کردار:
خاتون بی : ساس (سلمیٰ کی ماں)
سلمیٰ : نند (خاتون بی بی کی بیٹی)
عائشہ : بہو (خاتون بی بی کی بہو)
رقیہ : خاتون بی کی سہیلی (پڑوسن بھی ہے)
خاتون بی : اب بہو آئی ہے تو بھی مجھے ہی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ بہو تو کام کی ہے نہ کاج کی الٹی دشمن اناج کی اور تو اور ماں باپ کے گھر سے بھی کچھ نہیں لائی، دوسروں کی بہوئیں صبح اٹھتے ہی کام کرتی ہیں، میری ہی قسمت پھوٹی تھی جو مجھے ایسی بہو ملی۔
سلمیٰ : امی آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ میں بھی صبح سے شام تک کام کرتے کرتے تھک جاتی ہوں۔ بھابھی ہوتے ہوئے بھی بیکار ہے۔ (بہو پوری باتیں سن کر بھی چپ رہتی ہے اور خاتون بی رونے لگتی ہے۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ بیٹی یعنی سلمیٰ بھی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے)۔
عائشہ : (سوتے وقت کہتی ہے) مجھے صبح جلدی اٹھنا ہے اور سارے کام کرنے ہیں۔
(اللہ اکبر، اللہ اکبر فجر کے ساتھ اٹھ جاتی ہے۔ صبح اٹھ کر سب کے لیے ناشتہ بناتی ہے۔ ساس اور نند کے سامنے پیش کرتی ہے)۔ (سلمیٰ ناشتہ کرتے وقت پہلا ہی لقمہ کھا کر منھ بناتی ہے اور کہتی ہے)
سلمیٰ : بھابھی آخر تم نے اپنی اوقات بتا ہی دی۔ ماں باپ کے گھر سے تو کچھ لائی نہیں اور کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔ آخر تم شادی سے پہلے کرتی کیا تھیں؟
(یہ کہنے کے بعد نند کالج چلی جاتی ہے، بھابھی کچھ نہیں کہتی۔
خاتون بی : (غصہ میں) پتہ نہیں ہمارے لیے یہ کیوں پیدا ہوئی تھی! نہ تو کچھ کرنا آئے اور نہ ہی کچھ لے کر آئی۔ فقیر خاندان کی!
(ساس بھی ناشتہ نہیں کرتی، وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے) (عائشہ رونے لگتی ہے۔ اسی دوران خاتون بی سے ملنے پڑوسن آتی ہے۔ جو اس کی سہیلی بھی ہے، رقیہ گھنٹی بجاتی ہے)
عائشہ:کون ہے؟
رقیہ:میں رقیہ ہوں خاتون بی کی سہیلی۔
عائشہ:(ساس سے کہتی ہے) آپ کی سہیلی آئی ہیں۔
(یہ سن کر تو خاتون اپنے کمرے سے باہر آتی ہے۔ اور اداس چہرے سے سہیلی سے ملتی ہے)
خاتون بی : اتنے دن سے تو کہاں تھی؟
رقیہ: میں اپنے بھانجے کی شادی میں گئی تھی۔ اور تو اتنی اداس کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ کیا ہوا؟ اور عائشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھتی ہے۔ یہ کون ہے؟
خاتون بی : یہ میری بہو ہے۔
رقیہ : ارے میرے بغیر ہی بہو لے آئی۔
خاتون بی : بہو تو آئی مگر اپنے ساتھ کچھ نہیں لائی۔
رقیہ: (چونک کر کہتی ہے) یہ کیا کہہ رہی ہے؟
خاتون بی : اس کے ماں باپ نے جہیز میں کچھ نہیں دیا۔ صرف معمولی سا پلنگ، الماری تھوڑا سا سونا، چند جوڑے کپڑے اور تو اور جوڑے کی رقم بھی نہیں دی، اتنا تو غریب سے غریب بھی دے دیتا ہے اپنی بیٹی کو۔ اس پر اور یہ کہ کچھ کرنا دھرنا بھی نہیں آتا۔ اس کے ماں باپ نے کچھ سکھایا ہی نہیں۔
