اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے، اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔‘‘
وہ خاتون جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سنی اور ان کے بارے میں قرآن میں حکم نازل کر کے ان کا تذکرہ زندہ جاوید بنادیا حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں۔ ان کا نکاح ان کے چچا زاد بھائی حضرت اوس بن ثابت سے ہوا تھا۔ جن کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ دونوں ایک ساتھ مشرف باسلام ہوئے۔
حضر ت اوس بن ثابت ایک معمر آدمی تھے بڑھاپے کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن آگیاتھا۔ معمولی معمولی بات پر غصہ ہوجایا کرتے تھے اور حضرت خولہ کو بہت کچھ کہہ دیا کرتے تھے۔ ایک دن غصہ میں انھوں نے کہہ دیا اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (یعنی تم مجھ پر میری ماں کی طرح ہو) فقہ کی اصطلاح میں اسے ’’ظہار‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ماں کی طرح اپنے اوپر حرام کرلے۔
جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ بہت نادم و پشیمان اور سخت پریشان ہوئے۔ حضرت خولہ بھی بے چین تھیں، چناں چہ وہ اس مسئلہ کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپؐ ان کو اس کا کچھ حل بتا دیں اور گھر کو بگڑنے سے بچالیں۔ اس وقت تک اس قسم کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا۔ لہٰذا رسول اللہؐ نے بھی کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو۔ یہ سن کر حضرت خولہ نالہ و فریاد کرنے لگیں اور بار بار حضور سے عرض کرنے لگیں کہ اوس میرے ابنِ عم ہیں، انھوں نے غصہ میں آکر یہ بات کہی ہے، میں قسم کھا کے کہتی ہوں کہ انھوں نے طلاق نہیں دی ہے۔ کوئی ایسی صورت بتائیے کہ میری اور میرے بوڑھے شوہر اور بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔
حضرت خولہ کا اصرار جاری ہی تھا کہ حضور پر یکایک نزولِ وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور خدا نے اس مسئلے کا فیصلہ فرما دیا۔ حضور نے فرمایا خولہ اپنے شوہر سے کہو کہ کفارہ میں وہ ایک لونڈی آزاد کردیں۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو مسلسل ساٹھ روزے رکھیں۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں۔ حضرت خولہ نے عرض کیا کہ وہ کسی کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تو خود حضورؐ نے حضرت اوس کی مدد کی۔ اس طرح انھوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت خولہ کا مرتبہ بہت بلند ہوگیا تھا، اور حضرت خولہ کی ہر شخص عزت کرتا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت خولہ کو دیکھا تو سلام کیا۔ سلام کا جواب دینے کے بعد انہوں نے حضرت عمر کو روک لیا اور انھیں نصیحت کرنے لگیں اور بہت دیر تک نصیحت کرتی رہیں۔ کچھ لوگ حضرت عمر کے ساتھ تھے، جن کو یہ بات ناگوار گزری ان میں سے ایک نے کہا بڑی بی تم نے تو امیر المومنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا۔ حضرت عمر فوراً بول اٹھے:
’’یہ جو کہتی ہیں انہیں کہنے دو، تمہیں معلوم نہیں کہ یہ کون ہیں؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی اور انہی کے بارے میں تو سورہ مجادلہ نازل ہوئی تھی۔ مجھ اللہ کے ناچیز بندے کو تو ان کی بات بدرجہ اولیٰ سننی چاہیے۔‘‘
حضرت خولہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے کچھ بندے اللہ کے نزدیک اتنے مقرب ہوتے ہیں کہ اگر وہ کوئی بات کہہ دیں تو اللہ ان کی بات کو پورا ہی کردیتا ہے۔ آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’بہت سے پراگندہ بال اور غبار آلودہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھا کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردیتا ہے۔‘‘
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے