سیدہ عائشہ کی تنقید و احتساب:
بنو اُمیہ کے آغازِ خلافت کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے گورنر اپنے خطبوں میں حضرت علی ؓ اور ان کے حامیوں پر لعن طعن کرتے تھے۔ان کی اس روش پر کوفہ کے ایک صحابی حجر بن عدیؓ برملا تنقید فرماتے اور ساتھ ہی حضرت علی ؓ اور ان کے اعوان و اَنصار کی مدح و توصیف کرتے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کے گورنروں نے ان کی زبان بندی کی ہر چند کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے برعکس حجر بن عدی کے ہم خیال اور مؤیدین میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حجر ؓ اور ان کے بعض ساتھیوں کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔اور جب یہ گرفتار کر کے ان کے پاس لائے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ کر دیا۔ حضرت عائشہؓکو اس کا علم ہوا تو فوراً عبدالرحمن بن حارث کو حضرت معاویہ ؓکے پاس بھیجا کہ وہ اس اقدام سے باز آجائیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی حجر اور ان کے سات ساتھی شہید کیے جا چکے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ بے حد خفا ہوئیں اور حضرت معاویہ ؓ سے سختی سے بازپرس کی۔ عبدالملک بن نوفل روایت کرتے ہیں کہ وہ یہاں تک کہتی تھیں:
’’اگر سفہا کے غلبہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو حجر کے قتل کے سلسلہ میں میرا اور معاویہ کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اکابر صحابہ، فتنہ و فساد کے خدشہ سے بعض غیر شرعی اُمور انجام پاتے ہوئے دیکھنے کے باوجود خاموش رہے، اسی طرح حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس معاملہ میں بر بنائے مصلحت سکوت اختیار کیا۔ ورنہ وہ کوئی سخت قدم اُٹھانا چاہتی تھیں۔
حج کے زمانے میں حضرت معاویہ ؓ کی حضرت عائشہ ؓسے ملاقات ہوئی تو حضرت عائشہ نے تہدید آمیز انداز میں پوچھا:
’’اے معاویہ! تو نے حجر اور اس کے ساتھیوں سے جو کیا وہ کیا۔ تو نہیں ڈرتا کہ میں کسی آدمی کو چھپا کے بٹھاؤں تاکہ وہ تجھے قتل کر دے۔‘‘
روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے معذرت کرتے کرتے بڑی مشکلوں سے ان کی خفگی کو ختم کیا۔
رائے اور مشوروںکا حق اور اس سے استفادہ:
یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے سود و زیاں اور نفع وضرر سے مسلمان عورت کسی تماشائی کی طرح غیر متعلق نہیں رہ سکتی،کیونکہ معاشرہ کے بنائو اور بگاڑ اور اصلاح و فساد سے اس کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ معاشرہ کا نقصان اس کا اپنا نقصان اور معاشرہ کا فائدہ اس کا اپنا فائدہ ہے۔ وہ معاشرہ کو خیر کی بنیادوں پر قائم رکھنے میں مدد دے گی تو لازماً شر کی راہ پر لے جانے کی مخالفت اور مزاحمت بھی کرے گی۔ بھلائیوں کا خیر مقدم کرے گی تو برائیوں پر احتجاج بھی کرے گی۔ یہ اس کا فطری حق ہے جو اجتماعی زندگی نے اس کو عطا کیا ہے۔
جہاں تک اس کے ذاتی مسائل کا تعلق ہے مثلاً نکاح، خلع وغیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا جو بھی اقدام کیا جائے گا، اس کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔نبی ﷺکا ارشاد ہے:
’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اِجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘
ایک دوسری روایت ہے :
’’یتیم لڑکیوں کا نکاح ان سے رائے اور مشورہ کرنے سے پہلے نہ کر دو۔‘‘
’’یتامی‘‘ کا لفظ یہاں بہت ہی قابلِ توجہ ہے۔ شفیق و مہربان اور خیر خواہ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں بہت ممکن ہے کوئی ظالم سرپرست بے آسرا لڑکی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا لے اور شریعت نے اس کو اپنے متعلق فیصلہ میں رضامندی کا جو حق دیا ہے، اس سے محروم کر دے۔ اس لیے خصوصی طورپر اس سے رائے اور مشورے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ عورت پر کسی حال میں بھی جبر نہ ہو۔ ان معاملات کا تعلق تو اس کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اس سے بھی آگے حضور اکرمﷺ کی ہدایت ہے:
’’ عورتوں سے ان کی لڑکیوں کے معاملہ میں مشورہ لو۔‘‘
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جن شعبوں سے متعلق وہ تجربات رکھتی ہے اور ان کے نفع و نقصان سے بہتر طور پر واقف ہے، ان کے سلسلہ میں اس کے افکار و خیالات خصوصی توجہ اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا بلکہ ان معاملات میں اس کی رائے اور مشورہ سے فائدہ اٹھانے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔
یہ اُسوہ زندگی کے کسی ایک یاچندپہلوئوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔بلکہ اس کا تعلق ہر نوعیت کے مسائل اور تمام پہلوئوں سے ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ کے صفحات میں جگہ جگہ ملتا ہے۔
حدیبیہ کی مشہور صلح، قریش اور مسلمانوں کے درمیان جن شرائط پر ہوئی تھی۔ ابتدا میں ان سے مسلمانوں کی اکثریت ناخوش تھی۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے۔ اس شرط کی وجہ سے آپﷺنے صحابہ کو حدیبیہ ہی کے مقام پر احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، لیکن صحابہ کے جذبات اس وقت اتنے بدلے ہوئے تھے کہ اس حکم کی تعمیل ہوتی نظر نہ آئی۔ آپﷺنے افسوس کے ساتھ ام سلمہؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے صحابہؓکی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے انتہائی دانش مندانہ مشورہ دیا کہ آپ کسی سے مزید گفتگو نہ فرمائیے بلکہ جو مناسک ادا کرنے ہیں ان کو آگے بڑھ کر ادا کیجیے۔ پھر دیکھیے، کس طرح لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔چنانچہ آپ نے ان کے مشورہ پر عمل کیا تو صحابہ کرامؓ نے بھی آپ کو دیکھ کر فوراً پیروی شروع کر دی۔ (بخاری)
اس طرح ام سلمہؓکی درست اور صائب رائے نے آن کی آن میں یہ نازک صورتِ حال ختم کر کے رکھ دی۔حضرت عمرؓ کے بارے میں ہے کہ
’’عمرؓ پیش آمدہ مسائل میں (اصحاب الرائے لوگوں سے) مشورہ کرتے حتیٰ کہ (ان مسائل میں سمجھ بوجھ رکھنے والی) کوئی عورت ہوتی تو اس سے بھی اور بسا اوقات ان کی رائے میں خیرو خوبی کا کوئی پہلو دیکھتے یا کوئی مستحسن چیز پاتے تو اس کو اختیار کرتے۔‘‘
شفاء بنت عبداللہ کے تذکرہ میں علامہ ابن عبدالبر ؒ لکھتے ہیں:
’’شفاءؓ ہجرت سے قبل اسلام لائیں، وہ مہاجرات میں سے ہیں اور نبی سے بیعت ہوئیں۔ آپ کا شمارفاضل اور زیرک عورتوں میں ہوتا تھا۔حضرت عمرؓ ان کی رائے کو مقدم رکھتے اور اسے ترجیح دیتے تھے۔‘‘
جس زمانہ میں حضرت عائشہ ؓ حضرت عثمانؓکے قاتلین سے قصاص لینے کی تیاری کررہی تھیں، اپنی ایک تقریر میں فرمایا:
’’لوگ عثمان کے خلاف ہو رہے تھے اور ان کے عمال پر الزامات لگا رہے تھے۔ وہ ہم سے ان کی خبروں کے بارے میں مشورہ کرتے تھے تو ہم نے ان سب حالات میں عثمانؓکو بے گناہ، متقی، اور وفادار پایا جب کہ اودھم مچانے والوں کو فاجر دھوکے بازاور حیلے باز پایا۔‘‘
اِن الفاظ سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہؓ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے اعمال کا دقت ِنظر سے مطالعہ کرتی رہتی تھیں کہ کون سے امور حدودِ عدل و انصاف کے اندر انجام پا رہے ہیں اور کہاں ان حدود سے تجاوز ہو رہا ہے، دوسرے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل و معاملات سے حضرت عائشہؓ کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور لوگ اہم سیاسی مسائل تک میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ ان کو سلجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے؟ اس بنیادی سوال کو لے کر لوگ بصرہ کی مشہور شخصیت اور اپنے قبیلہ کے سردار احنف، حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھی جاتے ہیں۔ جب تینوں کی رائے حضرت علیؓ کے حق میں پاتے ہیں تو مدینہ جا کر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔
عملی تعاون:
مختلف سیاسی و غیر سیاسی مسائل میں عورت کی رائے اور فہم سے اسلامی معاشرہ نے جس طرح فائدہ اٹھایا ہے، اس طرح اپنی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے وہ مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ضرورت پر خلافت نے بھی اس سے یہ خدمات حاصل کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے خوارج نے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہﷺعورتوں کو جہاد پر لے جاتے تھے؟انہوں نے جواب دیا:
’’ہاں آپ ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں اور مریضوں کے علاج معالجہ کا کام انجام دیتی تھیں۔‘‘
’’رسولﷺام سلیم اور انصار کی بعض خواتین کو لے کر جنگ پر روانہ ہوتے تھے تاکہ وہ پیاسوں کو پانی پلائیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کریں۔
اسکے علاوہ بعض سماجی اور مذہبی کام بھی ان سے لیے گئے ہیں مثلاً امّ ورقہ بنت عبداللہ کہتی ہیں:
’’ رسول اللہ ان کے گھر آتے تھے آپؐ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا جو اذان کہتا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائیں۔‘‘
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ رمضان کی راتوں کی نماز (تراویح) میں ان کی گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشرہ نے عورت پر بہت سی مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں عائد کیں اور مسلمان عورت نے اپنے خانگی فرائض کے ساتھ اپنی اِن ذمہ داریوں کو بطریق اَحسن پورا کیا ہے۔
دورِ حاضر اور مسلمان عورت کی ذمہ داری:
آج کے دور میں مسلمان عورت کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس کا کام صرف گھر کی دیکھ بھال نہیں بلکہ اس کی اصل ذمہ داری نئی نسل کی پرورش و نگہبانی ہے جو انفرادی توجہ اور اچھی تعلیم وتربیت کی مستحق ہے۔ گھر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ بچوں کی پرورش و تربیت، ان میں شعائر ِ اسلامی کا احترام پیدا کرنا، اسلامی خطوط پر ان کی اُٹھان، جہادِ زندگانی میں مردوںکی سچی رفیق ثابت ہونا، ان میں حوصلہ اور ہمت پیدا کیے رکھنا، ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنا اور گھر میں آمد و خرچ کے بارے میں صحیح رویہ اختیار کرنا، یہ وہ تمام کام ہیں جو آج کی عورت سر انجام دے سکتی ہے تاکہ گھر میں سکون و چین کی فضا پیدا ہو سکے۔
حاصل کلام یہ کہ تعمیر و اصلاح معاشرہ کے کام میں باشعور اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند خواتین بہت عمدگی سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ معاشرے میں نمودار ہونے والے بعض منفی ر جحانات تو ایسے ہوتے ہیںجن کی خواتین اوّل قدم پر ہی اپنی انفرادی کوششوں سے درونِ خانہ بیخ کنی کر سکتی ہیں۔ شوہروں کے لیے جسمانی و روحانی سکون و تسکین، اپنے قول و عمل سے اولادوں کو دین داری کا درسِ اوّلین، گھروں میں توکل و قناعت اور سکون وآرام کی فضا کی فراہمی،سب فرائض سے وہ کما حقہ نمٹ سکتی ہیں۔کم آمدنیوں کو اپنے سلیقے اور محنت سے استعمال کر کے عزت اور خودداری سے رہنے کا سامان پیدا کر سکتی ہیں۔اپنے تعاون، رفاقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی اور دنیوی ترقی کے دروازے پر پہنچا سکتی ہیں۔ اپنے ہمسایوں اور عزیزوں کے سامنے اپنے کردار و اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کر کے کتنے ہی گھروں میں اصلاحِ احوال کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔دینی اجتماعات کی بدولت کتنے ہی دلوں میں اپنے اخلاق کی عمدگی،شائستگی،احترام و حسن خلق سے دین داری کا شوق پیدا کر سکتی ہیں۔ ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے حسن سلوک سے اپنے آس پاس ایک ہمدرد، مہذب، دیندار اور معاون ماحول پیدا کر سکتی ہیںاور دین کیلئے ایثار کا عملی مظاہرہ کرکے ان مجاہدات میں شامل ہو سکتی ہیں۔جن کے لیے حضورﷺ نے ان کے گھروں کو ہی میدانِ جہاد قرار دیا ہے۔lll