ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدر و حدیبیہ جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہ سن کر ام المومنین حضرت حفصہ ؓ ،جن کی دین میں سمجھ بوجھ اعلیٰ درجہ کی تھی‘ فرمایا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے :
وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّاوَارِدُھَا (مریم :۷۱)
’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پرواردنہ ہو۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو ہے:
ثُمَّ نُنَجِیّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جَثِـیًّا (مریم :۷۲)
’’پھر ہم ان لوگوںکو بچالیں گے جو (دنیا میں) متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں زانوں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔‘‘
حضرت حفصہؓ کی دین سے متعلق سمجھ بوجھ کا رسول اکرمﷺ پر کافی اثر ہوا اور آپؐ کوہمیشہ انکی تعلیم و تربیت کی فکر رہتی۔ (مسند احمد)
یہ مختصر اور پر اثر واقعہ باشعور دختر اسلامی کی عکاسی کرتا ہے۔کہ فی الواقعی ایک باشعور خاتونِ اسلام کے اندر کس طرح کا علم و فہم‘ قوت ادراک‘بیداریٔ ذہن اور آگاہی ہونی چاہئے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو شعور کے لفظی تعریف میں آتے ہیں۔
شعور کا تعلق مقصد زندگی سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان اتنا ہی گہرا اور مضبوط تعلق ہے جتنا کہ انسانی جسم اور سانس کا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اپنے مقصد وجود-جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے-کو پہچاننے کے لئے شعور عطا فرمایا۔ چونکہ مقصد زندگی کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ فہم و شعور میں بھی کوئی فرق نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی پر اللہ کا فضل زیادہ ہوتا ہے اور کسی پر کم۔کوئی زیادہ ذہین ہے اورکوئی کم۔ کوئی اچھی صلاحیتوں کا مالک ہے اور کوئی کم صلاحیتوں والا ہے۔یہ فرق تو بہر حال رہے گا۔اور یہ معاملہ بلالحاظ جنس کے ہوتا ہے۔جس کامنشا صرف اور صرف آزمائش ہے۔مقصد زندگی سے حقیقی واقفیت حاصل کرنے کے لئے اللہ رب العالمین نے جو انعامات دیئے ہیں‘ ا س سے فیض یاب ہونے والے تمام انسان ہیں:
’’اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالااس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔اس نے تمہیں کان دیے‘آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے‘ اس لئے کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (النحل:۷۸)
ایک باشعور دختر اسلام کی زندگی ایسے اعمال اور اوصاف کا آئینہ ہو‘ جو نہ صرف اسے اللہ کی بندگی میں ہر دم مصروف رکھے‘ بلکہ دوسروں کے لئے بھی ترغیب کا ذریعہ بنے۔جس معاشرہ میں وہ رہتی ہے‘ جس گھر کا وہ حصہ ہے‘جن بچوں کی وہ ماں ہے‘ جن بھائیوں کی وہ بہن ہے‘ جن والدین کی وہ اولاد ہے‘ جس گھر کی وہ بہو ہے- ہر جگہ‘ ہر حیثیت میں وہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی تعلیمات کی ترجمان بن جائے۔اس کے وجود کو باعث رحمت سمجھا جائے۔آئیے ایسی ہی باشعور دختر اسلامی کی چندنمایاں خصوصیات پر غور کرتے ہیں:
(۱) مقصد زندگی کی اہمیت
