پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر کے دوران بچہ اپنے والدین اور دیگر اہل خانہ کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا والدین بچے کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے اس کے سامنے سنتیں اور نوافل ادا کریں تاکہ وہ بھی اس طرح کے اعمال سر انجام دینے کی طرف مائل ہو۔
فرمان نبویؐ ہے: ’’گھروں میں نمازیں ادا کرو اور اسے قبرستان نہ بناؤ۔‘‘ (بخاری)
مزید فرمایا: ’’آدمی کی افضل نماز گھر میں ہے الا یہ کہ فرض نماز ہو۔‘ ‘ (بخاری)
بچوں کی تربیت کو مثبت رخ دینے میں یہ ایک اہم سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین خشوع و خضوع کے ساتھ بار بار اپنی پیشانی کو جھکا رہے ہیں اور عبادت میں اس قدر مگن ہیں کہ اپنے گرد و پیش سے بے نیاز ہوچکے ہیں تو وہ خود بخود ایسے اعمال کی طرف راغب ہونے لگترا ہے اور پھر جب وہ سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اس کے لیے نمازادا کرنا چنداں مشکل نہیں رہ جاتا۔
سن تمیز تک پہنچنے سے پہلے بچے پر وضو کرنے یا مکمل جسم ڈھانپنے کے حوالے سے سختی کا مطالبہ نہ کیا جائے، اسی طرح اپنے ساتھ رکوع و سجود نہ کرنے کی صورت میں اسے ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ نہ بنائیں، کیوں کہ ابھی تک وہ غیر مکلف ہے۔ اور اس پر بے جا سختی اسے نماز سے متنفر کرنے کا سبب بنے گی۔
جب بچہ کچھ سیکھنے کے قابل ہوجائے تو اسے سورۃ الفاتحہ اور اس طرح کی دی گر چھوٹی چھوٹی اور آسان سورتیں یاد کروائیں۔ ساتھ ساتھ رکوع و سجود اور تشہد کی دعائیں بھی سکھانا شروع کردیں اور ناظرہ قرآن اور دیگر ذکر و اذکار یاد کروانے کے لیے مسجد میں بھیجیں۔
جب بچہ سات سال کی عمر کے قریب پہنچے تو پیار اور شفقت کے ساتھ اسے نماز کی تلقین کرنا شروع کی جائے اور اس میں نماز کا شوق پیدا کرنے کے لیے ایسی تصاویر کے ذریعے اس کی راہ نمائی کی جائے جن میں، وضو اور نماز ادا کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہو۔
سات سے دس سال کا درمیانی عرصہ
جب بچہ سات سال کا ہو جاتا ہے تو اس میں اس قدر استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ وضو اور نماز جیسے فرائض سر انجام دے سکے۔ لہٰذا اسے ظاہری و باطنی طہارت کا طریقہ سکھایا جائے، پانی کے ساتھ استنجا کرنے کا حکم دیا جائے اور وضو کا مکمل طریقہ اسے ذہن نشین کرانے کے لیے کئی بار اس کے سامنے وضو کیا جائے اور پھر اسی طرح دہرانے کا حکم دیا جائے۔ غلطی کی صورت میں سختی اور سرزنش نہ کریں بلکہ پیار کے ساتھ اس کی اصلاح کریں اور اگر وہ صحیح وضو کرے تو اسے شاباشی دیں اور تعریف کریں۔
علامہ ابن قدامہؓ نے نقل کیا ہے کہ بچے کے ولی پر واجب ہے کہ سات سال کی عمر میں اس کو طہارت اور نماز کے مسائل کی تعلیم دے اور نماز ادا کرنے کا حکم دے اور دس سال کی عمر میں (نماز سے کوتاہی پر) اس کی پٹائی کرے۔ (المغنی: ۲/۳۵۰)
علاوہ ازیں طریقہ وضو کو صرف ظاہری چیزوں پر محدود نہ رکھا جائے بلکہ انسانی زندگی پر وضو کے معنوی اثرات کی بھی وضاحت کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ ہم وضو اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے اور ہر مسلمان پر ان کی پیروی لازم ہے۔
’’جب ایک مسلمان وضو کرتا ہے تو اس کی آنکھوں، کانوں، ہاتھوں اور پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد: ۵/۲۵۲)
پھر بچے کو قبلہ رخ ہوکر اور ستر ڈھانپ کر نماز ادا کرنے کا طریقہ سکھائیں اور نماز کے دوران پڑھی جانے والی سورتیں اور ذکر و اذکار کا التزام کروایا جائے۔
بچے کو مسجد کے آداب کے متعلق تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، اور اسے بتلایا جائے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس میں کھیل کود اور شور وغل کرنا مناسب نہیں۔
بچے کو نمازِ جمعہ میں خصوصی طور پر شریک کیا جائے، اسے صاف ستھرے کپڑے پہنا کر خوشبو لگائی جائے اور جمعہ کے بعد موضوع خطبہ کے حوالے سے بات چیت کی جائے تاکہ اندازہ ہو کہ اس نے کس حد تک خطبے پر غور کیا ہے اور اگر آپ کو محسوس ہو اس نے خطبے پر غور نہیں کیا بلکہ کھیل کود میں مشغول رہا تو نرمی کے ساتھ اسے سمجھائیں۔
بچوں کو وقت کی اہمیت اور پابندی کے متعلق آگاہ کیا جائے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو انھیں حکم دیا جائے کہ وہ بلا تاخیر نماز ادا کریں۔
صغر سنی میں بچہ فطرتی طور پر اپنی تعریف کو پسند کرتا ہے، لہٰذا والدین اس اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لیں بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اس کے اچھے کام کا تذکرہ کرتے ہوئے انعامات سے نوازیں۔ لیکن یاد رہے کہ اس کی اتنی بھی تعریف نہ کی جائے کہ اس کے دل میں غرور و تکبر پیدا ہونا شروع ہوجائے اور وہ ثواب حقیقی کو نظر انداز کرکے ثواب مادی کو ترجیح دینے لگے، جس سے اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔
اس عمر میں بچوں کو نماز کی طرف راغب کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بچے کو ایسی ڈائری مہیا کی جائے جس پر پانچوں نمازوں کے اوقات ترتیب کے ساتھ درج ہوتے ہیں۔ بچہ جب نماز ادا کرے تو پنسل کے ساتھ اسے نشان زد کردے اور اگر اس نے نماز چھوڑی ہو تو نشان نہ لگائے اور اگر گھر میں اس عمر کے بچے ایک سے زائد ہوں تو اس کے ذریعے ان میں مسابقے کا رجحان پیدا کیا جائے۔ ایسی ڈائریاں بازار میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔
بچے کو ترغیب دلائیں کہ وہ مسجد میں اذان اور اقامت کہے۔ اس سے اس کے دل میں مسجد اور نماز کی رغبت پیدا ہوگی اور جب وہ نماز، اذان یا اقامت پڑھے تو اس کے دوستوں کے سامنے اس کی تعریف کی جائے۔
دس سال سے سن بلوغت کا مرحلہ
اس مرحلے میں بچہ سن بلوغ کو پہنچ جاتا ہے اور اس پر نماز فرض ہوجاتی ہے۔ اسے درج ذیل مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
جب بچہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اگر وہ فرض نماز کو ترک کرے تو اسے لوٹانے کا حکم دیا جائے اور نماز کے ساتھ ساتھ دیگر نوافل بھی ادا کرنے کا کہا جائے۔
بچے کو باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم دیا جائے اور والد اسے ایسے دروس اور پروگراموں میں لے کر جائے تو ذہنی تربیت پر مشتمل ہوں، اور علمائے کرام کا تعارف کروائے۔ اس عمر میں بچہ شعائر عبادت کی ادائیگی میں بڑوں کو رفاقت پسند کرتا ہے، لہٰذا والد کو چاہیے کہ وہ بچے کی مثبت تعمیر میں اس امر کو خصوصی اہمیت دے۔ امام نوویؒ رقم طراز ہیں:
’’ہمارے علما نے بیان کیا ہے کہ ولی اس عمر میں بچے کو باجماعت نماز ادا کرنے، مسواک کرنے اور دیگر دینی اعمال بجا لانے کا حکمک دے اور زنا، لواطت، شراب، جھوٹ اور غیبت کی حرمت سے آگاہ کرے۔‘‘ (کتاب المجموع)
بچے کو ایسی کتب مہیا کی جائیں جن میں نماز کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہو۔ اس حوالے سے بچے کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جائے اور بچے کو نماز کی اہمیت بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔
اس عمر میں اگر بچہ فرض نماز ترک کردے تو والد کو چاہیے کہ اسے وعظ و تذکیر کرے اور اس حوالے سے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے آگاہ کرے، لیکن اگر وہ بدستور نماز نہ پڑھے تو اسے سرزنش کرے اور اس سے ترکِ تعلق کرلے۔ اس طرح کی سزائیں بدنی سزاؤں سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
سزا میں اعتدال
بچوں کو دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر مارنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان کی چمڑی اتار دی جائے اور اُنہیں مار مار کر ادھ موا کردیا جائے بلکہ مار تو مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اور وہ مقصد ہے نماز۔ اگر یہ بغیر مار کے حاصل ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے۔
والدین کو چاہیے کہ جب وہ بچے کو سزا دینا چاہیں تو کسی کے سامنے مارنے سے گریز کریں اور اسے برے القابات سے نہ نوازیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ار نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القابات سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ بڑے ہی ظالم ہیں۔‘‘
بچوں کو سزا دیتے وقت ان حدود و قیود کا خیال رہے جو شرع نے مقرر فرمائی ہیں۔ لہٰذا بچے کو مارتے ہوئے چہرے پر نہ مارا جائے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’جب تم میں سے کوئی مارے تو چہرے پر مارنے سے گریز کرے۔‘‘ (سنن ابی داؤد:۴۴۹۰)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو نماز کے ساتھ ساتھ دیگر اعمال بھی صحیح طریقے سے بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ وہ دنیوی و اخروی فوز و فلاح حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