قرآن نے بہت ہی واضح اور دو ٹوک انداز میں عورت کو ایک مقام اور معاشرہ میں ان کی حیثیت کا تعین کیا۔ ان کی تکریم و تعظیم کو لازم قرار دیتے ہوئے ان کے فرائض و حقوق بیان کیے۔ تقریباً پندرہ صدی قبل کے اس عرب معاشرہ پر نظر ڈالیں جہاں آفتاب رسالت طلوع ہوا، جہاں برپا ہونے والے عظیم انقلاب کادنیا نے مشاہدہ کیا، اس معاشرہ میں عورتوں کا مقام بہت ہی بلند، ان کی حیثیت برابر کے حصہ دار کی، سکے کے دو پہلو کی طرح تھی۔ البتہ یہ واضح رہے کہ جس طرح عورت کی جسمانی ساخت، ذہنی رجحانات اور جذباتی کیفیت مردوں سے مختلف ہوتی ہیں اسی طرح فطری طور سے ان کے لیے دائرہ کار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہی ہونی چاہئیں۔ یہی وہ نسخہ تھا جسے پیش کرکے قرآن نے عورتوں کے لیے معتدل مقام اور رول کا تعین کیا۔ قرآن نے اسے مذہبی اور قانین حیثیت عطا کی۔ قرآن نے جہاں بھی مومنوں کو خطاب کیا تو اس میں مرد و عورت دونوں کو مخاطب کیا اور متعدد مقامات پر تو وضاحت کے ساتھ قرآن نے عورتوں کو مخاطب کرکے ان کے اعمال اور اس کے نتائج، عورتوں کے حقوق، عورتوں کے فرائض، عورتوں کے سلسلہ میں مردوں کی ذمہ دایاں کو واضح کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دیتے اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پراللہ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبہ:۷۱)
ایک دوسری جگہ عورت اور مرد کی حیثیت کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے:
’’وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک۔‘‘ (البقرہ:۱۸۷)
اسی طرح عورتیں اپنے اعمال کی خود ذمہ دار ہیں انہیں سے جواب طلب کیا جائے گا۔ ارشاد ربانی ہے:
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ سے ڈرنے والے مرد اور اللہ سے ڈرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کررکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۳۵)
مذکورہ بالا آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی، عبادات و فرائض کے ادائیگی اور معروف کے کام میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا، مرد اور عورت دونوں پر لازم ہے اور دونوں کو اس کام کا مکلّف بنایا گیا ہے۔ اس طرح قرآن نے عورتوں کو اپنے اچھے اور برے اعمال کے نتائج کا خود انہی کو ذمہ دار ٹھہریا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جس دن تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم کو بشارت ہو ایسے باغوں کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہوگے یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
(الحدید:۱۲)
’’اس لیے کہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو جنتوں میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی داخل کرے گا وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہوں کو دور کردے گا اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (الفتح:۵)
’’جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت مگر وہ ہو مومن تو وہ جنت میں داخل کیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘ (نساء: ۱۲۴)
مندرجہ بالا آیتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورتوں کو ان کے اعمالِ صالحہ کا بھر پور اجر دیا جائے گا اور جنت پر ان کا بھی مردوں ہی کی طرح حق ہوگا۔ اسی طرح اعمال بد کے نتیجہ میں عورتوں کو بھی مردوں کی ہی طرح سزا دی جائے گی اور وہ دوزخ کی حق دار بنیں گی۔ ارشاد ربانی ہے:
’’جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر کیجیے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور کوئی دوسرا نور تلاش کرو، پھر ان کے بیچ ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا ،اس کے اندر ایک طرف تو رحمت ہوگی اور اندر (برے لوگوں کی طرف) عذاب ہوگا۔‘‘ (النور: ۳)
اسی طرح قرآن کی رو سے ایک ہی خصلت والے مرد اور عورت کا باہم جوڑا ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور پاک عورتیں پاک مرد کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ (پاک لوگ) ان (بد لوگوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لیے بخششیں اور نیک روزی ہے۔‘‘ (النور:۲۶)
معاشرہ میں عورت کا مقام بہت بلند ہے جس کی وضاحت قرآن نے یوں کی ہے:
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلادیے۔‘‘ (النساء:۱)
’’اور ان عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔‘‘ (البقرہ:۲۲۸)
اس طرح مرد کو کچھ معاملات میں فضیلت دی گئی ہے کہ وہ ان کے نگراں ہیں، لہٰذا عورتوں کے متعلق ان پر بہت سے فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ قرآن اس کی یوں وضاحت کرتا ہے:
’’مرد عورتوں پر قیم ہیں اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (النساء:۳۴)
اس طرح مردوں کو اہم ذمہ داری دے کر عورتوں کو معاشی تحفظ عطا کیا گیا ہے، عورتوں سے متعلق حقوق کی وضاحت قرآن میں مزید اس طرح ملتی ہے:
’’تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو، ان کا مہر مقرر کیا ہوا ادا کردو اور مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ (النساء:۲۴)
اسی طرح عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہنے اور ان کی عزت و آبرو اور اخلاق کی نگرانی کرنے کے لیے مردوں کو مکلف بنایا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہوسہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں سے بھلائی پیدا کردے۔‘‘ (النساء:۱۹)
اگر مرد عورت میں کوئی تنازع ہوجائے تو اس کا حل قرآن نے اس طرح پیش کیا ہے:
