[یہ تحریر ہمیں ای میل سے ملی ہے۔ مضمون نگار کے نام اور دیگر معلومات کا پتہ نہیں ہے۔ افادۂ عام کے لیے تحریر پیش ہے۔ ایڈیٹر]
میں آٹھ برس سے شوہر کے ساتھ دبئی میں مقیم ہوں۔ فیس بک یا سکائپ کے ذریعے وطن میں رشتے داروں سے رابطہ رہتا ہے۔ چند دن قبل میں دبئی ہی میں مقیم اپنی ایک سہیلی کا فیس بک صفحہ دیکھ رہی تھی کہ اچانک میری نگاہ اس کی لکھی تحریر پر پڑی۔ لکھا تھا:
’’ہم فطرتاً قرآن پاک کی طرف راغب ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو جاننے کی تمنا کرنا ہماری فطرت میں شامل ہے۔ لیکن انسان جوں جوں بڑا ہو تا ہے، دنیاوی اشیا اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہیں۔ مثلاً ٹیلی ویژن، موسیقی، کمپیوٹر اور دیگر سرگرمیاں۔ تب قرآن مجید ہمیں بور لگنے لگتا ہے۔ اْسے کوئی پڑھے بھی تو صرف مذہبی فرض جان کر یا حصولِ برکت کے لئے پڑھتا ہے۔
’’والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن پاک کی جانب راغب کریں۔ لیکن انہیں بھی دنیاوی سرگرمیوں کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا رہتا ہے۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوں، دنیاوی چیزیں اور سرگرمیاں انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ پھر اپنی معصومیت کھو بیٹھتے ہیں۔‘‘
مجھے یہ تحریر بہت پسند آئی اور میں نے ’’لائک‘‘ (پسند) کا بٹن دبا دیا۔ لیکن سہیلی کی چشم کشا تحریر نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر ڈالا۔ میں سوچنے لگی کہ آج قرآن پاک میری زندگی میں کیا کردار ادا کر رہا ہے، خصوصاً جب میں تین بچوں کی ماں بن چکی؟
کیا میں باقاعدگی سے قرآن پڑھتی اور ہر آیت میں پوشیدہ معنی سمجھنے کی سعی کرتی ہوں؟ کیا قرآن سے کوئی نئی بات سیکھنے پر مجھ میں جوش و جذبہ جنم لیتا ہے؟ میں چند بٹن کلک کر کے فیس بک تک پہنچ جاتی ہوں، لیکن دن میں کبھی اپنی مرضی سے قرآن پاک کھولنے اور اْسے سمجھنے کی کوشش کی؟
میں نے درج بالا سوالات کے الٹے سیدھے جواب دے کر خود کو مطمئن کرنا چاہا۔ پھر میںاپنے بچوں کا سوچنے لگی۔ میری چھ سالہ بڑی بیٹی مطالعے کی شوقین ہے۔ بچوں کے انسائیکلو پیڈیا سمیت ہر قسم کی کتب و رسائل پڑھتی اور پھر مجھ سے بڑے دقیق سوالات کرتی ہے۔ میں نے سوچا، وہ قرآن پاک پڑھ کر اْس سے کیا پائے گی؟
میں چھوٹی ہی تھی کہ امی نے ایک استانی لگوا دی۔ وہ مجھے قرآن پاک پڑھانے باقاعدگی سے آنے لگیں۔ میرے والدین نے سبھی بچوں کو بڑے اہتمام سے قرآن پاک پڑھایا اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ میں بھی ایک کمپیوٹرپروگرام ’’الفرقان‘‘ کی مدد سے بیٹی کو قرآن پاک پڑھنا سکھا رہی تھی۔ یہ کمپیوٹر پروگرام بتاتا ہے کہ قرآنی الفاظ صحیح مخرج کے ساتھ کیونکر ادا کیے جائیں۔
بیٹی کو قرآن مجید پڑھنا سکھاتے ہوئے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میری عربی بہت کمزور ہے۔ گو میں نے اپنے سبھی بہن بھائیوں کی طرح قرآن پاک کے کچھ پارے حفظ بھی کیے تھے، لیکن میں بیشتر الفاظ کا مطلب نہیں جانتی تھی۔ اور مجھے شرمندگی تھی کہ میں آیات میں موجود معانی سے بھی ناآشنا تھی۔
جب میں اپنی بیٹی کوالفرقان پروگرام کی مدد سے قرآن پاک پڑھانے لگی، تو اس نے بڑی دلچسپی لی۔ مجھے یہ جان کر حیرت اور خوشی ہوئی کہ وہ توقع کے برعکس بڑی آسانی سے قرآن پاک پڑھنے لگی۔ یہ نازک مرحلہ سہل بنانے کی خاطر میں نے ایک عرب قاریہ کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔
ایک دن کتابوں کی دکان میں مجھے بچوں کے لیے انگریزی میں تفسیرکی کتب نظر آئیں۔ ان میں آسان زبان میں آیات قرآنی کے معنی سمجھائے گئے تھے۔ نیز چھوٹے بچوں کے لیے پْرلطف سرگرمیوں کا سامان بھی موجود تھا۔ میں نے فوراً قرآن کی پہلی سورہ (سورۂ فاتحہ) اور آخری دس سورتوں کی تفاسیر خرید لیں۔ شمالی ہند کے مدرسوں میں بچوں کو پہلے یہی مختصر اور آسان سورتیں پڑھائی اور حفظ کرائی جاتی ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ میری بیٹی جلد ہی روانی سے قرآن پاک کا آخری پارہ پڑھنے لگی۔ اس نے کئی آیات یاد بھی کر لیں۔ دراصل وہ عربی بولنے والے ماحول میں پیدا ہوئی تھی۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ اسی ماحول کے باعث بیٹی قرآن پاک رواں اورشستہ انداز میں پڑھنے لگی۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سبھی بچے بڑے معصوم اور سادہ ہوتے اور صاف و شفاف دل رکھتے ہیں۔
جب کچھ عرصہ گزر گیا، تو بیٹی قرآن پاک سے روشناس ہو گئی۔ تب تفاسیر سے مسلح ہو کر میں شام کو بیٹی کے ساتھ ہر آیت تفصیل سے پڑھنے لگی۔ اس کا جوش و جذبہ دیکھنے والا ہوتا۔ مطالعے سے قبل وہ تفاسیر کی اپنی کتب قطار میں سجا دیتی۔ تب خوشی اور احساس فخر سے اس کا چہرہ تمتما رہا ہوتا۔ چونکہ ہم والدین کو کتب خریدنے کا شوق تھا، لہٰذا گھر میں لائبریری بن چکی تھی۔ لیکن تفاسیر کی کتب پر بیٹی سب سے زیادہ فخر کرتی۔
ہم ایک کتاب لیتے اور ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگتے۔ وہ ہر جملے پر رکتی، آنکھیں کھول کر غور کرتی اور پھر چکرا دینے والے مزید سوالات پوچھتی جن کے جواب مجھے دینے ہوتے۔ کبھی وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ معمے حل کرتی یا رنگ بھرتی۔ کبھی صرف مطالعہ اْسے تسکین بخش دیتا۔
جب میری بیٹی قرآن پاک کی گہرائی میں اتر رہی تھی، مجھ پر ایک انکشاف ہوا… مجھے احساس ہوا کہ بیٹی کی نسبت اللہ کی کتاب سے شناسا ہونے کا میرا جذبہ کہیں ادنیٰ ہے۔ وہ لہک لہک کر بڑے مزے سے آیات پڑھتی اور ان کے معنی دل میں اتارنے کی سعی کرتی۔ جب کسی آیت کا مفہوم سمجھ نہ آتا، تو بڑے جذبے سے خوب غور و فکر کرتی اور مطلب تک پہنچ کر ہی دم لیتی۔
مجھ میں ضمیر کی چبھن اس وقت عروج پر جا پہنچی جب ہم نے مل کر سورۃ اللّہب کا مطالعہ کیا۔ بیٹی نے کرید کرید کر مجھ سے اسلام کے کٹر دشمن، ابولہب کی داستان سنی اور جانا کہ دنیا میں ایسے شیطان نما انسان بھی بستے ہیں۔
یوں چھ سالہ معصوم بچی نے پہلی بار دنیا کا نیا اور منفی پہلو دیکھا۔ شیطان اور اس کے شر کے متعلق جان کر بیٹی جلد سمجھ گئی کہ دنیا میں ابولہب جیسے شر انگیز اور گناہ گار بھی بستے ہیں۔ تب اس نے ایک غیر متوقع فیصلہ کیا جو مجھے حیران کر گیا… بیٹی نے طے کیا کہ وہ مستقبل میں ابو لہب جیسے انسانوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ سے مدد لے گی اور اسی سے اپنی حفاظت چاہے گی۔
رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ وہ محض چھ برس کی عمر میں قرآن پاک کی شیدائی بن چکی ہے۔ سونے سے قبل من پسند آیات پڑھتی۔ کھانے کے وقت جب ہم محو گفتگو ہوتے، تو قرآن کی آیات کے بروقت حوالے دے کر ہمیں دم بخود کر دیتی۔ وہ پھر ہمیں پْریقین نظروں سے دیکھتی جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ اس نے متعلقہ آیت کو درست سمجھا ہے نا!
