یوروپین یونین کا ایک سروے

شمشاد حسین فلاحی

بر اعظم یوروپ کے ممالک یوروپین یونین کے تحت متحد ہیں۔ ان کی تہذیب و ثقافت ہی یکساں نہیں بلکہ ان کے سیاسی مفادات سے لے کر ان کی کرنسی یورو بھی مشترکہ ہے۔ اگر کوئی شخص یورپ کے کسی ایک ملک کا ویزا لے کر جاتا ہے تو پورے یوروپی ممالک کا سفر کرسکتا ہے۔ اور پورا یوروپ ریلوے کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح الگ الگ ملک ہونے کے باوجود یورو ممالک باہم متحد اور جڑے ہوئے ہیں۔

۵؍ مارچ کو ’’یوروپین یونین ایجنسی فار فنڈا منٹل رائٹس‘‘ نامی ادارے نے یوروپین یونین سے وابستہ ۲۸ ممالک میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج جاری کیے ہیں۔ سروے میں پتہ لگا ہے کہ اس براعظم کی ہر دس خواتین میں سے ایک خاتون جنسی حراسانی کا شکار ہوتی ہے اور ان شکار خواتین میں سے نصف ایسی ہیں جو زنا بالجبر کا نشانہ بنیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان 28 ممالک میں 1866 لاکھ خواتین رہتی ہیں سروے میں پتہ چلا کہ وہ 15 کروڑ سے زیادہ خواتین کا کسی نہ کسی شکل میں جنسی استحصال کیا گیا۔ سروے میں حصہ لینے والی خواتین نے بتایا کہ 15 سال کی عمر سے ان کا استحصال شروع ہوا۔ جب کہ ایک فیصد نے بتایا کہ 20 سال کی عمر میں ان کے ساتھ جبرا زنا کیا گیا۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 15 سے 24 سال کی90 لاکھ خواتین کے ساتھ زنا بالجبر ہوا۔

یہ سروے مارچ 2012 سے ستمبر کے درمیان کیا گیا۔ اقوام متحدہ سے وابستہ ادارے یوروپین انسٹی ٹیوٹ فار کرائم پری ونشن اینڈ کریمنل جسٹس اور یو این انٹر ریجنل کرائم اینڈ جسٹس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اس سروے کو انجام دیا اور اس میں 42000 سے زیادہ خواتین سے معلومات لی گئیں۔

مغربی دنیا میں کافی سنجیدہ بحث کا موضوع بننے والا یہ سروے تہذیب و ثقافت کی ’جنت‘ تصور کیے جانے والے خطہ کی حقیقی صورتِ حال پر روشنی ڈالتا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

یوروپ اس وقت وہ دنیا ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت اور سیاسی، معاشی اور فوجی اثر و رسوخ کے اعتبار سے دنیا پر غالب ہے۔ پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک تو یوروپ تہذیب و ثقافت کی اتباع کو اپنے لیے کامیابی کی راہ تصور کرتے ہیں اور اب تو مسلم دنیا بھی انہی کی جانب پوری مرعوبیت کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

یوروپ کی دنیا جہاں اپنی مختلف الجہات ترقی کے لیے قابل تقلید ہے وہیں یہ اپنی خاص تہذیب و ثقافت کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ فرد کی آزادی مساوات مرد و زن کا منظر نامہ اور خواتین کی آزادی کا خاص تصور اس کے خاص اوصاف ہیں اور حقیقت میں ان ہی بنیادی تصورات کو اس وقت پوری دنیا میں جبراً نافذ کرنے کی مہم چل رہی ہے اور مغلوب و مرعوب ممالک اور تہذیبیں اس کے سیاہ و سفید کو خوشی خوشی اپنانے میں اپنی ترقی اور بھلائی تصور کر رہی ہیں۔

بلا سوچے سمجھے اور بغیر جانچے پرکھے چیزوں کو اختیار کرلینا بعض اوقات ہی نہیں بلکہ اکثر فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ اور اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ مشرقی دنیا میں مرد و عورت کی آزادی اور مساوات مرد و زن کا مغربی تصور مختلف النوع مسائل اور برائیوں کو ان کے معاشرے میں جنم دے رہا ہے۔ یہ برائیاں اور مسائل سب کے سامنے ہیں اور ان سے نجات کی بھی کوششیں کی جاتی ہیں مگر بے سود۔ وجہ ظاہر ہے کہ جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ بنیادی طور پر مغرب کے نظریات کی برائیاں ہیں جو اس تہذیب کو اختیار کرنے کے بعد معاشرتی و سماجی مسائل اور برائیوں کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہمارے ملک میں جرائم اور وہ بھی خواتین کے خلاف جرائم میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ہمارے ملک کے ماہرین سماجیات کے لیے نیا اور حیرت انگیز ہے کیوں کہ اب سے پہلے ایسا نہ تھا۔ وجہ صاف ہے کہ جیسے جیسے ملک میں مغربی تہذیب کا فروغ ہوا ہے ویسے ویسے یہ کیفیت بڑھی ہے اور جیسے جیسے یہ چیز بڑھے گی یہ مسائل بھی اور زیادہ بڑھیں گے۔

اس تہذیب کی بنیادی خصوصیت جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا فرد کی بے قید آزادی اور مساوات مرد و زن کا ناقص تصور ہے اس لیے اس تہذیب میں سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور عورت ہی ہے اور اس کی تمام تر برائیوں کی مار عورت ہی پر پڑتی ہے، چاہے وہ دوہری ذمہ داریوں کی ادائیگی کی صورت میں ہو یا مرد کی مجرمانہ سرگرمیوں کی صورت میں۔ ہمارے سماج میں اس کے اثرات بڑھتے جرائم اور تیزی سے غیر محفوظ ہوتی جا رہی عورت کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور اس صورتِ حال پر جو لوگ تنقید کرتے ہیں اور اس کی جڑ مغربی تہذیب کی ان نظریاتی کمزوری کو جو بڑے خوبصورت انداز میں خوبیاں بنا کر پیش کی جاتی ہیں ان کو گناتے ہیں تو انہیں دقیانوس اور عورت کو تاریک دور میں دھکیلنے کی جدوجہد کرنے والا قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے اپنے سماج کو غور سے دیکھتے ہوئے یہاں واقع ہو رہی تبدیلیوں اور اس کے نتائج کا بھی جائزہ لینا ہوگا اور ساتھ مغربی تہذیب کی ’جنت‘ کو بھی اندر سے دیکھنا ہوگا۔

مذکورہ سروے ہمیں اُس سماج کو اندر سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کی پیروی میں دنیا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بے تاب ہے۔ کوئی دوسرا اس سے عبرت حاصل کرے یا نہ کرے مسلم سماج اور مسلم سماج کی خواتین کو تو لازماً اس پر غور کرنا ہوگا اس لیے کہ دوسروں کو اس تہذیب کے فریب سے بچانے کی ذمہ داری بھی تو انہیں کی ہے۔ مسلم سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے یہ واضح کردے کہ

نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل و دانش ہے

چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں