گزشتہ سال ۱۶ٍ دسمبر کو دہلی میں انجینئرنگ کی طالبہ کی وحشیانہ اجتماعی آبرو ریزی کے بعد جیسے ملک کے اخبارات میں اس طرح کی خبروں کا سیلاب آگیا۔ اس کے بعد سے اب تک اخبارات میں تقریباً روزانہ ہی سنگین قسم کے حادثات کی خبر ہوتی ہے۔ ان خبروں کے درمیان سب سے سنگین اور وحشیانہ نوعیت کی حرکتیں وہ ہوتی ہیں، جن میں معصوم بچیوں کو نشانہ نایا جاتا ہے۔
ملک جانتا ہے کہ مذکورہ واقعے کا اثر اور اس کے خلاف شدید قسم کا احتجاج پورے ملک میں دیکھا گیا تھا۔ ادھر حادثہ کے ۹ ماہ بعد جب نچلی عدالت اپنے فیصلہ کی کاروائی میں مصروف تھی تو عدالت ے باہر عوام مجرمین کے لیے پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے اور بالآخر ملک کی نچلی عدالت نے چاروں افراد کو مجرم مان کر موت کی سزا سنا ہی دی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ملکی عوام اس بیماری سے شدید شاک میں ہے اور وہ، خصوصاً خواتین خود کو غیر محفوظ تصور رتے ہوئے اس قسم کے مجرمین کو سزائے موت سے م کا حقدار نہیں سمجھتے۔ اس پورے کیس میں جو میڈیا کے طفیل ہائی پروفائل، اور حساس نوعیت اختیار کرگیا تھا متاثرہ کے کنبہ کو یہاں تک پہنچنے میں ۹ ماہ کی طویل مدت انتظار کرنا پڑا اور مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ نچلی عدالت کے بعد ہائی کورٹ اور پھر ملک کی عدالت عالیہ باقی رہ جاتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میں فوری انصاف کی توقع مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے بہت سے معاملوں میں انصاف Justice delayed, Justice denied کے مانند بے کار اور بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔
در پیش مسئلہ یعنی زنا بالجبر کے بڑھتے واقعات پورے ملک میں تشویشناک رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان جیسے مشرقی اور روایتی تہذیب والے ملک میں اب سے دس بیس سال قبل تک اس کیفیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر اب پورا ملک اس کیفیت کو جھیل رہا ہے اور لاچار ہے۔ یہ اور اس طرح کی خبریں مغربی دنیا اور ان کی تہذیب کا حصہ ہوا کرتے تھے جو اب ہمارے سماج کی حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ یہ معاشرتی تہذیب و ثقافت کا اثر ہے اور ہماری معاشرت جتنی اس تہذیب و ثقافت کی دل دل میں دھنستی جائے گی اس کی بیماریاں ہمارے اندر سرایت کرتی چلی جائیں گی۔اس بنیادی حقیقت کو ذہن میں رکھے بنا اس قسم کے حادثات واقعات، جو روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہوتے جا رہے ہیں، کے ختم ہونے یا کم ہونے کی امید کرنا محال کام ہے۔
زیر بحث مسئلہ میں لوگ موت کی سزا کا مطالبہ کررہے تھے اور فی الحال ان کی یہ توقع پوری ہوگئی۔ واقعہ کی سنگینی اور انصاف کے تقاضے کے اعتبار سے یہ مطالبہ قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے مگر نظام انصاف کی کئی پیچیدگیاں اس راہ میں حائل ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ موت کی سزا سے مسئلہ کا حل ہونا مشکل ہے۔ اس لیے کہ جب تک سماج میں ان راستوں کو بند نہیں یا جاتا جو اس طرف لے جانے والے ہیں، کڑی سے کڑی سزا بھی اس جرم سے نہیں روک سکتی۔ اس لیے کہ زنا ایک بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی حرکت ہے اور جب تک اس بیماری کا علاج نہ ہو مریض صحت یاب نہیں ہوسکتا بلکہ اس مرض میں اور گہرائی تک ڈوبتا جائے گا۔ اقوام متحدہ کا ایک سروے جو چھ ممالک کے دس ہزار عوام سے کیا گیا، بتاتا ہے زانی مجرمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ایک بار اس جرم کو انجام دینے کے بعد بار بار اس جرم کا ارتکاب کرتی ہے۔
ہماری رائے میں جس طرح اس قسم کے مجرمین کو بروقت اور مناسب سزا ضروری ہے وہیں معاشرتی اعتبار سے ان راستوں کو بند کیا جانا بھی ضروری ہے جو اس طرف لے جاتے ہیں اور یہ راستے ہیں عریانیت، فیشن پرستی، بنداس مغربی کلچر اور مخلوط نظام تعلیم۔ اور حقیقت یہ ہے ہ برائی کو برائی تصور کرنا اور خیر کو خیر کی طرح فروغ دینے کا ماحول جب تک ہمارے سماج میں جاری نہ ہوگا اس وقت تک اس سنگین بیماری کا ہی نہیں کسی بھی معاشرتی و سماجی برائی کا خاتمہ ناممکن ہے۔
آج لوگ زانی کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسلام نے سو کوڑوں کی سزا متعین کی ہے اور لوگ اسے وحشیانہ بتاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سو کوڑوں کی سزا کو وحشیانہ بتانے والے آج سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ اس تہذیب کی شکست اور ناکامی ہے جس پر موجودہ دور فخر کرتا ہے۔ مگر اسلام کے ماننے والے ابھی تک اپنے سماجی و معاشرتی نظام کی برتری کو ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔ حالاں کہ یہ وہ نظام تھا جہاں وقتی اور شیطانی جذبہ کا شکار ہوکر لوگ اگر کوئی جرم کرتے تھے تو خود آکر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرتے اور قانون سے ’’پاک کردینے‘‘ کا مطالبہ کرتے تھے۔ تھانہ وہ آئیڈل سماج۔ مگر جانتا کون ہے اس سماج کے بارے میں اور بتائے کون جو بتانے والے ہیں وہ تو خود بے خبر ہیں۔۔lll