زندگی اگر ایسے نہج پر گزاری جائے کہ شروع ہی سے وہ بڑی ہموار ہو تو واقعتا آپ بہت سی الجھنوں سے محفوظ ہوجائیں گی۔ ایک خوش گوار زندگی، کامیاب زندگی ہے۔ لیکن خوشگوار سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ آپ کے پاس بے پناہ دولت ہو اور آپ جو کچھ چاہیں دولت کے ذریعہ خرید سکیں۔ دولت سب کچھ خرید سکتی ہے لیکن خوش گوار زندگی نہیں خرید سکتی۔ اور ہاں، خوش گوار زندگی سے آپ کہیں یہ بھی نہ سمجھ لیں کہ یہ چند روزہ زندگی دنیاوی معاملات میں عیش لے گزرے۔ لہو و لعب اور ناچ رنگ، فیشن اور نفس پرستی کو کوئی بھی ہوش مند زندگی کی خوش گواری قرار نہیں دے سکتا۔ یہ تو کچھ ایسی چیز ہے کہ جو پوری کی پوری زندگی کو سنوار دیتی ہے۔ آپ اپنی ذات میں بھی خوشگواری محسوس کرسکیں اور دوسرے بھی آپ کو دیکھ کر آپ کی خوبیوں کی وجہ سے رشک کریں۔ جب بھی ان کی زبان پر آپ کا نام آئے تو تعریف کے ساتھ! اس کے علاوہ آپ کا ہر کام آپ کے خالق و مالک کی نگاہ میں بھی پسندیدہ ہو۔ آپ میں کسی ایسے کام کے کرنے کا جذبہ پیدا ہو، جس پر آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ایک مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوں۔
اسلام سبق دیتا ہے کہ ہم پر دو طرح کے حقوق ہیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ کے حقوق، دوسرے بندوں کے حقوق۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق، اس کی عبادت، اس سے خوف اور اس کی بیان کی ہوئی حقیقتوں پر ایمان لانا ہے۔ لیکن بندوں کے حقوق وہ ہیں، جن سے ہماری ساری گفتگو متعلق رہی ہے اور جن کے سلسلے میں ہم کچھ اور بھی زیادہ تفصیل سے عرض کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقوق یہ ہیں جن کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس وقت تک معاف نہ کرے گا جب تک حق دار بندہ خود نہ معاف کردے۔ یہ حقوق اس قدر زیادہ اہم ہیں کہ ان کا اثر ہماری ذات پر بہت زیادہ گہرا پڑتا ہے۔
اِ ن حقوق کا اگر مختصراً عرض کیا جائے تو اتنا کہنا کافی ہوگا کہ یہ وہی قول و فعل ہیں جو ہماری زندگی کو خاصا خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ ان بندوں کے ان حقوق کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، جنھیں ہم بہت مختصر الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔
سب سے پہلا تقاضا اخلاق کی دوستی کا ہے۔ اگر آپ کا اخلاق اچھا ہے تو یقینا آپ ایمان میں بھی پختہ ہوں گی۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ اخلاق نفل عبادتوں سے بڑھ کر ہے۔
اخلاق کے سلسلے میں جن باتوں کا خاص طور سے لحاظ رکھنا چاہیے انھیں میں یہاں مختصراً بیان کرتا ہوں لیکن اس بیان میں اسلام کی تعلیمات، نبی کریمؐ کی ہدایات کو بنیاد کی حیثیت سے سامنے رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے خوف سب سے بڑی چیز ہے۔ ہم اگر اس کے غضب سے خوف کھاتے رہیں گے تو کتنے ہی گناہوں سے بچ جائیں گے۔ آپ خود سوچئے کیا آپ جھوٹ اس وقت بھی بول سکتی ہیں، جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا آپ کو خطرہ ہو؟ نبی کریمؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:
