ہندوستانی معاشرے میں یوں تو ایسی بہت سی برائیاں عام ہیں جو ایک لڑکی کے وجود کو کمتر اور پست بنانے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہیں ، انھیں دنیا میں آنے سے روکنے پر مجبور کررہی ہیں اور والدین کے لیے ان کے بوجھ ہونے کے تصور کو جلا بخشنے میں پیش پیش ہیں۔ ان تمام برائیوں اور خرابیوں میں جہیز کی لعنت کو ملکہ کا درجہ حاصل ہے ۔اس رسم نے شادی کو ایک مشکل امر بنا دیااور شادی جیسا مقدس فریضہ دولت کے حصول کاذریعہ بنا لیا گیا۔بیٹی جس کی پیدائش باعث رحمت بتائی گئی، جس کی تعلیم و تربیت جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا اس بیٹی کے پیدا ہوتے ہی والدین اس دن کی فکر میں لگ جاتے جب اسے وداع ہو کر دوسرے کے گھر جانا ہوگا اور اس کے جہیز کی تیاریاں بچپن سے ہی کی جانے لگتی۔ غریب والدین اپنی ضرورتوں کو کاٹ کر بیٹی کے لیے تھوڑا تھوڑا پیسہ اکٹھا کرتے، ماں چھوٹی چھوٹی ضروریات کی چیزیں جمع کرتی، اچھا سامان استعمال کرنے کے بجائے اٹھا کر رکھ دینے کو تر جیح دی جاتی تا کہ شادی کے وقت دیا جا سکے۔ شادی اور اس کے بعد کی تمام رسمیں ، کثیر باراتیوں کی خاطر و مدارت، تحفہ تحائف،سجاوٹ اور دوسرے انتظامات اور ان سب سے بڑھ کر جہیز کی تیاری والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑانے کے لیے کافی ہوتے۔
جہیز کی اس لعنت میں مسلم معاشرہ بھی پوری طرح گرفتار ہے۔ کچھ شہروں اور علاقوں میں تو جہیز اور لین دین کے معاملے میں کافی شدت پائی جاتی ہے۔ ڈگری اور جاب کے لحاظ سے باقاعدہ لڑکوں کی قیمت متعین ہوتی۔ گویا شادی نہیں بلکہ خرید و فروخت کا کوئی معاملہ ہو کہ اتنا دو تبھی شادی کریں گے جیسے شادی کر کے لڑکی اور ان کے والدین پر کوئی احسان کیا جا رہا ہو۔ جب لڑکی کے والدین اپنے بیٹے کی شادی کرتے تو وہ تمام مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے جو اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کر چکے ہوتے یا کرنے والے ہوتے۔اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا۔
مسلم سماج میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ،ایک تو وہ جن کی تعداد بہت کم ہے جو پوری طرح سے جہیز کی مخالفت کرتے اور سادگی سے بہو اپنے گھر لاتے ، یہ لوگ بہووں سے تو جہیز نہیں لیتے لیکن اپنی بیٹی کی شادی پر ضرورت کا سامان ضرور دیتے تاکہ سسرال میں وہ کسی مشکل کا سامنا نہ کرئے کیونکہ عموما سسرال والے اتنی جلدی بہو کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو جہیز کا مطالبہ تو نہیں کرتے لیکن دل میں اس بات کی خواہش رکھتے کہ ان کی بہو بھی ٹرک بھر کر سامان لائے اور کچھ کمی ہونے پر بہو کو طعنہ دینا نہیں بھولتے۔ کیونکہ لڑکے والے ہونے کے ناتے وہ جہیز لینا اپنا حق اور جہیز دینا لڑکی والوں پر فرض سمجھتے۔
یقینا تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو منھ پھاڑ کر بلا تکلف جہیز کی لسٹ تھما دیتے اور اسی کی بنیاد پر شادی کرتے۔یہ انتہائی درجے کے لالچی لوگ ہوتے جو دولت لے کے بیٹے کو بیچ دیتے ۔
عموما جہیز کے بارے میں یہ رویہ ہے کہ جہیز دینا سنت سے ثابت ہے ۔ آپﷺ نے اپنی زندگی میں کئی شادیاں کیں جس میں خود آپﷺ کی بیٹیاں زینب ؓ، ام کلثومؓ ،اور رقیہؓ کی شادی بھی شامل ہے اس میں کسی قسم کے سازو سامان کے دیے جانے کا ذکر نہیں ملتا ۔ آپﷺ نے کئی شادیاں کیں لیکن ازواج مطھرات میں سے کسی کے بھی جہیز لانے کا ذکر نہیں ملتا۔ دور جاہلیت میں جب عورتوں پر طرح طرح سے ظلم و زیادتیاں کی جاتی تھیں لیکن اس دور میں بھی رسم جہیز نظر نہیں آتی ۔ہاں نبی کریمﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو کچھ سامان ضرور دیا تھا۔ جس کی تفصیل سیرت النبی میں یوں دی گئی ہے:
’شہنشاہ کونین نے سیدہ عالم کو جو جہیز دیا وہ بان کی چارپائی، چمڑے کا گدا جس کے اندر روئی کے بجائے کھجور کے پتے تھے، ایک چھاگل،
ایک مشک دو چکیاں اور دو مٹی کے گھڑے۔‘‘
یہ وہ سامان ہیں جو نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنی سب سے عزیز بیٹی کو شادی کے وقت دیا۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں نا انصافی کرتے ایک بیٹی کو سامان دیتے دوسروں کو نہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ سامان دینے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن سے ہی آپ کی سر پرستی میں تھے ۔ ان کا کوئی گھر اور سازوسامان نہیں تھا جیسا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلممیں مذکور ہے:
’’حضرت علیؓ اب تک (شادی کے وقت) آنحضرتؐ ہی کے پاس رہتے تھے۔ شادی کے بعد ضرورت تھی کہ الگ گھر لیں۔ حضرت حارثؓ بن نعمان انصاری کے متعدد مکانات تھے۔۔۔ انھوں نے اپنا ایک مکان خالی کردیا۔ حضرت فاطمہؓ اس میں اٹھ گئیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہونے والا داماد غریب ہو تو اس کے گھر کو بنانے میں اس کی مدد کی جا سکتی ہے۔لیکن اسے لمبا چوڑا جہیز دینے اور لینے کے لیے دلیل بنانا با لکل غلط ہے۔مولانا سید احمد عروج قادری صاحب کہتے ہیں:
’’حضرت فاطمہؓ کو حضورؐ نے جو سامان دیا تھا وہ اگرچہ ان کی ضرورت کی بنا پر تھا مگر وہ جہیز کی کوئی رسم نہ تھی۔ لیکن علماء امت نے اسے جہیز ہی کہا ہے اور شادی کے وقت لڑکی کو کچھ سامان دینے کے لیے دلیل بنایا ہے۔‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’اگر یہ چیزیں بطور شرط اور جبر کے طور پر نہ ہوں اور نہ حد اعتدال سے بڑھی ہوئی ہوں تو ناجائز نہیں ہیں۔۔۔ مسئلہ کوئی بھی ہو اعتدال و توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے۔‘‘
لیکن آج جس طرح سامان تعیش لیا اور دیا جاتا ہے جن میں فریج ، ٹی وی، واشنگ مشین ، صوفے، ڈائنگ ٹیبل، باورچی خانے کا سارا سازو سامان، کار، بائیک وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اسے جہیز فاطمی کا نام دینا قطعی نامناسب ہے۔اس میں نمود و نمائش پوری طرح نمایاں ہوتی۔ لوگ تعریفوں کے پل باندھتے کہ واہ کیا جہیز دیا ہے یا کتنی اچھی قسمت ہے بہو ڈھیر سارا سامان لائی ہے۔نا دینے والے دینے سے چوکتے نا لینے والے لینے سے لیکن ان کے بیچ متوسط طبقہ پس کر رہ جاتا اور اپنی سفید پوشی کے بھرم کو قرض کے بوجھ سے قائم رکھنے کی ناکام کوشش میں لگا رہتا۔
امیر طبقے کو چاہیے کہ وہ نمود و نمائش سے پر ہیز کریں تاکہ دوسروں کے دلوں میں جہیز کی چاہ نہ پیدا ہو۔لڑکے والوں کو چاہیے کہ حرام طریقے سے مال حاصل کرنے کے بجائے اپنے بیٹوں کو حلال طریقے سے روزی کمانے کی تعلیم دیں۔لڑکیوں کو اور ان کے والدین کوچاہیے کہ جہیز کی مانگ رکھنے والوں سے قطعی شادی نہ کریں ۔ لڑکوں کو چاہیے کہ سسرال کے مال سے گھر سجانے کے بجائے نیک و صالح بیوی لاکر اپنی دنیا اور آخرت بنائیں تاکہ صالح نسل ان مائوں کے ذریعے پرورش پا سکیں۔علماء کرام اور معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ اس مہم میں آگے آئیں اور ایسی تمام شادیوں سے بائیکاٹ کر دیں جس میں جہیز لیا یا دیا جائے۔ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا جائے تاکہ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔lll