اولاد سخت دل ہو جائے تو احساسات پارہ پارہ ہوجاتے ہیں،جذبات ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، اور پھر والدین کی نافرمانی کے ہاتھوں ان جذبات واحساسات کا خون ہو جاتا ہے۔
اولاد اگر اپنے ہی والدین سے سخت دلی کا اظہار کرنے لگے تو آنسو اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتے ہیں، سینے گھٹن سے دبنے لگتے ہیں، اس رشتے سے جڑی ہوئی تمام یادیں معدوم ہونے لگتی ہیں اور آخر کار وفا ومحبت دم توڑ دیتی ہے۔
جب اولادکا دل اپنے ماں باپ کے لیے ہی سخت ہوجائے تو اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت وشفقت، جو سختی اور قساوت میں تبدیل ہو گئی ہے، اس پر انّا للہ پڑھ لینا چاہیے ۔کیوں کہ وہ دل اب ’’پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں، بلکہ پتھر میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ پھٹیں تو ان میں سے نہریں برآمد ہوجاتی ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر دو ٹکڑے ہوجائیں تو ان کے اندر سے پانی برآمد ہوتا ہے، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے خوف سے لرز کر گر پڑتے ہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ تعالی اس سے غافل نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۴۷)
کیا اولاد اپنے ماں باپ کے تعلق سے سخت دلی کا مظاہرہ کرتے وقت اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرتی کہ اگر اپنے ماں باپ کے ساتھ وہی نرم دلی سے پیش نہیں آئیں گے تو کون آئے گا؟!
اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ سخت دلی سے پیش آتی ہے تو ان کے درمیان کی دوریاں بڑھ جاتی ہیںاور والدین غم وسوزش کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔
اولاد کا دل اپنے ماں باپ کے لیے سخت ہو گیا تو پھر محبت کے لیے زندہ رہنے اور ثمر آور ہونے کی گنجائش ہی کہاں رہی، مامتا وشفقت بھی اب نثار ہو تو کس پر؟!
کیا اولاد نے کبھی یہ بھی سوچاکہ اگر اپنے ماں باپ کے تعلق سے ان کا دل سخت ہو گا تو اس کا بدلہ ان کو بھی اسی قسم کا ملے گا۔
جب اولاد کا دل اپنے ماں باپ کے لیے سخت ہو جاتا ہے تو ماں باپ کے دل پر لگنے والا زخم انتہائی گہرا ، شدید ہوتا ہے جو مندمل بھی مشکل ہی سے ہوپاتا ہے۔
جب اولاد کادل اپنے ماں باپ کے لیے سخت ہو جاتا ہے تو فضا مکدر ہوجاتی ہے اوردنیا تاریک ہوجاتی ہے۔ جن ماں باپ نے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو گرم ہوا اور تپتی لو میں بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے فراہم کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کیے تھے، انھیں اپنی زندگی کو پر کیف بنانے کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا بھی نصیب نہیں ہوپاتا ، انھیں کہیں ایک کرن بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ جس سے وہ اپنی زندگی میں آنے والی تاریکی کو ختم کر سکیں۔
جب اولاد کا دل اپنے ماں باپ کے لیے سخت ہو جاتا ہے تو ان کے تمام راستے تاریک ہوجاتے ہیں۔ کہیں روشنی دکھائی نہیں دیتی، بچپن کی یادیں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں، چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو کر اس کی جگہ رنج وملال آجاتا ہے، اندیشے اس طرح انھیں گھیر لیتے ہیں کہ حفظ وامان بالکل غائب ہو جاتا ہے۔
جب اولاد کا دل ماں باپ کے لیے سخت ہوجاتا ہے تو ان کا سینہ چور چور ہوجاتا ہے۔ اولاد کی نافرمانی ان کے سینے کو چھلنی کر دیتی ہے اور اولاد کی ظلم وزیادتی اس کی سوزش میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔اولاد کا یہ سخت رویہ باپ اور بیٹے کے درمیان کی محبت کو کٹّر دشمنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ان میں سے ایک ، یعنی بیٹا، اپنے ظلم میں حد سے آگے بڑھ جاتا ہے، اور دوسری طرف اس کے والدین ہیںجن پر یہ ظلم کیا جاتا ہے۔اس ظلم کے باوجود والدین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کا دل گھٹن کے مارے پھٹا جارہا ہے، انھیں اب بھی خوف ہے تو اس بات کا کہ ان کا بیٹا دنیا وآخرت میں تباہ نہ ہو جائے۔ جب اولاد کا دل ماں باپ کے لیے سخت ہوجاتا ہے تو غم سے جگر پارہ پارہ ہو کر رہ جاتا ہے، اس سے غم رسنے لگتا ہے، لیکن اس جگر سوختہ کا علاج بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