’’اے عائشہ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں باز پرس ہوگی۔‘‘ (ابن ماجہ)
ایسی ہی کتنی اور باتیں ہوں گی جن کو آپ اپنی زندگی سے الگ کردیں گی اور آپ کا ضمیر آپ پر ملامت کرنے سے باز آجائے گا۔
اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا بھی اخلاق کی بہت بڑی خوبی ہے۔ توکل کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ چار پائی پر بیٹھی ہوئی ہیں اور توکل کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبح کی چائے تو دے گا ہی۔ آپ کھانا پکانے نہیں اٹھتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کھانا تو دے گا ہی۔ یہ توکل نہیں سراسر زیادتی ہے۔ کیا نعوذ باللہ، وہ آپ کی چائے تیار کرنے اور کھانا پکانے آئے گا؟ توکل کی تعریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ کردی ہے۔
’’اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو روزی دے گا، جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ (گھونسلوں سے) نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر پلٹتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
گویا توکل یہ ہے کہ انسان کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے کہ روزی دینے والا وہی ہے۔ ہماری ہر ضرورت پوری کرنے والا وہی ہے۔ اس خوبی کو اپنا لینے کے بعد آپ اُن بہت سی خامیوں سے پاک ہوجائیں جن کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ مثلاً دوسروں کے مال و دولت کو دیکھ کر آپ کے اندر حسد کا مادہ پروان نہ چڑھ سکے گا۔ کوئی شخص اگر خوش حال ہے اور اس کی دولت آپ کے کام نہیں آرہی ہے تو آپ کو کڑھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ آپ اپنی جگہ پر کوشش کریں گی اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بھی نوازے گا تو آپ اپنی جگہ پر مطمئن ہوجائیں گی۔ وسعت سے زیادہ کی طمع بھی اس خوبی کی وجہ سے رخصت ہوجائے گی۔ چناں چہ نامناسب مطالبات، غیر ضروری طمع اور حرص، معمولی چیزوں کا لالچ وغیرہ آپ خود ترک کریں گی۔ آپ کو اس کا یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے یہ چیزیں چنداں ضروری نہیں ہیں، اور پھر ان کو حاصل کرلینے سے ایک وقتی خوشی کے سوا آپ کو ملے گا بھی کیا؟ ایسی صورت میں جب کہ اپنی آمدنی میں زیادہ گنجائش نہ ہو۔ توکل آپ کے اندر جو سب سے بڑی خوبی پیدا کردے گا وہ یہ ہے کہ آپ کو چاہے جتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے، آپ ان کا مقابلہ صبر اور استقلال سے کریں گی۔ یہی اخلاق کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ صبر کے معنی یوں سمجھئے کہ اگر آپ پر کوئی مشکل آپڑے تو آپ پوری ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں نہ کہ بیٹھ کر واویلا کرنے لگیں۔ واویلا کرنے سے ایک طرف آپ کی مصیبت ٹلنے کا نام نہ لے گی۔ دوسری طرف آپ اتنی کم ہمت ہوجائیں گی کہ آپ کے لیے مشکلوں کے سامنے ثابت قدمی سے جمے رہنا بھی محال ہوجائے گا۔
گھریلو معاملات میں صبر و استقلال کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کے بزرگ آپ کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، آپ کے شوہر بے انصافی کرتے ہیں، یا آپ کے چھوٹے سرکشی کرتے ہیں، یا آپ کے پڑوسی دھاندلی کرتے ہیں تو آپ کو یہ نہ کرنا چاہیے کہ آپ بھی انھی کا جیسا رویہ اختیار کرلیں۔ بلکہ آپ ان کی زیادتیوں کو برداشت کرکے خامیوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ عورت ویسے بھی جذباتی ہوتی ہے۔ اس کے لیے دوسروں کی دھاندلی کا برداشت کرنا آسان نہیں، لیکن اگر آپ اخلاق حسنہ کی مالک بننا چاہتی ہیں تو آپ کو اس کے لیے کوشش کرنی ہی پڑے گی۔
انتقام لینے کی خواہش کو رخصت کردیجیے۔ اگر کسی کی بات آپ کو بری لگتی ہے تو ٹال جائیے کیوں کہ جس شخص نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے وہ یقینا اپنے اندر اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ ناپسندیدہ بات سے در گزر کرسکے، چناں چہ وہ بداخلاقی پر مجبور ہوا۔ اب اگر آپ اُس سے انتقام لیں گی تو گویا اس کی خامی کو اور زیادہ اُبھرنے کا موقع دیں گی، اور اس کو پہلے سے بھی بڑی بدی کرنے پر اکسائیں گی۔ ویسے بھی انتقام لینا اسلامی اخلاق کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ انتقام لینے والے کو پسند نہیں کرتا۔
آپ میں فراخ دِلی ہو، آپ دوسروں کے ساتھ تواضع اور خاطر داری کے ساتھ پیش آئیں۔ دوسروں کے آرام اور اُن کی خوشی کا خاص خیال رکھیں۔ جب دوسرے آپ کا یہ رویہ دیکھیں گے تو لامحالہ اُن کے دل میں آپ کے لیے ہمدردی پیدا ہوگی، اور بدلے میں وہ آپ کے ساتھ لطف و کرم کے ساتھ پیش آئیں گے۔
اس سلسلے میں دو باتیں خاص طور سے آپ کی توجہ چاہتی ہیں۔ تواضع سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ جب آپ کے یہاں کوئی آئے تو آپ اُسے مرغن کھانے کھلائیں، بہترین تحفے دیں، اٹھنے بیٹھنے اور سونے کا عمدہ انتظام کردیں بلکہ تواضع میں بات چیت کا انداز اور دوسروں کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔
آپ کے لہجے میں سنجیدگی اور وقار ہونا چاہیے۔ بے کار کی بکواس سے پرہیز کیجیے۔ ہمارے گھرانوں کی عورتیں جب کسی سے ملنے جاتی ہیں تو چاہتی ہیں کہ جتنا زیادہ وقت ساتھ گزرے اچھا ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک محبت کے اظہار کا یہی ایک طریقہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ بیٹھنے کے لیے مسلسل بات چیت کرتے رہنا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اب آپ سوچئے کہ کئی کئی گھنٹے جب بات چیت کی جائے گی تو کتنی کام کی باتیں ہوں گی جو کی جاسکیں گی۔ سوا چند ایک کے زیادہ نہیں۔ چناں چہ باقی باتیں سب بے مطلب لایعنی ہوں گی، یا غیبت اور بدگوئی ہوں گی۔ بس یہیں سے مخاصمتوں کے بیج کلّے پھوڑتے ہیں، جس کی آپ نے غیبت کی ہے اگر اس نے کسی ذریعہ سے سن لیا تو وہ کب آپ کو بخش دے گی۔ چناں چہ گفتگو میں وقار اور سنجیدگی اشد ضروری ہے۔
