میں سوچتا ہوں…!
میں انسان ہوں!
میرے ارمانوں کے کچھ شہرستان ہیں جنھیں میں آباد دیکھنا چاہتا ہوں۔
میری آرزوئوں کی کچھ دوشیزائیں ہیں جنھیں میں عروسی لباس میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
میری تمنائوں کے کچھ کنول ہیں جنھیں میں سطح آب پر ترو تازہ دیکھنا چاہتا ہوں اور میں اپنے خوابوں کے تاج محل کو شہر موجودات میں دیکھنا چاہتا ہوں!
میں چاہتا ہوں کہ میں ایک کشتی بنائوں!
جس کا ڈھانچہ محبت کے تختوں اور چپو اخلاص کی لکڑی سے بنے ہوں!
جس کی فضا میں محبت کی خوشبو پھیلی ہو،جس کے مسافر آسمان کے فرشتے اور جنت کی حوریں ہوں۔ جن کے نفس ہر قسم کی بھوک سے ماورا اور روحیں تشنہ شراب طہور ہوں،جن کی روحیں ابدی حقیقت سے منور اور دل جذبوں اور ولولوں سے معمور ہوں۔
اور جن کی آنکھیں ہست و نیست کے تصور سے بلند ہو کر فنا فی العشق کے نشے میں مخمور ہوں!
اور جن کے کان، ان کے زبانوں سے نکلے ہوئے سرور آگیں نغموں کی سماعت پر مامور ہوں۔
اور جن کے جسم ندیدوں کی نگاہوں کے تیروں سے دور اور حیا کے لباس میں مستور ہوں!
اور ایمانداری کے بلند و بالا مستولوں پر لگے عظیم سچائی کے کپڑے سے بنے بادبانوں کو جب ازلی صدق کی ہوا پھڑپھڑائے، تو میرا سفینۂ الفت خوابوں کے جزیرے میں پہنچ جائے۔
اور جب میرا سفینۂ الفت شام کے جھٹپٹے میں بحرِ بیکراں کے سینے پر روانہ ہو جائے اور محبت کی پیاسی موجیں اس کے بوسے لے لے کر تھک جائیں!
اور غیظ و غضب سے بھری لہریں اس سے ٹکرا ٹکرا کر تسلیم ہو جائیں!
اور دور بہت دور تاحد نگاہ سمندر کے آخری سرے پر…جہاں آسمان اور سمندر ایک دوسرے سے ملتے ہیں، عشق کے منار نظر آنے لگیں۔
اور میں وقت سحر اپنی منزلِ مراد کو پا جائوں۔ تسبیح و تہلیل کے پرسوز نغموں میں اپنے خوابوں کے جزیرے میں چلتا جائوں۔
اور اپنے شریک سفر، یارانِ حضر کے ساتھ فتح کا جشن مناتا جائوں!
اور خوابوں کے جزیرے میں چپے چپے پر محبت کی ابدیت کی داستانیں لکھ لکھ کر ابد تک سو جائوں۔
میں چاہتا ہوں کہ میں ایک نغمہ گائوں! ایک طویل نغمہ جو کائنات کی ابتدا سے اس کی انتہا تک طویل ہو!
اور اس کا محیط فریادِ آدم تا صورِ اسرافیل ہو!
ایک فلک شگاف نغمہ جو افلاک کو توڑ کر صاحب افلاک کے دربار میں پہنچ جائے۔
ایک پْر سوز نغمہ جو دل کے بے ربط تاروں کو جوڑ کر ان کو سوزِ دروں سے بھر دے۔
جو ْمردوں میں روح ڈال کر ان کو شرمندۂ حیات کردے…
اور سوئے ہوئوں کو جگا کر ان کو مجموعۂ کمالات کر دے…
اور اس کی جگر خراش لے سے کائنات میں زلزلہ پیدا ہو اور تارے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جائیں! اور پورا سنسار اس کی پْرسوز لے سے معمور ہو جائے!
اور صحرا کاسینہ شق ہو کر ٹھنڈے پانی کے چشمے ابل پڑیں دریائوں اور سمندروں کا پانی اچھل اچھل کر زمین کی ساری خباثتوں کو دھو ڈالے !
اور مقدس روحیں اس کی لے میں لے ملا کر کائنات کو پیار کے نغموں سے بھر دیں۔
اور غول در غول پریاں آکر اپنے پاک جسموں اور نازک قدموں سے اس کی تال پر رقص کریں!
اور پھر جب تلبیسِ ابلیس ختم ہو کر قصۂ پارینہ بن جائے…
اور جب الموت اور شداد کی جنت صفحۂ ہستی سے مٹ جائے…
اور جب فرعون اور چنگیز کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بج جائے …
اور برائیوں کے سارے بت دھڑام سے گر کر ذروں میں بکھر جائیں…
اور پیار کے دریا باہم مل کر عشق کے سمندر میں مدغم ہونے لگیں…
اور محبت کے نور سے پورا عالم جگمگانے لگے…
تو میری آواز کائنات کے نغمے سے ہم آواز ہو کرابد لآباد تک عشق و محبت کی پیامبر بنی رہے!
میں چاہتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں الٰہ دین کا چراغ آجائے…
اور چراغ کا جن میری ناتمام آرزوئوں کی تکمیل کرے!
کہ جب میں افلاس کی ماری اور غربتوں کی دکھیاری ماں کی گود میں بھوک سے بلکتا بچہ دیکھ لوں جس کی دم توڑتی غوں غوں زندگی کے وجود پر قہقہے لگا رہی ہو، تو میں دودھ سے بھری بوتل اس کے منہ سے لگا کر مرجھائے ہوئے پھول جیسے چہرے کو شگفتہ کر دوں!
اور جب گندگی کے ڈھیر پر بیٹھی انسانیت کو غلاظتوں سے بھری، سڑی ہوئی چیزیں اٹھا کر ندیدوں کی طرح پیٹ کا جہنم بھرتے دیکھوں، تو لذیذ پھلوں اور خوش ذائقہ کھجوروں کے بھرے خوان پیش کر کے اس کی ابدی گرسنگی دور کر دوں!
جب بارود کی بو سے بھری ہوا میں پھٹتے بموں، چیختی مشین گنوں اور چنگھاڑتی توپوں کے مابین زخمی اولادِ آدم کو بقا کے لیے بھاگتے، ہاتھ پیر کٹے انسانوں کو پھلانگتے، تعفن زدہ لاشوں پر پھسل کر گر گر کر اٹھتے اور اٹھ اٹھ کر گرتے دیکھوں، تو مسیحا بن جائوں اور ان کے زخموں کا مداوا کر کے مشک و عنبر کی خوشبو سے بھرا، گلاب کے پھول جیسے کھلے چہروں والا ایک شہر آباد کروں!،
اور جب کسی ظالم درندے کو کسی معصوم ہرن کا بچہ اس کی نظروں کے سامنے چیرتے پھاڑتے دیکھوں، تو جنگل کے سارے ظالم شیر، عیار چیتے، خونخوار بھیریے، زہریلے سانپ اور نوک دار پنجوں والے عقاب ایک ایک پنجرے میں بند کر کے بحرالکاہل میں ڈبو دوں۔ تاکہ جنگل کے تمام ہرن آزادی کے ساتھ سبزہ زاروں میں اپنے بچوں کے ساتھ قلانچیں بھریں۔
اور مور آزادی کے ساتھ اپنے رنگ برنگے پَر پھیلا کر مرغزاروں میں ناچیں اورجنگل کے تمام پرامن جانور اپنے مسکنوں میں زہریلے سانپوں کے ڈسنے سے بے خطر ہو کر خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہیں۔
اور جب معصوم مینا اپنی بڑی بڑی چونچوں والے کمزور و ناتواں بچوں کو گھونسلوں میں چھوڑ کر ان کے لیے دانہ چگنے نکل جائے، تو اسے اس بات کا ڈر نہ ہو کہ اس کا بچہ عقاب کا شکار بن جائے گا۔
میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سارے گدھ ایک ایک کر کے مار دوں جو بڑی بے صبری سے حالتِ نزع میں مبتلا لوگوں کے مرنے کے منتظر ہوتے ہیں…
اور ابھی ان کی روح قفس عنصری میں موجود ہوتی ہے کہ اپنے مکروہ پنجوں اور نوکیلی چونچ سے ان کا گوشت ادھیڑنا شروع کر دیتے ہیں اور پلک جھپکنے میں انھیں ہڈیوں کے پنجر میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
میری سوچ محسوس کر کے خوشی، محبت اور امن کے دیوتا کے جھریوں بھرے چہرے پرسکون کی ایک گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور کمزوری کے باعث اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جگمگانے لگے۔
لیکن!
میری سوچ کی آواز بدی کے دیوتائوں کے بے ہنگم قہقہوں اور خوفناک ہنسی میں دب گئی۔