زندگی میں ایسے ایسے سنگین واقعات کا ظہور عمل میں آرہا ہے کہ انھیں دیکھ کر اور سن کر دودھ پلانے والیاں اپنے بچے سے بیگانہ ہو جائیں، اور کم عمروں پر بڑھاپا طاری ہو جائے۔کتنے ہی لوگ ایسے ملیں گے کہ وہ اپنے وقت میں مال دار اور جسمانی اعتبار سے مضبوط تھے، لیکن جب ان پر بڑھاپا طاری ہوگیا اور ان کا جسم کمزور ہو گیا تو وہ اپنی اولاد ہی کے لیے اجنبی بن گئے۔
ایک ماں کے بیٹوں نے اپنی ماں کوزدو کوب کیا، اسے گھر سے باہر نکال دیا اور وہ سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہے، اسے اتنا مارا کہ اس کے پیر کی ہڈی تک توڑ دی ۔ اپنی روداد الم بیان کرتی ہوئی کہتی ہے کہ اس کے بچوں نے اسے تین دن کھانا پانی کے بغیر غسل خانے میں بند کیے رکھا۔ باپ کا انتقال بھی اس حالت میں ہوا کہ وہ اپنے بیٹوں سے خوش نہیں تھا۔ کوئی بھی اس کی خدمت کرنے کو راضی نہیں تھا۔ مسکین ولاچار باپ کینسر کے مرض میں مبتلا تھا، اسے سڑک پر لے جا کر پھینک دیا۔ ماں نے اپنے بیٹوںسے یہ التجا کی کہ وہ صرف اسے گھر کے اندر رہنے کی اجازت دے دیں، اس کے علاوہ وہ اند سے کچھ نہیں مانگے گی، اس پر ایک بیٹے نے کہا: ’’میری قدم بوسی کرو تو میں تمھیں گھر کے اندر رہنے کی اجازت دے دوں گا۔‘‘
کیا آپ یقین کریں گے کہ کوئی بیٹا اپنی ماں پر ہاتھ بھی اٹھا سکتا ہے؟! کیا آپ یقین کریں گے کہ کوئی بیٹا اپنی ماں کو گھر سے باہر نکال سکتا ہے؟!
آپ کے رب نے آپ کو یہ وصیت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں ووصینا الانسان بوالدیہ احساناً (الاحقاف: ۵۱)ماں باپ کے تعلق سے اللہ تعالی کی اسی وصیت کا نتیجہ ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے پوچھا، اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد؟ آپﷺنے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ۔‘‘ (بخاری)
اپنے ماں باپ پر سختی کرنے والی اولاد کو اس بات کی سخت کی ضرورت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ کے اس فرمان پر غور کریں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’میں نے اللہ کے رسولﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اب تم چاہو تو اس درواز ے کو ضائع کردو یا محفوظ کر لو۔‘‘(احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
بلوغت اور بچوں کی سختی
اس زمانہ میں اپنے بچوں اور بچیوں سے ماں باپ کی شکایتیں بڑھتی جارہی ہیں۔اس موقع پر یہ سوال ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر اولادکا رویہ اپنے والدین کے تعلق سے اتنا سخت کیوں ہو جاتا ہے کہ وہ گالم گلوچ تک پر اتر آتے ہیں؟
اس کا سبب خود والدین بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے انھوں نے اولاد کے تعلق سے غفلت برتی ہو اور ان کی تربیت کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی ہو۔خاص طور سے بچپن اور نوعمری میں انھیں بغیر کسی رہنمائی کے یوں ہی آوارہ چھوڑ دیا ہو کہ نہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی ہے اور نہ ہی تربیت کرنے والا کوئی ہے۔ چنانچہ جب بچے نے بلوغت میں قدم رکھا تو والدین کی بے توجہی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس طرح بچہ آوارہ ہوگیا، سگریٹ پینے لگا، یا نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنے لگا، اخلاق واقدار سے دورہوتا چلا گیا۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پہنچ کر اس کا رویہ والدین کے لیے سخت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بچہ جو نوجوانی کی عمر کو پہنچ چکا ہے، وہ اب آزاد خیالی کے ساتھ جینا چاہتا ہے، اسی لیے دوسروں کی نصیحتوں اور مشوروں کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔اس نوجوان کی مثال اس پتھر کی سی ہے جو بھٹی میں تپنے کے بعد ٹھنڈا ہو چکا ہو، اب اسے کوئی نئی شکل دینا انتہائی مشکل ہے، حالانکہ جب لوہا نرم تھا تو اسے کسی بھی شکل میں موڑنا بہت آسان تھا۔
نیک عمل اور اولاد کی اصلاح
اگر آپ نوافل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اپنی اولاد اور دنیا کے مصائب و مسائل کو یاد کیجیے اور اول اپنے رب کو خوش کرنے اور دوم اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے نوافل کا سہارا لیجیے۔اپنے نیک اعمال کی مدد سے اولاد کے لیے مبارک اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر کیجیے۔اس موقع پر اللہ کے اس ارشاد کو یاد رکھیے :
’’اور دیوار ، وہ اسی شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی۔ اس دیوار کے نیچے ان کے لیے خزانہ دبا ہوا تھا۔ ان دونوں بچوں کا باپ ایک نیک اور صالح شخص تھا، اس لیے اللہ نے چاہا کہ دونوں بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں اور تیرے رب کی رحمت کے طور پر اپنا یہ خزانہ نکال لیں۔ اور یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کیا ہے۔ یہ ہے تاویل اس کی جس پر تم صبر نہیں کر سکے۔‘‘ (الکہف: ۲۸)
نیک باپ کا نمونۂ زندگی اکثر اپنی اولاد کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے دو یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت اس لیے فرمائی کہ ان کی ساتویں پشت کے دادا نیک شخص تھے۔
موجودہ دور کے ایک مبلّغ نے ایک نیک آدمی سے پوچھا۔ یہ نیک آدمی اعلی سرکاری ملازم تھا۔اپنی سرکاری ملازمت کے علاوہ ایک رفاہی دفترمیں بھی کام کرتا تھا اور اس کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف کرتا تھا۔مبلغ نے اس سے پوچھا: ’’آپ ایک نمایاں سرکاری منصب پر فائز ہونے کے باوجود رفاہی اداروں میں اضافی کام کیوں کرتے ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا: ’’میرے چھ سے زیادہ بچے ہیں، جن میں اکثر لڑکے ہیں۔ مجھے ان کے بے راہ رو ہونے کا خوف رہتا ہے۔میں ان کی تربیت پر خاطر خواہ وقت نہیں دے پاتا ہوں۔تجربے سے میں نے یہ راز دریافت کیا ہے میں رفاہی اداروں میں جتنا زیادہ وقت دیتا ہوں، اسی کے بقدر میرے بچوں میں نیکی آتی جارہی ہے۔
خاص نصیحت
اللہ تعالی یہ بات جانتا ہے کہ انسان جب چالیس کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اسے اولاد میسر ہوجاتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ اپنی بیوی اور بچوں میں مشغولیت کی وجہ سے اپنے والدین سے غافل ہوجاتا ہے۔اسی لیے وصیت ربانی خاص طور سے اس شخص کے لیے نازل ہوئی جو چالیس یا اس سے زیادہ کی عمر کو پہنچ چکا ہو:
’’اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس کی ماں نے اسے۔‘‘۔۔۔۔(الاحقاف)
چنانچہ انسان اپنے والدین کو نہیں بھولا، بلکہ ان کا ذکر شکر کے ضمن میں کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اسے نیک عمل کی توفیق دے، پھر اللہ نے جو نعمتیں اسے اور اس کے والدین کو دی ہیں، ان کا شکر ادا کیا، اس لیے کہ ماں باپ کا نیک عمل اولاد کو فائدہ پہنچاتا ہے، جیسا کہ سورۂ کہف میں بیان ہوا ہے۔انسان نے اپنے رب سے یہ بھی دعا کی کہ اس کی اولاد کو نیک بنائے تاکہ اولاد بھی اسے فائدہ پہنچائے اور اس کے لیے دعا کرے۔ اسی لیے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین ۔
یہ ہیں وہ لوگ جس قسم کے لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاتے ہیں، اور اللہ تعالی ان کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے۔یہی لوگ جنّتی بھی ہیں، جیسا کہ قرآن نے انھیں جنت کی بشارت دی ہے: ’’وہ لوگ جن کے اچھے اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے در گزر کرتے ہیں وہ اہل جنت میں ہوں گے۔۔۔‘‘
ان کے مقابلے میں وہ نافرمان اولاد ہے جو انہید پر زیادتی کرتی ہے جنھوں نے اس کی پرورش و پرداخت کی ہے، اور ان کے آرام وسکون سے انھیں گھبراہٹ ہوتی ہے، کاش ایسی اولاد اپنی زبان سے نکلنے والے ’اُف‘ یا ہونہہ کے انجام کو سمجھنے کی کوشش کرتی۔یہ لفظ انھیں سراسر خسارے میں ڈالنے والا ہے۔ lll