اچھا کام انجام دینے والے کی حوصلہ افزائی اوراس کی تحسین وتوصیف بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ رویہ معاشرہ کے دوسرے لوگوںکو بھی اس طرح کے کاموںکی طرف متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تنگ نظری یا خشک مزاجی کے سبب حوصلہ شکنی کا عمل نہ صرف یہ کہ ماحول میں اختلاف وانتشار اور نااتفاقی کا سبب بن کرمعاشرے کو خراب کرتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوںکی تعدادکم ہوجاتی ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں دعوت دین، فلاح وبہبوداورمعاشرے کی تعلیم وتربیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔کسی شخص کا کوئی کارخیراگر ہمیں معلوم ہو ، تواس کی تعریف وتحسین کرنی چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرہ میں عمل صالح کا ماحول بنے گا اور دوسرے لوگ بھی اچھے کام انجام دینے کی طرف مائل ہوںگے۔انسان کا مزاج ہے کہ وہ کوئی کام انجام دیتاہے تواس کا اعتراف چاہتاہے، خواہ کسی بھی شکل میں ہو،وہ دکھائی دینے والی چیز ہو یا نہ دکھائی دینے والی ۔اللہ تعالی نے جب انسان کو اس مزاج کا بنایاتواس بات کا بھی لحاظ فرمایا۔چنانچہ اللہ نے قرآن کریم میں بیشتر مقامات پرجہاں عمل صالح کا حکم دیاہے وہاں اس کے نتائج اورانعامات کا بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ لوگوںکو اس کی رغبت پیدا ہو اوراس راہ میں جدوجہد ان کے لیے آسان ہو۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
lاللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے اُن کے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اِس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ (النور:55)
lجو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ،اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطائوں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔ (المائدۃ:9)
*اور اے پیغمبر ؐ! جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں اُنہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل تو اِس سے پہلے ہم کو دیے گئے تھے۔اْن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی ، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرۃ:25)
* اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔(النساء:124)
* پھر جو نیک عمل کرے گا ، اس حال میں کہ وہ مومن ہو ، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی، اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ (الانبیاء:94)
* اْس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لاکر نیک طرزِ عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے اُن کو اللہ درد ناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے۔(النساء:173)
* اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے اُنہیں اُن کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے۔ اور(خوب جان لے کہ )ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔‘‘ (آل عمران:57)
*ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔ (البقرۃ:277)
*بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے ، وہ رحمتِ الٰہی کے جائز اُمیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔(البقرۃ:218)
اگرہم سیرت نبویؐ کامطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ آپ ؐ بچپن سے ہی نیک دل، سچے، امانت دار اوربہت سی خوبیوںکے حامل تھے ، جس کا چرچا سارے عرب میں تھا۔ ہرشخص کوآپ پر اعتبارتھا،یہی وجہ تھی کہ کفارمکہ آپ کواچھے القاب سے یادکرتے اورآپ کے محاسن بیان کرتے تھے۔ اطراف مکہ میں بھی اس بات کا چرچاہونے لگا جسے سن کرلوگ آپ سے ملنے کے لیے بے چین رہتے۔ اعلانِ نبوت کے بعدجب اہل مکہ اورسردارانِ قریش آپ کے دشمن ہوگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تب دوسرے قبیلے والوںمیں آپؐسے ملنے کا اشتیاق مزیدبڑھ گیا۔یہ سب آپؐ کی ان خوبیوں اور اعمال خیرکے سبب تھا جن کے سارے لوگ قائل تھے۔
حضورؐ نے جب اسلام کا مرکز مدینہ منورہ کو بنایا تو وہاں بھی معاشرے کوبہتر اور اعمال خیرسے آراستہ کرنے کے لیے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو نہ صرف دین کی تعلیمات سے آراستہ کیا،بلکہ ان کے اچھے کاموں اورخوبیوں کے سبب ان کی تعریف وتوصیف فرمائی اور انھیں اچھے القاب سے نوازا۔ ذیل میںصحابہ کرام ؓکے بعض واقعات بطورنمونہ بیان کیے جارہے ہیں:
حضرت ابوبکرؓ: جلیل القدرصحابی اور خلیفہ اول ہیں، جن کو’ صدیق ‘کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔ یعنی تصدیق کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے ان کوشب معراج کے موقع پر آپؐ کی تصدیق کی وجہ سے یہ خطاب عطافرمایا تھا۔ جب اہل مکہ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے سامنے حضورؐ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تمہارے صاحب تو ایک رات میں آسمان کی سیر کرکے آئے ہیں، تو آپؓ نے کہا:
میں تو اس سے بھی بڑی خبرکی تصدیق کرتا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس صبح وشام آسمان سے خبر آتی ہے تو میں اسے مان لیتا ہوں۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،مصنف عبدالرزاق)
خلیفہ ثانی حضرت عمربن الخطاب ؓ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’فاروق‘ کا خطاب عطا کیاتھا۔اس کا پس منظریہ ہے کہ جس وقت آپ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تورسول اللہ ؐ سے کہا: ہم چھپ کر نماز کیوں پڑھیں جب کہ ہمارا دین حق ہے، ہماری نماز حق ہے، اس دن تمام لوگوںنے خانہ کعبہ میں علانیہ نماز اداکی۔ حضرت عمرؓ تاحیات اس لقب کے معنوی اثرات بکھیرتے رہے۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصے معروف ہیں۔ آپؓ کی دلیری، قوت ارادی اور دوررَس افکار و خیالات کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو یہ اعزاز بھی بخشا: لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرہوتا۔
