دل بقدرِ ضرب خود سینہ سپر ہوتا گیا
چوٹ پر جب چوٹ کھائی معتبر ہوتا گیا
ترکِ الفت پر مجھے یاد آئی اس کی اور بھی
دور وہ جتنا ہوا نزدیک تر ہوتا گیا
قطرۂ خوں سے صدا آئی اسی کے نام کی
یعنی قاتل ہی مرا جان و جگر ہوتا گیا
عقل نے سارے تحفظ کے کیے تھے اہتمام
حسن کا ہر وار پھر بھی کارگر ہوتا گیا
واہ کتنا پرکشش نکلا طریق عشق بھی
جو بھی رستے میں ملا وہ ہم سفر ہوتا گیا
قابل صد رشک ہے وہ خاک کا ذرہ کہ جو
ان کے قدموں سے غبار رہ گزر ہوتا گیا