دنیا میں آنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر حال میں اللہ رب العالمین کے احکامات کے مطابق زندگی کے تمام معاملات انجام دیئے جائیں۔اپنی پسند اور ناپسند کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی پسند اور ناپسند کو بلند مقام دیا جائے۔اپنوں اور غیروں سے اچھا سلوک کیا جائے۔ ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ تمام باتیں‘ بلکہ ان کی مکمل تفیصلات کو جامع انداز میں عبادت کہا جاتا ہے۔ جوخاتون جس قدر خود شناس ہوگی ‘ اس کا جتنا علم ہوگا‘ اور جس قدر وہ اپنے اندر اچھی اچھی صلاحیتوں کو نشوونما دیگی ‘وہ اتنا ہی اللہ اور اسکے بندوں کا حق ادا کرنے کا خیال رکھے گی۔اس لئے تو کہا گیا کہ اللہ کا ڈر اور خوف رکھنے والے وہی ہوتے ہیں جن کی شعوری سطح بلند ہوتی ہے۔جنہیں ہم عرف عام میں عالم کہتے ہیں:
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓـؤُا (الفاطر:۲۸)
’’حقیقت یہ کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘
یعنی ایک باشعور خاتون ِاسلام کا نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ مقصد زندگی کے لئے کوشاں رہتی ہے۔اس کے پیش نظر آپ کی شخصیت کے ارتقاء کے لئے چند عملی تدابیرپیش ہیں:
عملی تدابیر
َ ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہیے کہ جو زندگی آپ کو عطا کی گئی ہے اس کی کتنی اہمیت ہے؟اگر یہ آپ کو نہ ملتی تو کیا جنت کو حاصل کرنے کا کوئی امکان رہتا؟
َ اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان کے چال ڈھال پر غور کرتے رہئے۔کہ کس طرح وہ اپنے مقصد وجود کے عین مطابق سرگرم رہتی ہیں۔
َ اللہ تعالیٰ نے جن عبادات کو فرض کیا ہے‘ ان کی ادائیگی میں ہرگز کوتاہی نہ کیجئے۔اگر کسی وجہ سے کوئی نماز چھوٹ جائے تو اس فوری ادا کرلیجئے۔
َ جس گھر میں آپ رہتی ہیں‘ وہاں کے تمام افراد کے حقوق نہ صرف پابندی سے ادا کیجئے بلکہ اس سلسلہ میں آپ دوسروں کے لئے آئیڈیل ہوجائیے۔اپنی بے لوث خدمت
سے گھر کو اللہ کی یاد کا مسکن بنائیے۔
َ جس دین پر آپ چل رہی ہیں‘ اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہچانے کی راہیں تلاش کیجئے۔شروعات ان سے کیجئے جو آپ سے قریب رہتے ہیں۔
(۲) عملی کوشش
معلومات حاصل ہوں تو فوری اقدام کیا جاتا ہے۔ اگر خواتین کو یہ پتا لگ جائے کہ شہر میں خوبصورت ساڑیوں کی نمائش لگی ہوئی ہے۔تو ایسی کونسی خاتون ہوگی جو وہاں جانا پسند نہیں کرے گی؟ مطلب یہی کہ علم ہو تو عمل کرنا ایک فطری بات ہے۔ بالکل یہی معاملہ فہم و شعور سے متعلق بھی ہے۔ کسی کا عملی کوشش کرتے رہنا نہ صرف اس کے صحیح شعور کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کی پختگی کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس زمین اور آسمان کے خالق اور مالک پر ایمان لائے ہیں‘ تو ان کے ذہنی سطح کی جانچ اعمال کے ذریعہ کی جاتی ہے۔اورجب وہ عمل کے ذریعہ اپنے ایمانی شعور کی تصدیق کرتے ہیں‘ تو اللہ تعالیٰ انہیں بشارت دیتا ہے:
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔اور( آخرت میں ) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘ (النحل:۹۷)
یہی وجہ ہے کہ صحابیاتؓ میں عمل کا بے انتہا جذبہ پایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کا سب سے نمایاں وصف جود و سخا تھا۔ایک مرتبہ حضرت امیرمعاویہؓ نے انکی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو شام ہونے تک سب خیرات کردیئے۔اور اپنے لئے کچھ نہیں رکھا۔جب کہ اس دن روزہ رکھا تھا۔ان کی نوکرانی نے افطار یاد دلایا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے کیوں یاد نہیں دلایا؟
عملی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے درج ذیل باتوں پر توجہ دیں:
عملی تدابیر
َ اپنے اندر یہ یقین پیدا کیجئے کہ اللہ کی رحمت کے سوا آپ کے اعمال ہی آپ کو جنت کا مستحق بنائیں گے۔
َ کسی اچھے کام کو کرنے میں ہرگز تاخیر مت کیجئے۔اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بڑے حساس بن جائیے۔
َ ہر دن چند اچھے کام انجام دینے کے لئے ایک فہرست بنالیجئے۔جیسے تلاوت قرآن‘ بچوں کی اصلاح ‘صدقہ و خیرات‘ گھر میں کام کرنے والی خاتون کو وعظ و نصیحت وغیرہ
َ اپنا ایسا مزاج بنائیے کہ جب جو علم آپ کو حاصل ہو اس پر فوری عمل کے لئے آمادگی بھی پیدا ہو۔
َ اس بات کا جائزہ لیتے رہئے کہ آپ کے عمل کے ذریعہ خود آپ میں اور اطراف کے ماحول میں کس طرح کی تبدیلیاں آرہی ہیں؟
(۳) برائیوں سے اجتناب
نیک کاموں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کے کرنے والوں کو مکمل اطمینان نصیب ہوتا ہے۔جب کہ برے کاموں کا ارتکاب ایک طرح کی بے چینی پیدا کرتا ہے ۔پھر اگر کوئی برائی پر اسی طرح عمل کرتا رہے تو یہ برائیاں اس کے اخلاق کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ جب کسی کے اندربرائی پروان چڑھنے لگے تو وہ نیک عمل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔کیونکہ نیکی اور بدی پر عمل بیک وقت ممکن نہیں ہوتا۔یہ بھی ایک طرح سے شعور کی پہچان ہوگی کہ آپ برائیوں سے بچتی رہیں۔نہ صرف ان سے بچائو ہو بلکہ برائیوں کی پرچھائیوں کو بھی اپنے قریب پھٹکنے نہ دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے صالح بندوں کی یہی پہچان بتائی :
’’جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو انہیں فوری اللہ یاد آجاتا ہے۔اور وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں……‘‘ (آل عمران:۱۳۵)
برائیوں سے بچنے کے لئے ہمیشہ چوکنے رہئے۔نیچے چند ایک تدابیر درج ہیں:
عملی تدابیر
َ یاد رکھئے‘ برے اعمال آپ کے فہم و شعور اور قوت ادارک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
َ آپ جن خامیوں کو اپنے اندرمحسوس کرتی ہیں‘ انہیں چن چن کر دور کرنے کی کوشش کیجئے۔جیسے نمازوں کی ادائیگی میں تساہلی ‘چغل خوری‘ فضول گفتگو‘کاموں کو ٹالنے کی عادت وغیرہ
َ برائیوں سے بچنے کے لئے‘ اچھے کام کثر ت سے کیجئے۔ہر دن کی آپ کی مصروفیات ایسی ہوں کہ ہر مصروفیت کے اختتام پر کوئی نیک کام انجام پائے۔ جیسے باورچی خانے سے فارغ ہوں تو اطمینان کے ساتھ کچھ دیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان ہو‘ صبح کی مصروفیات ختم ہوں تو نفل نماز کا اہتمام ہو۔
َ اگر کوئی براکام سرزد ہوجائے تو فوری توبہ کرلیجئے۔پھر کوئی اچھا کام کرڈالیے۔
َ اللہ کے نیک بندوں کی صفات‘ صحابیات اور دیگر نیک خواتین کی سیرت کا بغور مطالعہ کیجئے کہ انہوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو برائیوں سے پاک رکھا۔اور ان کی سیرتوں سے‘ برائیوں سے بچنے کی ترغیب حاصل کیجئے۔
(۴) مصلحت پسندی سے گریز
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی یہ بھی پہچان بتائی کہ ان کے اندر مصلحت پسندی نہیں ہوتی۔ آپ بھی صحیح اور ہم بھی صحیح والا معاملہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر معاملہ میں بے لاگ اور واضح موقف اختیار کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے؟ اور اس سے ان کا کیا رشتہ ہے؟ ان کا پختہ شعور انہیں بس اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فرمانبردار بنادیتا ہے۔ذرا اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور فرمائیں:
’’تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیںوہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے‘ خواہ وہان کے باپ ہوں‘یا ان کے بیٹے‘یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان مضبوطی کے ساتھ جمادیا ہے۔اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشی ہے۔‘‘ (المجادلہ:۲۲)
یہ بات اور ہے کہ ایسی باتوں میں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں ‘ مصلحت اختیار کی جاسکتی ہے۔لیکن جہاں تک کسی ایسی بات کا تعلق ہو جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے خلاف ہو‘ اس کے لئے مصلحت کی قطعاً گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
مصلحت پسندی جیسی بری خصلت سے شخصیت کو پاک رکھنے کے لئے بعض ایک تدابیر کا ذکر کیا جارہا ہے:
عملی تدابیر
َ کیا آپ کے اندر مصلحت پسندی کا مزاج پایا جاتا ہے؟ اس کی جانچ کیجئے۔یہ بری خصلت بڑے غیر محسوس طریقے سے دل میں گھر کر جاتی ہے۔
َ یہ دیکھئے کہ آپ کے ایسے کتنے اچھے کام ہیں جو پہلے پابندی سے ہوا کرتے تھے‘ پر اب نہیں ہو رہے ہیں؟
َ ان لوگوں سے اپنے تعلقات کو منقطع مت کیجئے جو آپ کو کسی وجہ سے اچھا نہیں سمجھتے۔ان سے برابر حسن سلوک کرتے رہئے۔
َ جتنا گہر ا آپ کا علم ہوگااورجتنا زیادہ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس رہے گا‘ مصلحت پسندی اسی قدر آپ کے مزاج سے دور رہے گی۔
َ اس سلسلہ میں صحابیات کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے۔خصوصیت کے ساتھ مکہ معظمہ کی زندگیاں آپ کے پیش نظر رہیں۔کس طرح یہ بااہمت اور پرعزم خواتین نے انتہائی ظلم و ستم کے باجود ‘ صبر و استقامت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ‘ اللہ اور اسکے رسولﷺ سے سچی محبت کا ثبوت دیا۔
(۵) صلاحیتوں کی نشوونما
اچھے اوصاف اور صلاحیتوں کی نشوونما سے ان تمام کاموں کو انجام دینے میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں‘ جو مقصد زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاًنمازوںکی پابندی‘ حقوق کی ادائیگی اور راہ خدا میں جد و جہدوغیرہ۔ذرا غور کیجئے کیسے ایک عورت ماں بننے کے بعدکس قدر تیزی اور دلچسپی کے ساتھ نئے نئے کام سیکھتی ہے‘ اور ان کو کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر ایک کے اندر اچھی اچھی صلاحیتیں رکھ دی ہیں۔ بس انہیں پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح زمین کے اندر سونے اور چاندی کے ذخیرے ہوتے ہیں‘ اسی طرح انسان کے اندربڑی قیمتی صلاحتیں موجود ہوتی ہیں۔بس انہیں پہچان کر ‘ بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے اس تعلق سے ایسی ہی ایک پیاری مثال دی ہے۔
اَلْاِنْسَانُ مَعْدِنُ کَمَعْدِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ
’’انسان کان کی طرح ہے جیسے سونے اور چاندی کی کان ہوتی ہے‘‘
صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی ایک قابل عمل صورت تو عملی کوشش ہے۔ جب مختلف محاذوں پر خواتین کام انجام دیں گی تو ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے اندر صلاحیتیں اور قابلتیں بھی پروان چڑھائیں گی۔ورنہ عملاً مصروف رہنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں ہمیشہ فکر مند رہنے کے علاوہ عملی تدابیر بھی اختیار کریں‘چند یہاں پیش کی جارہی ہیں:
عملی تدابیر
َ اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے رہئے۔ خوب یاد رکھ لیجئے کہ جتنی صلاحیتیں ہوں گی‘ نیک کاموں کو انجام دینے میں اتنی ہی مدد ملے گی۔
َ آپ اپنے کاموں کے لحاظ سے صلاحیتوں کی ایک فہرست بنالیجئے۔اور ایک کے بعد دیگرے انہیں اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کیجئے۔مثلاً یکسوئی کے ساتھ علم کا حصول‘ غور و فکر‘ تقریر‘ تحریراور رابطہ عامہ وغیرہ
َ آپ جن سورتوں کو پڑھتی ہیں‘ جن موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرتی ہیں‘ جن خواتین سے ملاقات کرتی ہیں‘ انہیں یاد رکھنے کی کوشش کیجئے۔
َ اپنے گھر اور اطراف کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔مسائل کے حل میں حتی الامکان تعاون کیجئے۔ جیسے خواتین کے مسائل‘ افراد خاندان میں نااتفاقی‘ گھر کے لوگوں کی ناراضگی‘ نوجوان لڑکیوں کی بے راہ روی ‘غلط رسم و رواج وغیرہ
َ آپ کی صلاحیتوں کی نشوونما اور نئی نئی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لئے ایک زرین اصول کو ہمیشہ سامنے رکھیئے۔جس کی تلقین رسول اکرمﷺ نے فرمائی ہے:
اِتَّقِ اللّٰہَ فِیْمَا تَعْلَمُ
’’جو کچھ تم جانتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
یعنی ” مجھے جتنا علم حاصل ہوگا‘ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے میں اس پر عمل کرتی رہوں گی”
(۶) رب کی رضا کا حصول
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے اللہ کی پہچان انتہائی پسندیدہ ہے اور مطلوب بھی۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس بندی نے اپنے مہربان خالق کو پہچاناہے‘ اس نے یہ راستہ دراصل اپنے آپ کو پہچان کر شروع کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ
’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے درحقیقت اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
لہذا زندگی کی ساری دوڑ دھوپ‘ مقصد کو حاصل کرنے کی تمام تر کوششوں کا محرک اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہونی چاہئے۔ اللہ کی رضا جس قدر ذہن میں سمائی رہے گی‘ شعوراسی قدر پختہ ہوتا جائے گا۔اس سلسلہ کی چند عملی تدابیر درج ہیں:
عملی تدابیر
َ اللہ کی رضا اور خوشنودی سب سے عظیم نعمت ہے۔ جنت سے بھی عظیم تر۔اس پر غور کرتے رہئے۔اس حقیقت کو کبھی نہ بھولیئے۔
َ جنت کو پانے کے لئے جیسی دلچسپی اور لگن کے ساتھ اچھے کام انجام دیئے جاتے ہیں‘ اس سے کہیں بڑھ کر دلچسپی اور لگن کے ساتھ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔آپ کا ہر عمل ایسی ہی کیفیت کے ساتھ ہو‘ اس پر بھرپور توجہ دیجئے۔
َ اللہ کی رضا کے لئے مطلوبہ صفات- فرائض کی پابندی‘ احسان‘ صبر و شکر‘ ہر حال میں راہ خدامیں جدوجہد‘ انسانوں سے ہمدردی …ہیں۔ دیکھ لیجئے کہ اللہ کی رضا سے ہمکنار کرنے والے یہ اوصاف آپ کی شخصیت میں یہ کس قدر سمائے ہوئے ہیں؟
َ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا نیک جذبہ رضائے الہیٰ کا ذریعہ بنتا ہے۔اس مسابقتی جذبہ کو آپ اپنی شخصیت کی پہچان بنا لیجئے۔
َ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ ہماری رہنمائی فرماتے ہیں:
اَلْوَقْتُ اْلاَ وَّلُ مِنَ الصَّلٰوۃِ رِضْوَانُ اللّٰہِ-
’’نماز کا اول وقت اللہ کی رضا ہے۔‘‘
کوشش کیجئے کہ ہر نمازٹھیک اپنے وقت پر ادا ہو۔