پھر ہر بات کے کہنے کا وقت ہوتا ہے۔ آپ اگر کسی کے یہاں تعزیت کے لیے جائیں اور اپنے بیٹے کی شادی کا ذکر لے کر بیٹھ جائیں تو کیسا رہے گا؟ یا آپ کی کوئی ملنے والی، دوپہر کو جب آپ آرام کرنے لیٹی ہوں، اپنے میاں کی بہادری کے قصے لے کر بیٹھ جائیں تو آپ کہاں تک گوارا کرسکیں گی؟ بالکل یہی بات دوسرے کے احساسات و جذبات کے معاملے میں ہے۔ اگر دوسرا کسی ایسی مزاجی کیفیت میں ہے جو آپ کی بات کے لیے موزوں نہیں ہے تو آپ اپنی بات کو ٹال جائیں تاکہ غلط اثر نہ ہو۔ مثلاً شوہر جب کام سے واپس آئے تو اس کو کسی چیز کے ختم ہونے کا ’’مژدہ‘‘ نہ سنائیے۔ جب وہ دفتر جانے والا ہو یا کام پر جانے والا ہو تو کسی دوسرے ضروری کام کا تقاضا نہ کیجیے۔ پڑوسی جب تنگ دست ہو تو قرض وصول کرنے نہ پہنچ جائیے۔ یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں۔ روز مرہ کے تجربات آپ کو بہت سے دوسرے موقعوں کا احساس دلادیں گے۔
امانت و دیانت کے معاملے میں پوری اتریے۔ پڑوسن اگر پیاز کی ایک گانٹھ بھی آپ کے پاس رکھاتی ہے تو ضائع نہ ہونے دیجیے۔ آپ اپنے معاملات میں جتنی کھری ہوں گی دوسرے آپ سے اتنے ہی زیادہ مطمئن ہوں گے۔ پھر ایسے موقعوں پر جہاں دوسرے آپ کے محتاج ہوں یا ان کو غیر معمولی ضروریات درپیش ہوں آپ اُن کی مدد سے ہاتھ نہ اٹھائیں۔ ہمدردی اور بھائی چارے کا یہ عملی طریقہ آپ کے حق میں مفید ہوگا۔
شہرت اور خود پسندی سے پرہیز کیجیے۔ آپ کیوں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ سارا گھر آپ ہی کی طرف متوجہ رہے۔ آپ کے آرام و تکلیف کا خیال رکھے۔ کسی کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو؟ اور اگر کسی نے توجہ نہ دی تو آپ کا دل کیوں کڑھتا ہے؟ ایک مومنہ کے لیے یہ خیال کرنا کہ دوسرے ہر وقت اس کے ذکر میں لگے رہیں، اس کی تعریف کرتے رہیں، کسی طرح مناسب نہیں۔ یہ ذہنی بیماری تو تمام اچھے عملوں کو برباد کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شہرت اور خود پسندی کے طلب گار کو اپنے یہاں کوئی درجہ نہیں دیتا۔
دوسروں کے حقوق یعنی والدین، شوہر، اولاد، پڑوسی وغیرہ کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھیں۔ ان کی ادائیگی میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیں۔ یہ بات آپ پوری طرح ذہن میں رکھئے کہ اپنے حقوق سے محرومی کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ خود آپ کے دسترخوان پر سے آپ کے حصے کی روٹیاں اگر اٹھالی جائیں تو آپ لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گی۔ بالکل یہی کیفیت دوسروں کی بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنے حقوق کی پامالی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب آپ دوسروں کے حقوق کی پاسداری کریں گی تو نہ ان کو شکایت کا موقع ملے گا اور نہ وہ آپ سے تعلقات خراب کرنے کے لیے آمادہ ہوں گے۔
اسی طرح فضول خرچی اور اسراف سے بھی پرہیز کریں۔ کیوں کہ گھر والوں کی نگاہ میں آپ کا یہ عمل سخت تکلیف دہ ہوگا۔ اس لیے کہ ان کے روز مرہ کے معاملات متاثر ہوں گے، ان کے اخراجات پر غیر معمولی بوجھ پڑے گا۔ تنگی و ترشی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ وہ آپ سے تعلقات خراب کرلیں گے۔
فضول خرچی یا اسراف کیا ہے؟ کس چیز کو یا کس خرچ کو آپ اس زمرہ میں شامل کرسکیں گی؟ اس کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جو چیز آپ نے محض شوق کے طور پر خریدی ہو اور اس کے بغیر کوئی خاص کام نہ رک رہا ہو، یا اگر اس خاص چیز سے زیادہ ضروری چیزیں خریدنے سے باقی رہ گئی ہیں تو آپ کا یہ خرچ اسراف ہے۔
بناوٹ اور جھوٹا تکلف تو عام طور سے ناپسندیدہ چیز ہے۔ بناوٹی طریقے اختیار کرنے والا اور جھوٹا تکلف کرنے والا اپنی جگہ پر تو یہ سمجھتا ہے کہ لوگ اس کی ان اداؤں سے خوش ہو رہے ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ طبیعت پر سخت بار ہوتا ہے۔ خود جھوٹا تکلف کرنے والے کے مزاج پر بھی بار ہوتا ہے اور آپس میں دوری بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً آپ کسی سہیلی کے یہاں جائیں اور وہ آپ کو کھانے پر بلائے، لیکن آپ بھوکی ہونے کے باوجود محض تکلف کے طور پر کہہ دیں کہ ’’میں تو کھاکر آئی ہوں‘‘ اب ذرا اس بات پر غور کریں کہ اگرسہیلی کو کبھی معلوم ہوگیا کہ آپ گھر سے کھانا کھاکرنہیں آئی تھیں، آپ نے جھوٹ کہہ دیا تھا، تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟ وہ یقینا خیال کرے گی کہ آپ نے اُس کے یہاں کھانا کھانا پسند نہیں کیا، شاید آپ نے اُسے حقیر جانا۔ اس طرح اس کے دل میں آپ کی طرف سے کدورت بیٹھ جائے گی اور خود آپ انکار کرتے وقت اپنی سہیلی کو غیر سمجھ کر ہی انکار کریں گی۔
عورتوں میں ایک کم زوری کچے کان کی ہوتی ہے۔ ہر جھوٹی سچی بات پر یقین کرلیتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا جہان کی گڑھی گڑھائی باتیں جو کہیں بھی نہ ہوئی ہوں، ان کے واقع ہونے کی روایت عورتوں کی زبانی ہی سننے میں آتی ہے۔عورتوں کو اس طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور وہ خواتین جو خود تعلیم حاصل نہیں کرسکتی ہیں، ان کی طرف دوسری خواتین کو توجہ دینی چاہیے۔ بلا تحقیق کسی بات پر اس طرح ایمان لے آنا عام طور سے تعلقات کو خراب کردیتا ہے۔
بنیاد کچھ بھی نہیں، تعلقات خراب ہوگئے! اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ جب کسی بات سے آپ کسی کے تعلقات خراب ہوتے دیکھیں تو پہلے اس کی تحقیق کرلیں۔ اگر بات صحیح ہے تو نرمی کے ساتھ اپنی شکایت دور کرائیں۔
زبان عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس زبان کی وجہ سے عورتوں کی اکثریت دوزخ میں ہوگی (حدیث)۔ دراصل گوشت کا یہ ایک ذرا سا ٹکڑا اتنا اہم ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ میں اس سلسلے میں نبی کریمؐ کے اقوال ہی پیش کرتا ہوں جو میری بات واضح کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!
’’ہر صبح کو انسان کے تمام اعضاء زبان کے آگے عاجزی کرتے ہیں، کہتے ہیں خدا کے لیے ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔ اگر تو سیدھی ہے تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اگر تو ٹیڑھی ہے تو ہم بھی ٹیڑھے رہیں گے۔‘‘ (ترمذی)
غور فرمائیے کہ زبان ہی آپ کے جسم کے تمام اعضاء کو نیک یا بد راہ پر چلا سکتی ہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر آپؐ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا!