حضرت عثمان غنیؓ:عثمان بن عفان ؓ تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔آپ ؓ دو القاب سے مشہورہیں: ایک ’غنی‘ دوسرے ’ذوالنورین‘۔مؤخرالذکرلقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں آئیں۔ آپ ؓ نہایت ہی باحیا، فیاض، محسن، نرم طبیعت اورخوش اخلاق تھے ۔مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا، وہ ایک یہودی کے کنوے سے پانی لیتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؐ کے ایما پر آپ ؓ نے وہ کنواں خریدکرعام لوگوں کے لیے وقف کردیا۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت میں آپ نے اپنا بہت سارامال خرچ کیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ:اسلام قبول کرنے والوںمیں آپ کا نمبردوسرا ہے۔ آپؓ چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپؓ فاتح خیبرکے لقب سے مشہور ہیں۔ نبی کریمؐ نے جنگ خیبرکے موقع پرارشادفرمایاتھا:
کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈادوںگا جس کے ذریعے اللہ فتح عطا کرے گا۔وہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔
حضرت جعفربن ابی طالب ؓ: آپؓ نے 33سال کی عمرپائی اورجنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں اولاً آپ کے دونوں بازو کٹ گئے، پھربھی اسلام کا جھنڈا زمیں پرگرنے نہ دیا۔ حضرت جعفرؓ غریبوںاورمسکینوںکا بہت خیال رکھتے اوران کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔اس وجہ سے آپ ابو المساکین کے لقب سے مشہورتھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ: کونبی کریم ؐ نے بطل المشاۃ(بہادرپیادہ پا)کا لقب عطا فرمایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پیادہ پابہادرا ور تیرانداز و نیزہ باز تھے۔ جو دشمنوںکو کھدیڑ دیتے تھے۔غزوہ ذی قردکے موقع پر آپ نے انھیں یہ اعزاز بخشا تھا۔
حضرت زبیربن العوامؓ:آپؓ حواری رسولؐ کے لقب سے مشہور ہیں۔ جنگ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓسے دریافت کیاکہ کون بنوقریظہ کی خبر لائے گا۔ حضرت زبیرؓ نے خودکوپیش کرتے ہوئے کہا: میں !یہی سوال آپ نے تین بار دوہرایا۔ ہر بارآپؓ ہی آگے آئے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ہرنبی کے حواری اوردوست ہوتے ہیں میرے حواری زبیرؓ ہیں۔‘‘ (بخاری)
حضرت حنظلہ بن ابی عامر الانصاریؓ:آپؓ کو غسیل الملائکۃ کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، جب صبح ہوئی تو جہاد کی پکار نے ان کو بے قرارکردیااور آپ نے اپنی تلوارلٹکائی اورزرہ پہن کر نکل پڑے ،میدان احدمیں آپ نے ابوسفیان کو دیکھا اوراس پروار کرنے کے لیے لپکے ، مگراس کی چیخ وپکارپر بہت سے شہسوارقریش جمع ہوگئے اورانھوں نے حضرت حنظلہؓ کو شہیدکردیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں نے دیکھا ہے کہ فرشتے حنظلہ کو آسمان وزمین کے درمیان چاندی کے برتن سے بادلوں کے پانی سے نہلارہے ہیں۔‘‘ (دلائل النبوۃ لابی نعیم)
یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی طرف دوڑے تودیکھا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہاہے۔ جب ان کی اہلیہ سے حالات دریافت کرنے کے لیے گئے تو پتہ چلاکہ وہ صبح شوق جہادمیں بغیر غسل کیے ہی نکل گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ کے خطاب سے نوازا۔ چنانچہ جب آپ نے فوجی قیادت سنبھالی تو اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اور جرأت وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔
حضرت معاذبن جبل ؓ زودفہمی، قوت استدلال، خوش بیانی اور بلند ہمتی کے لحاظ سے ایک منفرد ممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول ؐ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی :
’’میری امت میں معاذ بن جبلؓ حلال وحرام کوبہترجاننے والے ہیں۔‘‘
حضرت ابوعبیدۃ بن الجراحؓ : آپؐنے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبیوں کے پیش نظرانھیں ’’امین ‘‘کا خطاب عطاکیا تھا۔ ’’ایک موقع پر یمن کے کچھ لوگ آئے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنۃ سکھائے آپ نے حضرت ابوعبیدۃ ؓ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : ’’یہ ہیں اس امت کے امین۔‘‘ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
ہرقوم میں ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ ؓ ہیں۔
ان کے علاوہ صحابہ کرام کی ایک طویل فہرست ہے جن کو اللہ کے رسول ؐ نے ان کے عمدہ اوصاف اور کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے اعزازات و القاب سے نوازا۔ یہی طریقہ صحابہ کرام، تابعین اورتبع تابعین کا بھی رہاہے۔ ان لوگوںنے بھی یہی رویہ اختیارکیاکہ وہ لوگوں کے اچھے کاموںپر ان کی تعریف وتحسین کیا کرتے تھے۔ اگرہمارے معاشرے میں کوئی شخص فلاح عام کا کام انجام دے رہاہے، یا کوئی دینی ماحول بناکر کسی نیک کام کوفروغ دے رہاہے، یا تربیتی نقطہ نظرسے کسی طرح کا کوئی عمل انجام دے رہاہے، جو شریعت کے مطابق اور اس کے مزاج کے موافق ہے توایسے شخص کی تعریف وتحسین کی جانی چاہیے، بلکہ وقتا فوقتا اسے انعام سے بھی نوازنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں میں بھی کارِ خیرکا جذبہ پیدا ہو۔ دوسری طرف ایسے مخلصین وخیرخواہ حضرات جوکسی درجہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیںان کو چاہیے کہ وہ کسی تعریف وتوصیف کی پروا کیے بغیر ایسے کام انجام دیتے رہیں جن سے ملت کو فائدہ پہنچے اورقیامت میں وہ سرخروہوں۔***ے اورقیامت میں وہ سرخروہوں۔***