ایک اسلامی خاتون کی شخصیت کے جہاں دیگر مختلف پہلو ہیں وہیں ایک خاص پہلو ان کی داعیانہ زندگی کا بھی ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو اپنی تربیت و اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح و تربیت کی فکر بھی خواتین کی اسی طرح ذمہ داری اور آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے جس طرح مردوں کے لیے۔ اللہ کے رسول نے اپنی خواتین کو اس پہلو سے بھی تیار کیا تھا اور ان کی دعوتی جدوجہد اور اسلام پھیلانے کی کوششیں بھی ہمیں تاریخ میں نمایاںنظر آتی ہیں۔ داعیہ اور مبلغہ صحابیات کی ایک طویل فہرست ہمیں ملتی ہے۔
قرآن کریم حضرت ابراہیم کی زوجہ محترمہ، فرعون جیسے ظالم حکمراں کی بیوی، حضرت مریم اور ملکۂ سبا جیسی صاحبِ فراست خاتون کا ذکر کرتا ہے اور ان کی شخصیت کی پختگی، حق کی اشاعت کے لیے جدوجہد اور مصائب و پریشانیوں کو برداشت کرنے کی داستان سناتا ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مومن خواتین کی شخصیت میں بھی وہی پختگی، بلند کرداری و عظمت اور دعوتِ حق کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوجائے۔
عصرِ حاضر میں بھی ہمیں ایسی بہت سے خواتین نظر آتی ہیں جن کی دات میدانِ دعوت میں ہزاروں مردوں اور لاکھوں کفر والحاد کے داعیوں کے مقابلہ میں بھاری ثابت ہوئی۔
خواتین کے داعیانہ کردار کا اہم پہلو یہ ہے کہ دورِ حاضر میں انہیں کس طرح فریضۂ دعوت و تبلیغ انجام دینا چاہیے، دعوتی اپروچ کیا ہو، اندازِ دعوت، طرزِ تبلیغ اور طریقۂ کار کیا اختیار کریں، اور حدود شریعت میں رہتے ہوئے اور اپنے فرائضِ منصبی بحیثیت بیوی اور بحیثیت ماں انجام دیتے ہوئے داعیانہ کردار کا ثبوت کس طرح دیں، اور زندگی میں دعوتی و تبلیغی رول کس طرح ادا کریں؟
۱- اس سلسلے میں پہلا کام یہ ہے کہ خواتین ذہنی و فکری تیاری کریں، قرآن و حدیث اور اسلامی تحریکی لٹریچر سے اپنا ذہن و فکر نہ صرف اسلامی بنائیں بلکہ داعیانہ اور مبلغانہ ذہن بنائیں۔ اسلام اور غیر اسلام کو، حق اور باطل کو، اور اسلام کے مقابلے میں الحاد، کفر اور شرک اور ہر قسم کے باطل کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اسلام اور جاہلیت میں فرق و امتیاز کواچھی پہچان لیں۔
۲- دوسرا کام یہ ہے کہ خواتین قلبی و روحانی تیاری کریں۔ مطالعہ ہی کے ذریعہ اپنی روح و دل اور جذبات کے اندر داعیانہ تڑپ اور اضطراب، جوش اور ولولہ، دعوتی امنگ اور آرزو، تبلیغی عزائم، ہمت و حوصلہ اور اس قدر بے چینی پیدا کریں کہ دعوت و تبلیغ کافریضہ ادا کیے بغیر سکون میسر نہ ہو۔ مطالعہ کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ تعلق پیدا کرنے، اسے مضبوط کرنے اور بڑھانے کے لیے عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۳- تیسرا کام یہ ہے کہ مسلم خواتین بندگانِ خدا سے یعنی ان خواتین سے جو راہِ حق سے بھٹکی ہوئی ہیں، جو الحاد ، کفر یا شرک میں لت پت ہیں، جو دنیا میں غرق ہیں، جو نسل و نسب، رنگ یا زبان، پیشہ یا حرفہ، قوم یا وطن، طبقہ یا جاتی واد، یا برادری اور خاندان، عہدہ یا منصب، دولت اور سرمایہ کی فریفتہ اور دلدادہ ہیں، ان کے ساتھ ہمدردی، دلسوزی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کریں۔ جو بوڑھے یا بچے عورت یا مرد ننگے بھوکے ہیں، جو دوا دارو، تعلیم و تربیت، روٹی کپڑا، مکان کے حاجت مند ہیں، جو فکری رہنمائی اور اخلاقی تعاون کے محتاج ہیں، ان پر ترس کھائیں، ان کے ساتھ تعاون کریں، ان کی امداد کے لیے فکر مند ہوں، عملاًان کے ساتھ تعاون کریں۔
۴- چوتھا کام یہ ہے کہ خواتین اپنا اور اپنے قریبی ماحول کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ فکر وخیال میں، اخلاق و عادات میں، معاشرت اور سماجی زندگی میں، معاش، کمائی اور خرچ میں، تعلقات، معاملات اور برتاؤ میں، حقوق اور فرائض کی ادائیگی میں، اجتماعی اور سیاسی، عائلی اور ازدواجی زندگیوں میں دین کے خلاف، قرآن و سنت نبی کریم ﷺ کے خلاف جو فکر، عمل، رسم یا رواج پایا جاتا ہو اسے حکمت کے ساتھ ، نصح و خیر خواہی کے ساتھ، ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ اور ضرورت پڑے تو اچھے انداز میں بحث و مباحثہ کے ساتھ خلاف شریعت فکر و عمل کو دور کرنے کی پیہم کوشش کرتی رہیں۔
۵- پانچواں کام یہ ہے کہ اپنی اولاد کی، اپنے گھر والوں کی، اپنے قریبی عزیزوں کی، خصوصاً قریبی رشتہ دار خواتین کی اور اپنی پڑوسنوں کی اور ان کے بچوں کی مثبت طور پر دینی و اخلاقی، مذہبی اور روحانی تعلیم و تربیت کی فکر اور کوشش کرتی رہیں۔
۶- چھٹا کام یہ ہے کہ باقاعدہ منصوبے کے ساتھ اپنے قریبی ماحول کے عقائد درست کرنے کی فکر کریں، ان میں عبادات کا ذوق و شوق پیدا کریں۔نماز، روزہ، زکاۃ، صدقہ، خیرات اور راہِ خدا میں خرچ کرنے اور حج و عمرہ اور قربانی کی طرف توجہ دلائیں، اور دینداری کی طرف راغب کریں۔ اس مقصد کے لیے دینی کتابیں مطالعہ کے لیے دیں اور ان میں دینی ذوق پیدا کریں۔ ہفتہ واری اجتماعی مطالعہ، درس قرآن، درس حدیث، درس سیرت، درس فقہ اور تاریخ اسلام کے درس کا پروگرام رکھیں۔ نمازیں سننے اور صحیح کرانے کا اور نمازوں میں پڑھی جانے والی سورتوں کا اور نماز کے اذکار اور دعاؤں کا ترجمہ یاد کرنے کا اہتمام کریں اور کوشش کریں کہ نمازیں مقصدی، شعوری اور جاندا ہوتی چلی جائیں۔
۷- ساتواں کام یہ ہے کہ خواتین ان اثرات کا تدارک کرنے کی فکر کریں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن، سینما اور گندے لٹریچر کے ذریعہ سماج پر پڑ رہے ہیں، جو فکری اور ذہنی اخلاقی و معاشرتی اور ہمہ پہلو برے اثرات پڑ رہے ہیں، ان کی تدارک کی فکر کرتی رہیں۔ فحش اور بے حیائی کے پروگرام سننے اور دیکھنے سے خود بھی بچتی رہیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرتی رہیں، خصوصاً اپنی اولاد کو، اپنے چمن کے ننھے پھولوں اور معصوم کلیوں کو ان برے اثرات سے بچانے کی فکر کرتی رہیں۔ دوسری طرف اسی الیکٹرانک میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے، اور اخبارات و رسائل کے مطالعہ کے ذریعے دنیا کے حالات سے واقف ہونے اور واقف رہنے کی فکر کرتی رہیں۔ اسلام پر، مسلمانوں پراور اسلامی تحریکوں پر جو جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں، اور جو مخالفانہ پروپیگنڈا ہورہا ہے اس کے تدارک کے لیے یا اس کی شدت کو کم کرنے اور اس کے زور کو توڑنے کے لیے اور جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے انگریزی، ہندی، اردو اور دیگر زبانوں کے اخبارات و رسائل میں مراسلے شائع کرائیں۔ صرف مخالفانہ یلغار کے تدارک ہی کے لیے نہیں بلکہ حسبِ موقع مثبت دعوت بھی مراسلات کے ذریعہ دینے کااہتمام کریں۔
۸- آٹھواں کام یہ ہے کہ ہر طبقہ کی تعلیم یافتہ خواتین کو اپنے اپنے مسلکی خصوصیات اور اختلافات سے بلند ہوکر توحید و رسالت کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے پر ابھاریں اور آمادہ کریں۔ دیوبندیت اور بریلویت، شیعیت اور سنیت، حنفیت اور روحانیت،شریعت اور طریقت وغیرہ جیسے بیکار مشغلوں اور پست مقاصد سے بلند ہوکر اس چیز کی دعوت دینے کی طرف پور امت کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں جس کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ اور جس کی دعوت محمد رسول اللہ ﷺ اور تمام انبیاء علیہم السلام نے دی ہے۔
۹-نواں کام یہ ہے کہ مسلمان خواتین عورتوں کو داعیانہ کردار کا حامل بنا کہ امت مسلمہ کو داعی ملت بنانے کی فکر کریں۔ اس طرح ان شاء اللہ امت میں مسلکی انتشار، نسلی اور خاندانی انتشار، سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہونے کا انتشار، اور دوسرے پہلوؤں میں انتشار دور ہوگا، اور ملت شعوری نصب العین اختیار کرکے اور عملاً اس کے لیے جدوجہد کرکے متحد اور منظم ہوتی چلی جائی گی۔
۱۰- دسواں کام یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار خواتین خود کو اور دوسری تمام مسلمان خواتین کو اور نوجوانوں کو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ، اپنی نظریاتی، فکری اور اخلاقی اور دینی سرحدوں کی حفاظت، نگرانی اور مدافعت کے لیے تیار کریں۔ اپنی اور اپنی ملت کے تمام افراد خصوصاً خواتین کی عزت و آبرو، جان و مال اور جائداد کی حفاظت اور نگرانی کے لیے تیار کریں۔
ہندوستان میں رہنے والی تمام قوموں کے بہت سے مسائل ہیں، الجھنیں ہیں، مصائب ہیں۔ ہر قوم میں خواتین کے فکری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل ہیں۔ ہرقوم میں پست طبقات ہیں۔ مسلمان خواتین کا فریضہ اور ان کے داعیانہ کردار کا تقاضا ہے کہ ہر طبقہ کی خواتین کو اونچا اٹھانے کی فکر کریں اور ان کے ساتھ ہمہ پہلو حسن سلوک کریں، اور انہیں دنیا و آخرت دونوں کے جہنم سے بچانے کی مخلصانہ کوشش کریں۔ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘ یعنی بہتر انسان (مرد یا عورت) وہ ہے جو لوگوں کو (مردوں اورعورتوں کو)فائدہ پہنچائے۔ فکری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، مذہبی ہمہ پہلو اوپر اٹھانے کی کوشش کرے۔ کیونکہ یہ داعیانہ کردار اور تبلیغی سیرت و اخلاق کا تقاضا ہے۔
ہماری خواتین اس وقت تک کامیاب شخصیت کی مالک نہیں بن سکتیں اور آخرت کی کامیابی کی توقع کرسکتی ہیں جب تک وہ اپنے اس دعوتی فریضہ کو ادا کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں جو ایک مومنہ اور مسلم ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا ہے۔