’’اس کو روکو۔ میں (حضرت معاذؓ) نے عرض کیا، یا حضرتؐ، کیا ہماری گفتگو کا بھی مواخذہ ہوگا؟ فرمایا تیری ماں تجھ کو روئے، لوگ آگ میں چہروں کے بل اسی زبان کی بدولت گرائے جائیں گی۔‘‘ (ترمذی)
مگر ہماری خواتین اس کے معاملے میں بڑی آزاد ہوتی ہیں۔ عام گفتگوؤں میں غیبت، بدگوئی، جھوٹ چغلی اور بہتان کو اس کثرت سے استعمال میں لاتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ حالاں کہ یہ تمام خرابیاں اتنی بری ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پاداش میں سخت ترین سزا دے گا۔
جب عورت جذبا ت سے مغلوب ہوجاتی ہے تو زبان کو بالکل غلط طرح سے استعمال کرتی ہے۔ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتی۔ لعن، طعن، زبان درازی، بدگوئی، سب حربے استعمال کرتی ہے، حالاں کہ انتقامی کارروائی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر زبان سے جتنے زیادہ ناقص کلموں کو آپ ادا کریں گی وہ اتنے ہی زیادہ آپ کے ذہن پر اثر ڈالیں گے، اور آپ کے خیالات کو بھی پراگندہ کردیں گے۔ ان سے آپ کے ضمیر کی پاکی رخصت ہوجائے گی، جس خراب بات کو ادا کرتے ہوئے ہماری زبان رکاوٹ نہیں محسوس کرتی، اس کا ہمارے مزاج میں شامل ہوجانا اور ہماری فطرت بن جانا کیا مشکل ہے۔ سوچئے کہ بے مقصد جذباتی فقروں سے آپ کی ذات کتنی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریمؐ نے فرمایا ہے:
مومن کبھی طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، بدگو اور زبان دراز نہیں ہوا کرتا۔ (ترمذی)
اس موضوع سے متعلق آخری بات خوش مزاجی کی دعوت ہے۔ ذرا آپ ہی خیال کیجیے کہ اگر آپ اِن ساری باتوں پر عمل کریں اور آپ میں خوش مزاجی نہ ہو تو کیا آپ دوسروں کے ساتھ سکون کے ساتھ بسر اوقات کرسکیں گی؟ روکھا مزاج، خشک طبیعت، پژمردہ خیالات، بے کیف باتیں، رونی صورت آخر کسے پسند آئے گی؟ نہ کوئی بات کرے گا، نہ پاس پھٹکے گا۔ مزاج میں شگفتگی ہو، بات میں سلیقہ اور دل موہ لینے والی کیفیت ہوگی تو دوسرے بھی ملنے جلنے میں مسرت محسوس کریں گے۔ البتہ غیر مردوں سے گفتگو میں اتنی احتیاط رکھی جائے کہ وہ غلط اندازے نہ کرنے لگیں۔ اسلام جہاں ایک طرف سنجیدگی اور وقار کی تعلیم دیتا ہے وہاں یہ بھی نہیں چاہتا کہ صورت دیکھتے ہی مخاطب کو نفرت ہوجائے۔
خوش مزاجی دوسروں کے بہت سے گلے شکوؤں کو ختم کردیتی ہے۔ جب بات کرنے میں دل کو سکون حاصل ہو، دماغ کسی جگہ الجھے نہیں تو ذہن بدمزاجی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ پھر خود بات کرنے والی اور مخاطب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی محسوس کرتی ہیں کیوں کہ گفتگو بڑے اچھے انداز میں ہو رہی ہے۔ اس طرح تعلقات اور بھی زیادہ مضبوط ہوجاتے ہیں۔ نبی کریمؐ جب بھی گفتگو کرتے تھے تو آپؐ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ آپؐ کی گفتگو میں اتنی جاذبیت ہوتی تھی کہ سننے والا مسحور ہو جاتا تھا۔ صرف یہی ایک سند ایسی ہے کہ جس کی بنا پر ہمیں اس وصف کو اختیار کرلینا چاہیے۔ یعنی پیارے نبیؐ کا طریقہ زندگی ہمارے لیے نمونہ ہونا چاہیے۔
آپ کا ملنا جلنا اور تعلقات کا ختم کرلینا، سب کچھ حق کے لیے ہو تب ہی اسلامی زندگی کو پوری طرح اپنا سکیں گی اور اپنے دن خوش گوار بنا سکیں گی۔lll