’’اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر ہو۔ اگر یہ دونوں صلح کرادینا چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے۔‘‘ (النساء:۳۵)
اس کے باوجود بھی اگر تصفیہ نہ ہوسکے تو قرآن میں اس تنازعہ کا باوقار حل پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں یا تو حسنِ سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو اور اس نیت سے ان کو نکاح میںنہیں رکھنا چاہیے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور اللہ کے احکام کو ہنسی نہ بناؤ اور اللہ نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتاہے ان کویاد کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۳۱)
اسی طرح مطلقہ عورتوں کے بھی کچھ حقوق دیے گئے ہیں اور معاشرہ میں انہیں سر اٹھا کر جینے کا حق دیا گیا ہے۔ قرآن میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:
’’(نہ تو تم ہی) ان کو (ایام عدت) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں۔ ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں، اور یہ اللہ کی حدود ہیں، جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی (رجوع کی) سبیل نکال دے۔‘‘ (الطلاق: ۱)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہر کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور سے راضی ہوجائیں تو نکاح کرنے سے مت روکو۔ (اس حکم) سے اس شخض کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۳۲)
اسی طرح ظالم شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے عورتوں کو خلع کا حق دیا گیا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ:
’’اس لیے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو اگر عورت رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔‘‘ (البقرہ:۲۲۹)
آج سماج میں بیوہ عورتوں کی صورتحال قابلِ رحم ہے۔ صدیوں سے بیوہ عورتیں ظلم کا شکار ہیں اور ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔ اسلام نے بیواؤں کو بھر پور سماجی تحفظ فراہم کیا ہے:
’’اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ ان کوایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔ ہاں اگر وہ خود گھر سے چلی جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۴۰)
اسی طرح اسلام نے تمام عورتوں کو وراثت میں ان کا حصہ دلایا۔ وہ باپ اور شوہر دونوں کے گھر سے وراثت میں حصہ پانے کی حق دار ہیں۔ اس طرح قرآن نے عورت کی معاشی خود کفالت کا انتظام کیا۔ قرآن میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔‘‘(النساء:۷)
کسی صالح معاشرہ کی تعمیر میں مرد اور عورت دونوں کااہم رول ہوتا ہے۔ قرآن عورتوں کی ذمہ داریوں کا تعین بھی اس ضمن میں کیا ہے:
’’اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش کو ظاہر ہونے نہ دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلارہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور اپنے والد اور اپنے خسر اور اپنے بیٹوں اور اپنے خاوند کے بیٹوں (سوتیلے بیٹوں) اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (میل جول) کی عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا ان خدّام (نوکر چاکر) کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں، ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور پر زمین پر) نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔ اور مومنوں سب اللہ کے آگے توبہ کرو کہ فلاح پاؤ۔‘‘ (النور:۳۱)
’’اور اپنے گھر وں میں قرار سے رہیں اور جس طرح جاہلیت میں بناؤ سنگھار کرتی تھیں اس طرح زینت کا اظہار نہ کریں اورنماز پڑھتی رہیں اور زکوٰۃ دیتی رہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرتی رہیں۔‘‘ (الاحزاب:۳۳)
’’اور اے پیغمبرکی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گار رہنا چاہتی ہو تو (کسی)اجنبی شخص سے نرم لہجے میں باتیں نہ کرو کہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض (کھوٹ) ہے کوئی امید(نہ) پیدا کرے اور (ان سے) قاعدہ کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۲)
’’پس جو نیک روش رکھنے والی عورتیں ہیں وہ مرد کی اطاعت شعار ہوتی ہیں اور وہ مردوں کے پیچھے اللہ کی نگرانی میں ان کے حقوق اور امانت کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
(النساء: ۳۴)
اس طرح قرآن نے مختلف مقامات پر عورت کی حیات اور عصمت و عفت کی حفاظت کو بے پناہ اہمیت دی ہے اور اس کے لیے ایک معتدل ضابطۂ عمل مقرر کردیا ہے۔ ساتھ ہی مردوں کو بھی عورتوں کے متعلق ایسا رویہ اپنانے کے لیے کہا گیا ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرہ دونوں کی کوششوں سے وجود میں آسکے۔
’’اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔‘‘ (النور:۳۰)
اسی طرح معاشرہ کی تعمیر میں عورتوں کے رول کو قرآن نے اہمیت دی ہے جس کا اشارہ ہمیں قرآن کی اس آیت سے ملتا ہے:
’’اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گڑھ کر نہ لائیں گی اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریںگی تو ان سے بیعت لے لو۔‘‘
(الممتحنہ: ۱۲)
مندرجہ بالا قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ایک طرف تو عورت کو مستقل بالذات تسلیم کیا ہے دوسری طرف اسے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ اب یہ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنی ذات میں ایک قرآنی نسوانی شخصیت کی تعمیر کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