رقیہ: غلطی تو تمہاری ہے۔ اس طرح کی بہو کیوں لائی ہو؟ دیکھ میرے بھانجے کو بہت ڈھیروں سامان ملا اور شادی بھی دھوم دھام سے ہوئی، بینڈ باجہ بھی تھا۔ وہاں ہی میرے بیٹے کا بھی رشتہ طے ہوگیا اس کو بھی بیس تولے سونا گاڑی، بنگلہ اور جوڑے کی رقم دینے کی بات کی ہے۔ آج کل تو لوگ اتنا سامان دے ہی رہے ہیں پھر تیرا بیٹا تو پڑھا لکھا تھا۔
خاتون بی : کیا کروں بہن سب بات طے تھی۔ شادی سے صرف ایک مہینہ پہلے اس کا باپ مرگیا۔ اس بڈھے کو بھی ابھی مرنا تھا۔ دل میں تو آیا کہ شادی توڑدوں مگر یہ سوچ کر رہ گئی کہ دنیا کیا کہے گی۔ اسی لیے میری طبیعت خراب رہنے لگی۔ اور جینے کی چاہ بھی نہیں رہی۔
(بہو چائے لاتی ہے)۔
رقیہ : (چائے پیتی ہے اور کہتی ہے) آخر یہ کس قسم کی چائے بنائی ہے؟
خاتون بی : کیوں کیا ہوا؟
رقیہ : چائے بہت پھیکی ہے۔
خاتون بی : (غصہ سے کہتی ہے) تو تو میری عزت لینے پر تلی ہوئی ہے۔ مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ (عائشہ اداس چہرے سے اندر چلی جاتی ہے)۔
رقیہ : آہستہ سے خاتون بی سے کہتی ہے) اس کا کوئی نہ کوئی بندوبست کر کے اس سے چھٹکارا پالو۔ (خاتون بی سوچ میں پڑ جاتی ہے۔ سلمیٰ کالج سے آتی ہے اور اپنی ماں کو سوچ میں گم پاکر پوچھتی ہے)
سلمی : امی کس سوچ میں گم ہیں؟
خاتون بی : (آہستہ سے کہتی ہے) تمہاری رقیہ خالہ آئی تھیں۔ تمہاری بھابھی کی بد ذائقہ چائے چکھ کر ہی بول پڑیں۔ ہائے کیسی پھوہڑ بہو ہے۔ جاتے جاتے کہہ گئی کہ اس سے چھٹکارا پالو۔ (بیٹی چونک جاتی ہے اور سمجھ جاتی ہے) دونوں ماں بیٹیاں صبح کے لیے کچن تیار کرلیتی ہیں اور سوجاتی ہیں)۔
خاتون بی : خرخرخر، غڑاغڑا۔ بچاؤ بچاؤ بچاؤ!! آگ آگ؟؟
سلمیٰ: بچاؤ! بچاؤ۔ آہ آہ، ہاہ ہاہ ہاہ۔ آگ آگ آگ۔
(دونوں ماں بیٹی گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہیں۔ دونوں کے کپڑے کڑا کے کی سردی میں بھی پسینہ سے شرابور ہیں۔ عائشہ آگ آگ بچاؤ بچاؤ کی آواز سن کر دوڑی آتی ہے)۔
عائشہ: کیا ہوا ری؟ کیا بات ہے۔ عائشہ! عائشہ! کیا ہوا عائشہ! (وہ عائشہ کو گلے لگا لیتی ہے اور وہ اس کی بانہوں میں ہی بے ہوش ہوجاتی ہے) دونوں ساس بہو اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسے ہی ہوش میں آتی ہے، وہ عائشہ سے چمٹ جاتی ہے)۔
سلمیٰ : مجھے معاف کردو بھابی۔ مجھے معاف کردو۔ اب میں کبھی ایسا نہیں سوچ سکتی بھابی مجھے معاف کردو!
عائشہ : کیا ہوا سلمیٰ! کیا ہوا کچھ بتاؤ تو سہی! (وہ سمجھ جاتی ہے کہ انہوں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔ عائشہ اسی کمرے میں بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگتی ہے۔
(خاتون بھی وضو کرکے آتی ہے)۔
خاتون بی : (عائشہ کی پیشانی کو چوم کر) ہمیں معاف کردو بیٹا، ہمیں معاف کردو۔ ہم نے بر اسوچا تھا بیٹا ہمیں معاف کردو!
عائشہ : امی! معافی تو اپنے رب سے مانگئے جو حقیقت میں سب سے بڑا معاف کرنے والا ہے۔
سلمیٰ : بھابی ہمیں معاف کردیں بھابی۔ ہم سے غلطی ہوئی بھابی۔
عائشہ : چلو سب مل کر اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ اور تینوں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (پردہ گرتا ہے)۔lll