’’جاؤ جاکر اپنے مالک کو بلاؤ، ہمیں اسے اس کا ہار واپس کرنا ہے۔‘‘

’’ہارواپس کرنا ہے! کیا ہار آپ کے پاس ہے؟ اوہ میرے خدایا! شکر ہے!! سارا گھر پریشان تھا۔‘‘ چوکیدار زور زور سے بولنے لگا ’’مالک نے تو ہار گم ہونے پر بڑی بیگم کورات بھر سونے نہیں دیا اور چھوٹی بیگم کا رو رو کر برا حال ہے۔‘‘

’’کیا بہت قیمتی ہار ہے؟‘‘ محمد جان بے تابی سے بولا۔

’’ہاں، بہت قیمتی ہے، پورے پچاس ہزار روپے کا ہے۔ ٹھہرو… میں ابھی مالک کو بلاتا ہوں۔‘‘

’’ناں، ناں مالک کو نہ بلاؤ، اب تم یہ لیتے جاؤ۔ فقیر خاں کی ماں بولی۔

اچانک اندر سے ایک آدمی خوبصورت، نرم گرم قیمتی کمبل لپیٹے نکلا اور ان کی طرف آیا۔ سردی سے بچنے کے لیے اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ نوکر اسے دیکھ کرجوش کے ساتھ بولا:

’’ہار مل گیا جی۔‘‘

فقیر خان کی ماں نے ہار اس آدمی کی طرف بڑھایا۔ جب وہ آدمی ہار لینے کے لیے آگے بڑھا اور ہاتھ کمبل سے باہر نکالا تو اس کا چہرہ دیکھ کر فقیر خان اور محمد جان حیران رہ گئے۔ وہ شیخ مطلوب تھا، کباڑ خانے کا مالک!

’’آپ!!‘‘ دونوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

اب شیخ مطلوب نے سامنے کھڑے افراد کو دیکھا، فقیر خان اور محمد جان کو پہنچان کر جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور بولا:

’’یہ لو سو روپے! اگر کباڑ خانے آتے تو پچاس روپے ملتے مگر گھر آنے کی وجہ سے زیادہ دے رہا ہوں۔ شاباش۔‘‘

محمد جان اور فقیر خان نے صبح صبح اتنی بڑی رقم دیکھی تو بڑی خوشی محسوس کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر انعام لیتے فقیرخان کی ماں بولی۔

’’ناں، جی ناں، ہم تو امانت واپس کرنے آئے ہیں، ہمیں پیسے نہ دو۔‘‘

’’اوہو… رکھ لو… بچوں کو دے دو اور ہاں، اگر آئندہ ایسی کوئی چیز ملے تو سب سے پہلے اسے لے کر میرے کباڑ خانے آیا کرو۔ یہ لو شاباش۔

لیکن فقیر خان کی ماں نے نوٹ نہیں لیے اور بولی ’’میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے مفت کا مال کھائیں۔ انھیں یہ خراب عادت لگ گئی تو کسی کام کے نہیں رہیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اشارہ کیا اور سب وہاں سے چل پڑے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں