دنیا بھر میں اس وقت انسانیت کو شدید قسم کے حالات کا سامنا ہے اور نصف انسانیت یعنی خواتین کو شدید ترین حالات درپیش ہیں۔ سماج میں جب اور جہاں بھی براہِ راست عورت کے خلاف کچھ ہوتا ہے تو اس سے تو عورت اور اس کی زندگی متاثر ہوتی ہی ہے مردوں کے متاثر ہونے کی صور ت میں بھی عورت ہی کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔ اور اس وقت دنیا بھر میں ہر جگہ عورت یہ دوہری مار جھیل رہی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جاری جنگ ہو یا خانہ جنگی، دہشت گردی ہو یا دہشت گردی کے نام پر مسلط کردہ خونی کھیل یا پھر دنیا بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم ہر طرف سے موجودہ سماج میں عورت ہی پس رہی ہے۔ اگر اس کا شوہر، بھائی یا باپ جنگ میں مار دیا جاتا ہے یا دہشت گردوں کے ذریعے ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اس کی چوٹ بھی اسی کی زندگی پر پڑتی ہے اور وہ یتیمی، بیوگی اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دی جاتی ہے۔ اگر وہ پڑھ لکھ کر خود کفالت کی زندگی کی طرف جاتی ہے تب بھی وہ گھر اور باہر کے دوہرے بوجھ کو ڈھونے پر مجبور ہے اور اگر وہ خود افلاس اور ناخواندگی سے دو چار ہے تو بھی اسی کی زندگی اجیرن ہے۔ اگر وہ خود کوئی غلطی یا جرم کرتی ہے تو اس کی سزا تو اسے ملتی ہی ہے اس کے بھائی یا باپ یا خاندان کا مرد کسی سماجی برائی کا مرتکب ہوتا ہے تب بھی انتقامی کاروائی کی زد میں اکثر عورت ہی آتی ہے۔ سماج میں اگر وہ گھر کے اندر ہے تو اپنوں کا نشانہ ہے اور اگر باہر ہے تو حریص اور ہوس پرستوں کا ہدف۔ نہ وہ گھر میں مامون او رمطمئن ہے اور نہ گھر سے باہر محفوظ و مسرور۔ گھر میں ’گھریلو ہنسا‘ اور جہیز کا بھوت اس کا پیچھا کرتا ہے اور گھر سے باہر مجرمانہ زہنیت کے راکچھس اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ سماج یا حکومتیں اس صورت حال کی ان دیکھی کر رہی ہیں اور غافل ہیں۔ نہیں ان کے تحفظ کے لیے ہر جگہ خصوصی انتظام کی ہدایات ہیں۔ گھر میں دومسٹک وائلنس پروٹیکشن ایکٹ ہے تو کام کی جگہوں پر تحفظ کے لیے بھی خصوصی قانون۔ سڑکوں پر چلتے وقت بھی ان کے تحفظ کے لیے قانونی تحفظات موجود ہیں مگر جرائم کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف سے امڈا پڑتا ہے۔ حیوانیت ہے کہ روز بہ روز نئی قوت اور نئے انداز میں حملہ آور ہوتی اور ان کے عزت و وقار کو تار تار کرنے کی مسلسل کوشش کرتی ہے۔ ممتا بنرجی کے مغربی بنگال میں ایک لڑکی کے ساتھ ۱۳؍ افراد کے ذریعے زنا بالجبر کی خبر ہو یا معصوم اور کمسن بچیوں کے جسم اور روح کو لہولہان کرنے کے روز مرہ واقعات۔ہر ایک حادثہ پر یہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر قانون اور انتظامات عورت کے تحفظ میں ناکام کیوں ہیں۔ اور یہ کیفیت صرف تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہی میں نہیں پوری دنیا میں یکساں طور پر نظر آتی ہے۔ بلکہ ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں تو حالات دگرگوں اور ان کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔
ان حالات میں (۸؍ مارچ) یوم خواتین کی ضرورت و اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ موجودہ زمانے کی عورت کو ان مصائب و مشکلات سے نجات دلانے کی مخلصانہ کوشش کی جائے اور اس بات پر کہ موجودہ دور کی عورت کو اس کیفیت سے کیسے نکالا جائے پوری سنجیدگی، اخلاص اور لگن کے ساتھ محض غور وفکر ہی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کی جائے۔
موجودہ نظام سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسے اس کیفیت سے نکال سکے گا بڑی سادگی بلکہ حماقت کی بات ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے کا اہل ہوتا تو تمام مادی قوتوں اور قانونی ہتھیاروں کے ذریعہ نکال کر عورت کو محفوظ، مامون اور مطمئن کرچکا ہوتا۔ ایک صدی سے زائد کے طویل عرصہ اور اس کی نام نہاد جدوجہد سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یوم خواتین منانے والی قوتیں اپنی کوششوں میں نظریاتی اور عملی طور پر ناکام ہوگئی ہیں اور اب ان کے پاس محض خالی خولی دعوؤں اور آنکھوں میں دھول جھوکنے کی مترادف پالیسیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے تو حقیقت کی ہی ترجمانی ہوگی کہ انہی قوتوں نے عورت کو اس حال تک پہنچایا ہے اور یہ ان کے ان نظریات کی خرابیوں کے سبب ہوا ہے جس نے عورت کو ہر جگہ مردوں کی تکمیل ہوس کا ذریعہ بنایا اور اس کی جنسیت کو ایک فرد کے بجائے ایک جنس بازار کی شکل دے دی۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی اور سمجھی جاسکتی ہے کہ اب دنیا بڑی امید کے ساتھ باحجاب مسلم خواتین کی طرف دیکھتی ہیں۔ باحجاب مسلم خواتین کیوں کہ کسی نہ کسی صورت میں اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں اس لیے یہ امید براہ راست اسلام کے نظام حیات سے ہے۔ اور اسلام ہی کا نظام حیات وہ نظام ہے جس نے عورت کو محفوظ، محترم اور مضبوط و مستحکم بنایا ہے۔
اب دنیا مسلم خواتین کے رول کی طرف پرامید نظروں سے دیکھتی ہے کہ وہ انہیں بھی اس نظام کی برکتوں سے آشنا کرائیں گی جس نظام کو انہوں نے اختیار کر کے خود کو محفوظ و محترم بنا لیا ہے۔ مگر یہ احساس خود مسلم عورت کو بہ حیثیت مجموعی شاید نہیں ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین عالمی یوم خواتین کو نئے نظریاتی تناظر میں اختیار کرتے ہوئے اس دن کو لوگوں کے سامنے ایک متبادل نظام زندگی کو پیش کرنے کے لیے استعمال کرکے دنیا کو بتائیں کہ اسلام کس طرح عورت کو محفوظ اور محترم بناتا ہے اور کس طرح سماج سے برائیوں کا خاتمہ کر ڈالتا ہے۔ نیز دنیا پر اس کی ناکامی ثابت کرتے ہوئے اس کو یہ بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ سماج سے جرائم کا خاتمہ اور عورت کا تحفظ نئے نئے قوانین کے ذریعہ نہیں بلکہ خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کے تصو رسے ہی ممکن ہوگا۔ مگر اس موقعے کو نئے حوصلے اور نئی اسٹریٹجی کے ذریعہ استعمال کرنے کی ضرور رت ہے۔ اب وقت آگیا ہے اور مواقع مطالبہ کرتے ہیں مسلم خواتین پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیں کہ اسلام کا نظریہ اور اسی کی ہدایات موجودہ مشکلات کا حل ہیں۔lll