’’کھولو! کوئی ہے؟‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’ارے! پہلے کھولو تو۔‘‘
بارش کی وجہ سے میں نے سوال و جواب کرنا مناسب نہ سمجھا اور جھٹ سے جاکر دروازہ کھول دیا۔ سامنے ادھیڑ عمر کی ایک خاتون تھیں۔
باہری دالان میں پڑے تخت پر ہی انہیں بٹھایا پھر دوبارہ عرض کیا: ’’آپ کون ہیں؟‘‘
اس بار سوال کرنے پر انھوں نے لاپرواہی سے چہرے کا پانی صاف کرتے ہوئے بس اتنا ہی کہا۔ ’’امی کو بھیج دو، وہ جانتی ہیں۔‘‘
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ آخر یہ ہیں کون؟جنہیں امی جان جانتی ہیں اور میں نہیں۔ پھر سوچا شاید میری غیر موجودگی میں کبھی آئی ہوں گی۔ فی الحال میں نے امی جان کو اطلاع کردی تو وہ بھی دالان میں آگئی تھیں۔ امی جان کو دیکھتے ہی ان صاحبہ نے سلام کیا اور امی جان نے جواب دیا۔
’’کہو کیسے آنا ہوا؟‘‘
امی جان نے گفتگو آگے بڑھائی۔
’’بس آپا! بیٹی کی شادی کے لیے کچھ رقم چاہیے تھی۔‘‘
’’تم کہیں کام کیوں نہیں کرلیتیں؟‘‘
آپا گھر کے پاس کوئی ایسا نہیں ہے جسے کام والی کی ضرورت ہو اور یہاں تک آج ہی بڑی مشکل سے آئی ہوں تو روز یہاں آنا کیسے ممکن ہے۔ اتنا پیسہ ہی کہاں۔‘‘
امی جان نے مجھے چائے بنانے کا اشارہ کیا تو میں باورچی خانہ میں آگئی۔ مسلسل میرے دماغ پر وہ خاتون چھائی رہیں۔ پتا نہیں ان میں کیا تھا جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ چائے لے کر وہاں دوبارہ پہنچی تو وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’بیٹی کی شادی ہے اور گھر پر کچھ نہیں ہے۔ لڑکے والے جہیز مانگ رہے ہیں۔‘‘ ان کا لہجہ غم زدہ تھا۔ امی جان کے منہ سے بے ساختہ نکلا: ’’لاحول! آج کا زمانہ بڑا ہی خراب ہے، بیٹی کی شادی کرنا بھی پہاڑ کھودنے سے کم نہیں ہے۔ پتا نہیں کتنی ہوس آگئی ہے لوگوں میں کہ اپنے اعمال کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین!‘‘
’’آمین!‘‘ کہتے ہوئے میں نے چائے کا ایک سِپ لیا جس کی گرمی پہلی بار اتنی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔
’’آپا آپ ہماری، غریبی کا حال سنیں گی تو کانپ اٹھیں گی۔‘‘ درد ایک ایک لفظ میں بھرا پڑا تھا۔
’’اچھا یہ بتاؤ کھانا کھایا؟‘‘ امی نے میرے اندر کی تبدیلی محسوس کرلی تھی چوں کہ وہ میری حساس مزاجی سے واقف تھیں، اس لیے پہلو بدلا۔
’’ہاں! کل مل گیا تھا۔‘‘
’’کیا کھایا تھا؟‘‘ امی جان کا سوال معقول تھا۔
’’گھر کے سامنے ایک امیرزادہ آیا اور بڑی سی گاڑی روک کر جب اترا تو نشہ میں دھت تھا۔ کچھ دیر سڑک پر لوٹنے کے بعد اس نے الٹی کردی تو تھوڑے بہت چاول نکلے اسی کو دھوکر ہم ماں بیٹی نے مل بانٹ کر کھالیا تھا۔‘‘ ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
’’اُف خدایا! رحم کر مولا! رحم کر!‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا اور رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
امی جان بھی ایک لمحہ کے لیے باورچی خانہ کی طرف لپکی تھیں ان سے بھی ان کی کیفیت نہ دیکھی گئی۔
امی جان کے جانے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں اور کہا: ’’بیٹا تمہارے پاس کچھ پرانے کپڑے ہوں تو دے دو۔‘‘ دل تڑپ اٹھا فوراً حامی بھری، کھانا کھاکر امی جان کی اجازت سے کپڑے بھی دے دیے اور ساتھ ہی بیٹی کا کھانا بھی باندھ دیا۔ دالان میں امی جان کو خدا حافظ کہہ کر دروازہ کی طرف بڑھ گئی تو میں بھی دروازہ تک چھوڑنے ان کے ساتھ چل دی۔ دروازہ پر پہنچ کر انہوں نے کہا:
’’اے بیٹا اللہ کسی کو ایسی غریبی نہ دے، ہے نہ بیٹا! بولو ہے نہ؟‘‘ میرے پاس کوئی الفاظ نہ تھے۔ وہ خاتون جاچکی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد کتنی ہی دیر میں دروازہ پر کھڑی ان کے سوال کا جواب تلاش کر رہی تھیں۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جہاں امیر زادے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں وہیں ان کے خارج شدہ ٹکڑوں پر پلنے والے بھی کچھ لوگ ہیں، جہاں امیروں کے لیے پیسوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہیں کوئی ایک ایک پیسے کا بھی محتاج ہوتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ کھائے گول گپّے، چاٹ، پیسٹری، کولڈ ڈرنک سب کے سب میرے حلق میں پھنسے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ مجھ سے اگلے وقت کا کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ آخر کار دیر رات تک جاگنے کے بعد میں اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوچ سکی۔
’’واقعی اللہ کسی کو ایسی غریبی نہ دے۔‘‘ll