قرآنِ عظیم رب العالمین کا کلام ہے۔ اور اللہ کے کلام کی ہر کلام پر فضیلت ایسے ہے جیسے خود اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے۔‘‘ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے اس کلام مجید کو اپنے نبیؐ پر اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو رشد وہدایت کی راہ دکھلائے اور انھیں جہالت و تاریکی کی ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔
ہم سبھی جانتے ہیں کہ قرآن سے پہلے عرب کی وحشی قوم قتل وغارت گری، زنا، شراب، چوری غرض کہ ہر برائی میں ملوث تھی نہ رشتوں کا احترام تھا نہ پاس و لحاظ۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا۔ لیکن قرآن نے ان کی زندگیوں کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی عزت محفوظ ہوگی۔ ایک تنہا عورت صنعا سے حضرموت تک کا سفر اکیلے کرنے لگی۔ اسے اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ تھا۔ بیٹیوں کوعزت ملی۔ وراثت میں حصہ ملا۔ ماں باپ کو بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت کی خوش خبری دی گئی۔ غرض ہر طرف امن و سکون تھا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے نبی! کہہ دو، یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز (قرآن) اس نے بھیجی اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ (یونس:۵۸)
قرآن کی نعمت دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل و مفید ہے۔ ہمارے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: قرآن مجید میں تم سے پہلے گزری ہوئی اقوام کا تذکرہ ہے، بعد والوں کی بابت خبریں ہیں اور تمہارے آپس کے معاملات کے بارے میں احکام ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن قانون اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ قرآن اللہ کی رسّی ہے، اس کا نور ہے اور اس کی حکمت سے لبریز سدا بہار نصیحت ہے۔ یہ ایسی صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے جو سیدھا صاف، روشن اور بالکل واضح ہے۔ اس راستے میں نہ خواہشات کی خاردار جھاڑیاں ہیں نہ منزل مقصود پر پہچانے اور کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کوئی شک۔
’’جس نے اس کا علم پالیا وہ سبقت لے گیا، جس نے اس کی روشنی میں بات کی، اس نے سچ کہا: جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا، اس نے عدل و انصاف کیا۔ جس نے اس کے مطابق عمل کیا وہ اجر پاکر رہا۔ جس نے اس کتاب کی طرف بلایا یقینا اس نے سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کی۔‘‘ (ترمذی)
بے شک قرآن شاہ کلید ہے لیکن افسوس صد افسوس۔ ایک قلیل تعداد کے سوا مسلمانوں کے پاس اس کا مصرف تلاوت کرنا اور تعویذ گنڈے کے علاوہ اس کو بغیرسمجھے بوجھے پڑھ لیناہی رہ گیا ہے۔ رہی اس کو سمجھنے کی بات تو یہ ذمہ داری ہم نے سند یافتہ علماء حضرات کو دے رکھی ہے اور عام مسلمان اس سے آزاد ہیں۔ حالاں کہ قرآن کہتا ہے ’’ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے، پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‘‘ (القمر:۱۷)
کوئی تاجر اپنا سرمایہ کسی اور کے ہاتھ میں سونپ کر نفع ونقصان سے بے نیاز نہیں رہتا۔ کوئی طالب علم اپنی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی ذمہ داری کسی اور کو نہیں دیتا لیکن آج ہم اپنا سب سے قیمتی سرمایہ علما کے ہاتھوں میں دے کر بے فکر بیٹھ گئے۔ یہی وجہ ہمارے اختلاف کی بنی۔ ریشمی رومال تحریک کے بانی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے کیا خوب کہا: میں نے مالٹا کی جیل میں دو سبق سیکھے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اسباب معلوم ہوئے۔ پہلا قرآن کو چھوڑنا اور دوسرے ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔ (وحدتِ امت: ص۳۹-۴)
اس کے بعد مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے بڑی پیاری بات فرمائی کہ حضرت نے جو دو باتیں فرمائیں دراصل وہ ایک ہی ہے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ قرآن مرکز تھا، جب تک مرکز سے جڑے رہے ایک دوسرے سے جڑے رہے۔ تو واقعہ ہے کہ ہم قرآن حکیم کی طرف رجوع کریں ہمارا تعلق قرآن سے مضبوط ہو۔lll