ابو ہریرہؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
’’جس آدمی نے کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے ایک تکلیف دور کردی، اللہ تعالیٰ قیامت کی تکالیف میں سے اس کی ایک تکلیف دور کردے گا۔ اور جس نے کسی تنگ حال کے لیے آسانی پیدا کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے۔‘‘
اس حدیث میں کسی مومن کی تکلیف کو آسان کرنے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے نفس کے الفاظ آئے ہیں۔ جب کہ ایک دوسری حدیث میں اس بات کو فرج کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
جو بھی مسلمان و مومن کسی مسلمان و مومن کی تکلیف آسان کرے گا، یا اس کی ایک تکلیف دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کے بدلے قیامت کی ایک ہولناک تکلیف کو اس سے دور کرنا بیان کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جو مومن کسی مومن کو بھوک میں کچھ کھلائے، اللہ قیامت کے روز اس کو جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مومن کسی مومن کو پیاس میں کچھ پلائے گا، اللہ قیامت کے روز اسے سربمہر شراب پلائے گا۔ اور جو مومن کسی مومن کو ننگے پن میں کپڑا پہنائے گا، اللہ قیامت کے روز اسے جنت کا سبز و ریشم پہنائے گا۔‘‘
تنگ دست سے آسانی کا معاملہ کرنا
اوپر مذکور خدمت انسانیت کا یہی مضمونِ حدیث کے دوسرے جملے میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تنگ دست سے آسانی کا معاملہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائے گا۔
تنگ دست سے آسانی کا معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مقروض ہے تو اس سے قرض کا تقاضا اس انداز میں نہ کیا جائے کہ اس کا ناک میں دم ہوجائے۔ بلکہ اسے فراخ دستی تک مہلت دو اور ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ اگر تم دیکھتے ہو کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ تمہارا یہ قرض چکائے تو تم اس کو یہ قرض پورا یا جزوی طور پر معاف کردو۔ یہ تمہارے لیے نہایت بہتر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف ہی کردیا تو اللہ قیامت کے روز اس کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، جس روز اللہ کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم)
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:
’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ روزِ قیامت کے کرب سے اس کو نجات دے تو وہ تنگ دست کو مہلت دے، یا معاف ہی کردے۔‘‘ (مسلم)
مسلمان کی تکلیف دور کرنے کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی کو قرض دینا، یا مال دے کر کفار کی قید میں بند کسی قیدی کو آزاد کرانا، یا کسی مسلمان کو ظالموں کے شکنجہ سے چھڑانا اور جیل سے رہائی دلانا یہ تمام مستحب اور پسندیدہ اعمال ہیں۔
کسی مسلمان کی تکلیف دور کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی تنگ دست کی ضمانت دے سکتا ہو اور کفالت کرسکتا ہو تو اسے یہ کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ ذمہ داری اپنے سر لے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں تو کسی کی ایک تکلیف دور کرنے کے بدلے قیامت کے روز بھی صرف ایک تکلیف سے نجات ملنے کی بات کی گئی ہے، جب کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو نیکی کرے گا، اس کو دس گنا اجر ملے گا۔‘‘ (الانعام)
اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ قیامت کی ایک تکلیف بہت سی ہولناکیوں، مشکلوں اور خوف پر مشتمل ہوگی، یا یوں سمجھ لیجیے کہ قیامت کی ایک تکلیف دنیا کی دسیوں اور بیسیوں مصیبتوں سے بھی بڑی ہوگی۔
علاوہ ازیں اگر وہ ایک سے زیادہ تکالیف دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی روز قیامت ایک سے زیادہ مشکلیں دور کردے گا۔ اس میں خدمت خلق کی ترغیب بھی ہے۔
اس حدیث میں لازم و ملزوم کا نکتہ بھی ہے، وہ یہ کہ اس میں مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کرے گا اس کا خاتمہ بالخیر ہوگا اور وہ اسلام پر مرے گا۔ کیوں کہ کافر پر آخرت میں نہ تو کوئی رحم کیا جائے گا اور نہ اس کی تکلیفوں میں سے کوئی کمی کی جائے گی۔lll