بہت سی خواتین سرطان سے ہونے والی بیماریوں سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں اموات کی بڑی وجہ امراضِ قلب ہیں۔ یہ خطرہ پچاس سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور خصوصاً سن یاس کی عمر میں بڑھ جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سن یاس ہونے کی عمر 45 سے 50 سال ہے، جو مغربی ممالک کی خواتین کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔ ایسٹروجن اپنے دیگر افعال کے علاوہ دل کی مدافعت کرنے والا ہارمون بھی ہے۔ یہ خراب کولیسٹرول یعنی LDL کی مقدار کو کم اور مفید کولیسٹرول یعنیHDLکو زیادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کولیسٹرول کو شریانوں میں جمع ہونے سے روکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین میں سن یاس کے بعد ہارمون کے پیدا کردہ مدافعتی اثرات ختم ہوجاتے ہیں اور امراضِ قلب یا دل کی شریانوں کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دل کی شریانوں کی بیماری میں دنیا بھر میں امراضِ قلب سب سے عام بیماری ہے۔ جس طرح جسم کے ہر حصے کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح دل کو توانائی فراہم کرنے کی ذمہ داری دل کی سطح پر موجود تین شریانوں کے سپرد ہے۔ وہ شریانیں جو دل تک خون پہنچاتی ہیں ’’کورونری‘‘ (دل کی شریان) کہلاتی ہیں۔ جب یہ کورونری شریانیں کولیسٹرول جمع ہونے کے باعث تنگ ہوجاتی ہیں، تو دل کو خون کی مناسب فراہمی نہیں ہوتی اور دل کی بیماری کی علامت پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا کورونری آرٹری ڈیزیز CAD۔ یا دل کی شریان کی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ CAD کی سب سے عام علامت سینے میں بے چینی کا احساس یا انجائنا ہوتا ہے، اور یہ دل تک خون کی ناکافی فراہمی کے باعث ہوتا ہے، جس میں رکاوٹ کا اہم سبب چکنائی یا فیٹی پلاک ہے۔ اگر خون کا ایک ٹکڑا اس پلاک پر بن جائے تو اس کے باعث دل تک خون کا بہائو مکمل طور پر رک جاتا ہے اور دل کے عضلات میں نقصان ہوتا شروع ہوجاتا ہے۔ اسے عام الفاظ میں دل کا دورہ کہتے ہیں۔ انجائنا دل تک خون کی فراہمی میں کمی کو کہا جاتا ہے جو کسی زخم کے بغیر رونما ہو، جبکہ دل کے دورے میں دل کا پٹھا شدید متاثر ہوتا ہے۔
کارونری آرٹری ڈیزیز کا طبی یا دیگر طریقے کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے جس کے لیے متعدد ادویات دستیاب ہیں، جن کی مدد سے دل تک آکسیجن کی فراہمی بڑھائی جاسکتی ہے، تاکہ دل کی کارکردگی زیادہ مؤثر ہوسکے۔ دل کے دورے کی صورت میں خون کے ٹکڑے گھلانے والی ادویات بھی فائدہ مند ہوسکتی ہیں، اگر ان کا استعمال فوری اور بروقت کیا جائے۔ بعض اوقات یہ ادویات مطلوبہ مقاصد کو مکمل طور پر پورا نہیں کرتیں اور پھر دیگر طریقہ علاج استعمال کیے جاتے ہیں۔ کارونری انجیو گرافی بھی ایک ایسا ہی طریقہ کار ہے، جس میں شریانوں (دل تک خون لے جانے والی شریانوں) کی تصاویر ایکسرے، ڈائی اور کیمرے کی مدد سے لی جاتی ہیں۔ یہ سرجری نہیں، بلکہ ایک تشخیصی ٹیسٹ ہے، جس میں درد یا تکلیف نہیں ہوتی اور اسے مریض کو بے ہوش کیے بغیر انجام دیا جاتا ہے۔ انجیو گرافی سے شریانوں میں رکاوٹوں اور ان سے متاثر شریانوں کا مکمل طور پر جائزہ ممکن ہوتا ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا انجیو پلاسٹی کی جائے یا بائی پاس سرجری۔
انجیو پلاسٹی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں ایک غبارے کی مدد سے دل کی شریانوں کی تنگی دور کی جاتی ہے اور سرجری کے بغیر انہیں کشادہ کیا جاتا ہے، پھر اس میں اسٹینٹ (اسپرنگ) ڈالا جاتا ہے، تاکہ شریان میں دوبارہ رکاوٹ نہ پیدا ہوسکے۔ یہ سرجری نہیں ہے اور اسے مریض کو بے ہوش کیے بغیر انجام دیا جاتا ہے۔ اگر رکاوٹ کافی حد تک تشویش ناک ہو تو پھر بائی پاس سرجری کا مشورہ دیا جاتا ہے جس کے لیے ٹانگ سے رگیں لے کر انہیں دل میں متبادل شریان کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
چونکہ کارونری آرٹری کی بیماری بہت عام اور مہلک بھی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان عوامل کی نشاندہی کی جائے جو اس بیماری کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ ان عام عوامل میں سگریٹ نوشی، ذیابیطس، موٹاپا، ورزش کی کمی، ذہنی تنائو، بلند فشارِ خون، ہائی کولیسٹرول اور سن یاس (ماہواری بند ہونے کے بعد) شامل ہیں۔ ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مریضوں کو اپنے معالج کے پاس باقاعدگی سے معائنہ کے لیے جانا چاہیے۔ بلڈ پریشر (اوپر کا) 130 اور نیچے کا 80 ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں موٹاپے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خصوصاً شہروں میں غیر صحت مند خوراک اور ورزش کی کمی دو اہم ترین وجوہ ہیں۔ خواتین میں موٹاپے سے نہ صرف امراض قلب، بلکہ چھاتی کے سرطان کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سادہ اقدامات مثلاً زیادہ چربی دار خوراک کے استعمال سے پرہیز اور باقاعدہ ورزش سے ان جان لیوا بیماریوں کا خطرہ کم ہوجاتا ہے اور صحت بھی بہتر ہوجاتی ہے۔ ورزش سے ذہنی تنائو کم ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہفتے میں کم از کم پانچ مرتبہ 25-30 منٹ تک تیز قدمی کی جائے۔ بلڈ پریشر کے مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ چہل قدمی کی رفتار اپنے معالج کے مشورے سے طے کرے۔
خواتین ہی خاندان کا مرکز کہی جاتی ہیں اور اپنے خاندان کی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ ایسے اقدامات سیکھ سکتیں، اختیار اور اپنا سکتی ہیں، جن کی بدولت وہ خود اور ان کے خاندان صحت مند اور توانا طرززندگی اختیار کرسکتے ہیں۔lll