رسول ﷺ نے فرمایا:’’بیشک میرے دل پر (کبھی کبھی) کچھ حجابات سے طاری ہوجاتے ہیں، اور (اس لیے) میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں، اور ایک دن میں سو، سو بار کرتا ہوں۔‘‘(مسلمّ ابودائود)
انسان کا دل اس کے پورے بدن کا مرکز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’خوب جان لو کہ بدن میں ایک ذرا سا لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر وہ ٹھیک رہے تو سارا بدن ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے، خوب جان لو کہ وہ دل ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ انسان کا دل ایمان باللہ، ذکرِ خدا، شکرِ الٰہی، خوفِ آخرت اور خشوع و انابت ِالی اللہ سے جس قدر آباد ہو گا انسان کا پورا وجود اسی قدر اللہ کی بندگی کا مظہر و پیکر ہو گا ،اور اسی قدر انسان کی اطاعت و بندگی کے ظاہری رسوم و آداب میں حقیقتِ عبدیت و روحِ بندگی موجود ہو گی۔ اس کے برعکس قلبِ انسانی جس قدر ان صفات سے خالی ہو گا اسی قدر انسان کی زندگی اللہ کی بندگی و اطاعت سے دور ہو گی، یا اگر وہ بظاہر اللہ کی اطاعت و بندگی کررہا ہو گا تو اس کی عبادات و اعمال کی حیثیت بے جان لاشہ کی سی ہو گی کہ بظاہر ٹھیک ہونے کے باوجود اْن میں روحِ بندگی کا فقدان ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ حقیقتاً روحِ بندگی اور حقیقت ِعبدیت ہی مطلوب ہے جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر انسان کا ظاہر سرا پابندگی بن ہی جاتا ہے، نہ کہ بے روح ظاہر، جو دوسروں کی نظروں کو دھوکا دے سکتا ہے اور جس سے انسان خود بھی فریب ِنفس میں مبتلا ہو سکتا ہے لیکن جسے خدا کے یہاں سندِ قبول حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کے یہاں اصل قدر و قیمت انسان کے قلبی جھکائو کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بیشک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘ (مسلم)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’بندہ ایسے اعمال کرتا ہے جو لوگوں کی نظر میں اہلِ جنت کے سے عمل ہوتے ہیں مگر فی الواقع وہ شخص دوزخی ہوتا ہے‘‘ (بخاری)۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر ہر بندۂ مومن کو اپنے قلب کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ایمان، ذکر، خشوع، خشیت و محبت اور انابت و عبدیت کے لحاظ سے اس کی کیفیت کیا ہے، اور اگر اس پہلو سے اسے اپنے اندر کوئی نقص یا ٹھیرائو محسوس ہو تو سب سے پہلے اس کے دفعیہ کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ انسان کی پوری زندگی کی اصلاح کا دار و مدار تمام ترقلب کی اصلاح ہی پر ہے۔۔۔ یہ جائزہ اور قلب کا یہ احتساب اس قدر ضروری ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس و معصوم ہستیاں اور افضل الانبیاء صلوات اللہ علیہ و سلامہ جیسی برگزیدہ شخصیت بھی اس کی طرف شدت سے متوجہ تھی، دن اور رات کی تھوڑی سی مدت میں بے شمار بار اللہ کے یہ بر گزیدہ بندے اس احتساب میں مصروف ہوتے اور اپنے علوئے مقام کی مناسبت سے اگر شمہ برابر بھی کمی محسوس فرماتے تو پوری خشیت و انابت کے ساتھ اللہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم استغفار میں لگ جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین بندے ہونے کے باوجود ان کا یہ حال تھا! اور ہم خطا کاروں کا خطا کار ہونے کے باوجود یہ عالم ہے کہ اپنے احتساب اور خصوصاً اپنے قلب کے احتساب کی طرف ذہن متوجہ بھی نہیں ہوتا۔lll