شخصی ارتقا کا عمل توجہ، مشق اور منصوبہ بندی کا طالب ہوتا ہے۔ شخصی ارتقاء کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست انسان کی کامیابی اور ناکامی سے جوڑا ہے۔ فرمایا:
قد افلح من زکّٰہا وقد خاب من دسّٰہا
’’وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے (اپنی شخصیت کو)نشونما کے عمل سے گزارا ور وہ شخص ناکام ہوگیا جس نے اپنی شخصیت کو کچل ڈالا۔‘‘
قرآن مردوں کی طرح ہی عورتوں کی شخصیت کے ارتقا کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے اور مومن عورتوں کی وہ بنیادی صفات بیان کرتا ہے جن کی افزائش اور نشو نما سے کامیاب اور مستحکم عورت کی شخصیت بنتی ہے۔ فرمایا گیا:
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ سے ڈرنے والے مرد اور اللہ سے ڈرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کررکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۳۵)
یہ وہ صفات ہیں جو شخصی ارتقا کی بنیاد ہیں اور ان بنیادی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا اور ترقی دینا ہی کامیاب شخصیت کی تعمیر کی جانب سفر ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس میدان میں مرد و خواتین دونوں یکساں محتاج ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ فرمایا ہے۔
متوازن، فعال، مستحکم اور اسلامی سماج کی تشکیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا مسلم معاشرہ اور اس کی خواتین مل کر ہمہ جہت شخصی ارتقاء کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس شخصی ارتقاء کا مطلب ہے کہ مسلم سماج کے مردوں اور عورتوں میں بنیادی اخلاقی، ایمانی اور اسلامی صفات پروان چڑھیں اور برائیاں کمزور اور کوتاہیاں دور ہوں تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔
شخصی ارتقاء کا عمل جہاں ہماری خواتین سے توجہ اور شعور چاہتا ہے وہیں اپنی تربیت و تزکیہ کے لیے ایک منصوبہ، لگن، مشق اور اپنی ذات کی مسلسل نگرانی اور احتساب کا بھی طالب ہوتا ہے۔
سیکھنا اور مطالعہ
سیکھنے اور جاننے کی تڑپ اور مطالعہ کا شوق شخصی ارتقا کے لیے پہلی سیڑھی ہے۔ ارتقائے شخصیت کی منزلوں کو طے کرنے کے لیے اور صحیح زندگی گزارنے کے لیے جہاں قرآن و سنت کا مطالعہ ضروری ہے وہیں غلط افکار و نظریات اور سماج میں پھیلی برائیوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔ یہ مطالعہ تعمیری شخصیت کی بنیاد ہے۔
شخصی ارتقا کی منصوبہ بندی کے مطالعہ کی فکر اور منصوبہ بندی ضروری ہے۔ مطالعہ قرآن، حدیث وسیرت، فقہ و تاریخ اور وہ لٹریچر جو اسلام کی بہ حیثیت نظام زندگی تفہیم و تفسیر کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ وار اور منصوبہ بند مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے لیے آپ قابلِ اعتماد افراد سے مل کر خود ایک سیٹ متعین کریں اور کم از کم ایک سال کی منصوبہ بندی کریں کہ اسے مکمل کرلینا ہے۔ اسی طرح اخبارات و رسائل، بچوں کی تربیت وتعلیم، خانہ داری، وغیرہ سے متعلق مواد بھی اس منصوبہ میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اس سیٹ کی تیاری میں اس بات کا خاص دھیان رکھا جائے کہ وہی کتابیں منتخب کی جائیں جو ااپ کی سطح اور آپ کی ضرورت کو بہتر انداز میں پورا کرسکیں۔ ہر کتاب نہ پڑھنے کے قابل ہوتی ہے اور نہ دلچسپ اور آپ کی ضرورت کی تکمیل کرنے والی۔
خوبیوں اور کمزوریوں کا چار بنائیں
شخصی ارتقا کی منصوبہ بندی میں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھنا، خوبیوں کے فروغ اور خامیوں سے نجات حاصل کرنے کی فکر کرنا نہایت اہم ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر کا جائزہ قرآن کی مذکورہ آیت کی روشنی میں لیں۔
خوبیاں
خامیاں
ایمان داری
سچائی
فرماں برداری
صبر
انفاق
حیا
بے ایمانی
جھوٹ
نافرمانی
بے صبری
بخل و کنجوسی
بے حیائی و عریانیت
خوبیاں
خامیاں
تحمل مزاجی
سستی و کاہلی
عفو ودرگذر
بہادر
ہمدردی و غم گساری
غصہ
محنت اور چستی
جذبۂ انتقام
بزدلی
سنگ دلی
اسی طرح اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائیں اور روزانہ یہ طے کریں کہ کل کا دن ہمیں کس خوبی کے فروغ اور کس کمزوری سے نجات کے لیے متعین کرنا ہے۔ مثلاً اکثر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے مزاج میں غصہ ہے۔ تو دن بھر اس بات پر نظر رکھیں کہ آپ کو غصہ پر قابو پانا ہے۔ کسی بات پر جب غصہ آئے تو شعور کے ساتھ اسے تھوکنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی کوشش کریں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے آپ ان کمزوریوں سے دور ہوتے جائیں گے اور اس کے مقابل خوبی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
اسی طرح آپ کسی فرد کے اندر کوئی اچھی خوبی دیکھیں تو اسے بھی نوٹ کریں اور اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر کوئی ایسی خاتون آپ کو ملی جس کا انداز گفتگو اور زبان آپ کو پسند آئی تو آپ یہ طے کرسکتی ہیں کہ مجھے بھی اپنا گفتگو کا انداز بہتر بنانا ہے۔ پھر آپ اس کی مشق شروع کردیں۔ جان بوجھ کر اچھے الفاظ، گفتگو میں سلاست اور لہجے میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ کے اندر خوبیاں پیدا بھی ہوں گی اور فروغ بھی پائیں گی۔ کمزوریاوں اور کوتاہیاں دھیرے دھیرے ختم ہوتی چلی جائیں گی اور اس کے مقابلہ میں اچھے اوصاف آپ کے اندر پیدا ہوں گے۔ ایک مرتبہ حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا: ’’آپ نے ادب کیسے سیکھا؟ ‘‘ جواب دیا: ’’بے ادبوں سے۔‘‘ پوچھا گیا کیسے؟ آپ نے جواب دیا جو برائی ان کے اندر دیکھی اس سے اپنا دامن بچالیا۔ اللہ کے رسول نے اسی حقیقت کو اچھے لوگوں کی صحبت کو بیان کیا کہ ’’ جو صاف ہے اسے لے لو، اور گدلا ہے اسے چھوڑ دو۔‘‘
شخصیت کے ارتقا میں صحبت اور آپ کے حلقہ احباب کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ نئے نئے افکار و خیالات، معلومات اور کامیاب زندگی کے گُر سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اہل علم اور تجربہ کار خواتین کی مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع حاصل کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا حلقہ ایسا ہو جس میں کچھ نہ کچھ خواتین اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل اور رہنمائی کافریضہ انجام دینے کی اہل ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اپنے طور پر طے کیجیے کہ ہفتہ میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ ایسی خواتین کی مجلس میں آپ ضرور شریک ہوں جہاں آپ کو ضروری رہنمائی اور زندگی کے لیے عزم و حوصلہ، امنگیں اور آرزوئیں ملیں۔ عملی ہدایات حاصل ہوں اور زندگی انہیں نافذ کرنے کے طریقے معلوم ہوں۔ اس کے لیے سب سے اہم ہے اجتماعی زندگی سے وابستگی اس لیے خود کو اسلامی اور تحریکی حلقہ سے جوڑئیے اور اس کی سرگرمیوں میں دل جمعی کے ساتھ حصہ لیجیے کیونکہ اجتماعیت بھی شخصی ارتقا کابہترین ذریعہ ہے۔
آخری بات
شخصی ارتقا کے لیے جہاں انسان کی شعوری کوشش اور اپنے کو بہتر بنانے کا شوق جذبہ ضروری ہے وہیں اللہ سے مضبوط تعلق اور دعا بھی ضروری ہے۔ اللہ کے رسول نے ہمیں دعا سکھائی ہے کہ :
اللّٰہم وفقنا لما تحب و ترضیٰ۔
’’اے اللہ! تو ہمیں اس چیز کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا ہے اور جس سے خوش ہوتا ہے۔‘‘
چنانچہ ضروری ہے کہ ہماری بہنیں نیکیوں کے فروغ اور اپنے اندر اچھائیاں اور خوبیاں پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا کرتی رہیں۔ اس لیے کہ منصوبہ بندی کے باوجود اگر اللہ سے توفیق نہ طلب کی جائے تو سارا منصوبہ بے کار ہوگا۔ اور اگر اللہ سے دعا اور تربیت اختیار کی گئی تو منصوبہ پر عمل بھی آسان ہوجائے گا اور ہماری یہ منصوبہ بندی دنیا و آخرت میں ہمارے لیے خیر بن جائے گی۔