میرے قلب کی گہرائیوں میں یہی تمنا بسی ہے کہ میری بچی خوب دل لگا کر قرآن پاک پڑھے، اس کے معنی اپنے اندر جذب کر لے اور اْسے ساری زندگی کے لیے مشعل راہ بنا لے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے مسلم والدین اپنے بچوں کے لیے ایسا ہی خواب دیکھتے ہیں۔
لیکن جیسا کہ میری سہیلی کی تحریر نے افشا کیا، جوں جوں مسلمان بڑے ہوں، وہ دنیاوی آلودگیوں کا شکار ہو کر سیدھی راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ اور جب قلب لذت و شہوت کا مرکز بن جائے، تو آہستہ آہستہ قرآن پاک سے رغبت و محبت کم ہو جاتی ہے، خصوصاً جب بدی کے کام کرتے ہوئے لطف بھی آئے۔
ہم نے اپنے بچوں کو خاصی آزادی دے رکھی ہے۔ لیکن جب میں بیٹی کو قرآن پڑھانے لگی، تو مجھے محسوس ہوا کہ مکروہاتِ دنیا سے بچانے کے واسطے ان پر کچھ پابندیاں لگانا بھی ضروری ہے۔ چناں چہ انہیں ٹی وی تو دیکھنے دیا، مگر وہ بچوں کے پروگرام ہی دیکھ سکتے تھے۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی زیادہ سے زیادہ سرگرمیاں قرآنی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی انجام پائیں۔
میںایسے خاندانوں سے واقف ہوں جنھوں نے کبھی قرآن پاک گھر میں نہیں رکھا۔ لہٰذا وہاں قرآن سے انجان نئی نسل پروان چڑھی۔ اس نسل کا جو حشر ہوا، وہ بھی میری نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔ گو ایسے لوگ بظاہر مسلمان تھے، مگر انھیں کبھی قرآن پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی۔
اسی طرح ہزارہا ایسے مسلم گھرانے بھی ہیں جہاں قرآن پاک صرف طاق پر دھرنے کی شے بن چکا۔ گو سورتیں اور آیات نصاب کا حصہ ہیں، مگر بچے رٹا لگا کر انہیں یاد کرتے ہیں، سمجھنے کی سعی نہیں کرتے۔ بعض والدین تو ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنے معصوم بچوں کے نوخیز ذہنوں پر قرآن فہمی کا بار نہیں ڈالنا چاہتے۔
حقیقت یہ ہے کہ میری بیٹی نے جس ولولے اور ترنگ سے قرآن پاک پڑھا، اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ صرف انہی انسانوں سے ہم کلام ہوتے ہیں جو نرم دل، نیک خْو، معصوم اور متجسس ہوں… ان سے نہیں جو نفسانی خواہشات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ان انسانوں کے قلوب میں ایمان کی حرارت اور نورِ حق پیدا نہیں کرتا جو مکروہات دنیا میں لتھڑ جائیں اور عارضی خوشیوں کے خواہاںہوں۔ اللہ نے تو مکمل طرز حیات اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔ اب یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ طاق پر رکھا قرآن اٹھائے، اس کا مطالعہ کرے اور ہدایت پائے۔
آج جب بھی میں یہ منصوبہ بندی کرنے بیٹھوں کہ مستقبل میں بچے کیسے پڑھیں گے، تو قرآن پاک کی تعلیم سرفہرست ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی میری معصوم بیٹی کی بدولت ہی آئی ہے جس کے مشکل سوالات عموماً میں گوگل سرچ کی مدد سے حل کرتی ہوں۔
بیٹی کے ساتھ قرآن فہمی کے اس سفر سے مجھے بڑی خیر و برکت حاصل ہوئی۔ اور خوشی و فرحت کا یہی احساس مجھے قرآن مجید کے قریب لے گیا… وہ مقدس کتاب جو انسانیت کے لیے سب سے بڑی برکت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں قرآن پاک سے میری محبت اور قربت پھر سے بڑھ گئی جسے وقت نے دھندلا دیا تھا۔lll