ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، انتخابی کمیشن سے لے کر سیاسی پارٹیوں تک سبھی لوگ اپنی سرگرمیوں اور بیانات میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان عوام کو لبھانے کے ہتھکنڈے ایجاد کرنے اور عوام کو متاثر کرنے کے نت نئے طریقے تلاش کرنے میں جٹے ہیں۔ ’’رنگ برنگی‘‘ سرگرمیاں اور ’’رنگ برنگے‘‘ کے بیانات کے ساتھ ملک گیر پارٹیوں سے لے کر علاقائی پارٹیوں تک کے لیڈران اس کام میں لگے پڑے ہیں۔ سب سے دلچسپ لبھاؤنے اور مزیدار بیانات اور وعدے مسلمانوں کے لیے سامنے آرہے ہیں۔ مسلم مخالف جذبات اور کٹر واد کی سیاست کرنے والی نریندر مودی کی قیادت سے ’سرفراز‘ پارٹی بھی انہیں لبھانے کی کوشش میں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے بھاریہ جنتا پارٹی مسلمانوں کے بغیر حکومت تو بنا سکتی ہے مگر ملک نہیں چلا سکتی۔ کبھی مودی کی سبھاؤں میں کرائے پر نقاب پوش خواتین بلائی جاتی ہیں اور جہاں یہ ممکن نہ ہوسکے وہاں تو آر ایس ایس کے مرد کارکنان ہی برقع پہن کر ریلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ تاکہ کیمرے کے قید میں کچھ ایسے ’کالے‘ جسم بھی آجائیں جنہیں ٹی وی چینلوں پر دکھا کر یہ تاثر دیا جاسکے کہ مسلمان بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھی ساتھ ہیں۔ ادھر اترپردیش میں زبانی وعدوں ہی سے سہی ملائم سنگھ مظفر نگر کے زخم دھونے میں لگے ہیں تو کہیں مایاوتی مسلمانوں کے لیے متبادل کے طور پر اپنی پارٹی کو پیش کر رہی ہیں۔
اس پوری صورتِ حال سے ایک بات واضح اور صاف ہے کہ مسلمان ووٹ اہم اور ناقابل تلافی ہے۔ کانگریس کو تو اس کا اندازہ ہے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اب اس بات کو سمجھ چکی ہے۔ یہ ایک خوش آئندہ پہلو ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرلیا ہے۔ مگر اس کا دوسرا پہلو جو کسی قدر تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ خود مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی اہمیت ابھی تک معلوم نہیں ہوپائی ہے۔
ووٹ کی اہمیت کے باوجود سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی بے وزنی ہندوستان میں ملک کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن اقلیت کے لیے ایک سانحہ ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی بڑی اور بنیادی وجہ مسلمانوں کے اندر دینی شعور کی کمی اور ملی تقاضوں سے لاعلمی ہے۔ دینی بے شعوری اور ملی تقاضوں سے ناواقفیت ہی کے سبب موسمی لیڈران اور کبھی کبھی جماعتیں تک ملی مفادات اور مسلمانوں کے وقار تک کا سودا کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ الیکشن کے قریب آتے آتے ان کا عروج شروع ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ بعض بااثر افراد اور جماعتیں تو یہ ثابت کرچکی ہیں وہ کانگریس کا دم چھلہ ہونے کے علاوہ او رکچھ نہیں اور بعض بے بصیرت قائدین مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں کہہ کر صرف اپنے مفاد کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں یہ کہنا کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں آسان ہے مگر ان کے اندر دینی شعور کی بنیاد پر سیاسی بیداری لانا قدرے دشوار ہے اور لوگ دشوار کو چھوڑ کر آسان ہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومتیں تو بن جاتی ہیں مگر مسلم اقلیت وہیں کی وہیں کھڑی رہ جاتی ہے اور گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے یہی ہو رہا ہے۔
یہ قطعاً غیر متوقع اور ناممکن ہے کہ ملک کے تمام مسلمان یکساں اور متحدہ طور پر کسی ایک سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں مگر یہ ممکن بلکہ ضروری ہے کہ تمام مسلمان جسے بھی ووٹ دیں اسے شعوری بنیادوں پر ووٹ دیں۔ اس شعور میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہیے کہ مسلمان کسی سے ڈر کر کسی دوسرے کو ووٹ دینے کی سوچ سے باہر آئیں اور ایسے قائدین کو بھی نظر انداز کریں جو مسلمانوں میں خوف کی نفسیات پیدا کرکے مسلم ووٹ کو کسی ایک پلڑے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک میں آئندہ ہونے والے انتخابات کے تناظر میں مسلمانوں کو درج ذیل امور کو اچھی طرح سامنے رکھنا چاہیے۔
(۱) اس وقت دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو شدید قسم کی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ خود مسلم ممالک میں ہی مسلمان (نام کے مسلمانوں کے علاوہ) اجنبی اور اسلام اجنبی ہیں اور اس وقت ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہی حالات کا تھوڑا سا عکس ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو نہ تو کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سیاسی تبدیلی سے خوف زدہ ہونے کا جواز۔ کیوں کہ ایک مضبوط جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے حکومت کی تبدیلی ایک فطری امر ہے اور اس سے پہلے بھی یہ تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ اس وقت انہیں حالات پر اثر انداز ہونے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ آنے والے نتائج سے مستفید ہونے یا نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی حکمت عملی کے ساتھ تیار رہنا چاہیے۔
(۲) مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں اسلام کی وجہ سے ہیں۔ یہی ان کی شناخت اور انفرادیت ہے۔ بعض اوقات یہی ان کے مسائل کا سبب بھی ہے اوریہی ان کے مسائل کا حل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالف طاقتیں جو کچھ بھی کر رہی ہیں وہ اسی انفرادیت کو ختم کرنے اور اسی اسلام سے دور کرنے کے لیے کر رہی ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو سب کچھ ٹھیک اور ساری مخالفتیں ختم۔ مگر اس صورت میں مسلمان ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے جیسے پانی میں نمک۔ نمک اسی صورت میں اپنی شناخت باقی رکھ پاتا جب وہ Solid اور خالص ٹھوس شکل میں موجود ہو۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے لیے خالص کریں کہ ان کی زندگی سے اسلام کو دیکھا اور سمجھا جاسکے۔ لوگ جب اسلام کو مسلمانوں کی زندگیوں سے سمجھنے لگیں گے تو مخالفت کی ساری دھار خود ہی کند ہوجائے گی اور مخالف طاقتوں کا ایجنڈا ناکام ہوجائے گا۔
(۳) مسلم ووٹ کی اہمیت اب تسلیم شدہ ہے مگر ملکی سطح پر اس ووٹ کو منظم اور متحد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے علاقائی اور حلقہ جاتی سطح پر اپنے ووٹ کو منظم، مفید اور فیصلہ کن بنانے کی حکمت عملی تیار ہونی چاہیے۔ اور یہ کام حلقہ کی سطح پر باشعور افراد انجام دے سکتے ہیں۔ اس طرح اپنے ووٹ کو بے اثر یا ضائع ہونے سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ اور کامیابی و ناکامی ہر دو صورتوں میں اپنے لئے مفید بھی بنایا جاسکتا ہے۔
(۴) سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی بے وقعتی کے موہوم احساس کمتری سے نکل کر ملک اور ملکی عوام کے لیے اہم سیاسی رول کے لیے آگے آئیں۔ اس لیے کہ اس وقت ملک کے سامنے کئی بڑے اہم او رسنگین مسائل در پیش ہیں ان میں مختلف بنیادوں پر ملک کے عوام کے درمیان تفریق بھی ہے اور کرپشن اور فرقہ پرستی بھی۔ مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس مضبوط خدائی نظام ہے۔ ایک دلکش اور انسانوں کے مسائل کو ختم کردینے والا سیاسی نظام۔ اور یہ نظام کسی اور کے پاس سرے سے ہے ہی نہیں۔ AAP اگر محض کرپشن مخالف ہوکر عوام کی چاہت بن سکتی ہے تو کیا ابوبکرؓ و عمرؓ کا سیاسی طریقہ اس ملک کے عوام کا دل نہ موہ لے گا۔
اور آخری بات ہے کہ وقت ہمیشہ سے عمل عمل اور عمل کا تقاضا کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ محض گفتگو اور حالات پر تبصرہ تبدیلی کا سبب نہیں بنتے۔ عملی میدان میں جدوجہد سے تاریخ بنتی اور حالات بدلتے ہیں۔ اور اگر ہم خود نہ چاہیں تو کچھ بھی ممکن نہیں۔lll