عالمی یوم خواتین یعنی ۸؍ مارچ خاص طور پر کام کاجی خواتین اور عام طو رپر عورتوں کے نام معنون ہے۔ اس دن دنیا بھر میں عورتوں کے کارناموں ، ان کی کامیابیوں اور ان کی قوت و اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ ان کے امپاورمنٹ کی بات ہوتی ہے۔ انہیں حقوق واختیارات فراہم کرنے کی بحثیں ہوتی ہیں اور اس راہ کی ’رکاوٹوں‘ کو جو خواتین کی ترقی کی راہ کی رکاوٹیں ہیں، دور کرنے کی تدبیریں سوچی اور منصوبے بنائے جاتے ہیں اور حکومتیں ان کی فلاح و بہبود کی اسکیمیں پیش کرتی ہیں۔
دنیا بھر کی خواتین کو ’عالمی یوم خواتین‘ یعنی سال کے 365 دنوں میں سے صرف ایک دن جو ان کا اپنا دن قرار دیا جاتا ہے، مبارک ہو۔ یہ دن اس معاشرے اور اس سماج کی خواتین کے لیے یقینا قابل مبارک باد ہے جہاں ہر گھنٹے ایک عورت کی عصمت لٹ رہی ہو اور جہاں ہر سال 86000 سے زیادہ وہ لڑکیاں جو زندگی کی نئی امنگیں اور امیدیں لے کر ’’پیا کے گھر‘‘ جاتی ہوں، قتل کردی جاتی ہیں۔ اور یہ دن مغرب کی ان خواتین کو بھی مبارک ہو جہاں کل جرائم کا پچاس فیصد یا اس سے زائد یا اس سے کچھ کم وہ جرائم ہوتے ہیں جو صرف خواتین کے خلاف انجام دیے جاتے ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور مہذب خواتین تمہیں ’یوم خواتین‘ تمہارا اپنا دن مبارک ہو۔
ممکن ہے قارئین کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ تو طنز ہے، تنقید اور استہزا ہے! آخر دنیا کی نصف آبادی کو ان کے حقوق دلانے اور ان کے بارے میں بیداری لانے کے لیے ایک دن خاص کردیا گیا تو کیا حرج ہے؟ کوئی یہ بھی سوال کرسکتا ہے کہ کیا اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں؟ سوچ کا ایک انداز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’شر‘ کے اندر ’خیر‘ کے پہلو تلاش کیے جائیں۔ جی ہاں! مگر اس سے زیادہ ضروری اور اہم یہ ہے کہ ’شر‘ کو شر کہا اور ثابت کیا جائے تاکہ دنیا کے سادہ لوح انسان اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ وہ شر کو شر ہی سمجھیں اور خیر نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس لیے شر اور خیر کی اگر تمیز ہی انسان نہ کرسکے تو وہ مردہ ہے خواہ وہ کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا بھی ہو۔
بیسویں صدی میں مغرب سے شروع ہونے والی مساوات مرد و زن کی تحریک اور مرد عورت کو یکساں اور برابر لاکھڑا کرنے کی مہم اب دنیا کے ہر حصہ میں یکساں طور پر مقبول اور فعال ہے۔ اس کے نتیجے میں ’مساوات اور برابری کے نظریے کے سبب‘ فیکٹریوں، دفتروں، کھیل کے میدانوں اور صنعتی و تحقیقی اداروں میں بڑی تعداد میں خواتین نظر آنے لگیں۔ سب سے زیادہ جہاں نظر آتی ہیں وہ ہر کمپنی، ہوٹل اور آفس کا استقبالیہ کاؤنٹر ہے۔ اسی طرح اشتہار کی دنیا صنعتی دنیا کا لازمی حصہ اور ایک بڑا میدان ہے۔ اس میدان میں نظر آنے والی بھی عورت ہی ہے۔ اس دنیا نے عورت کو سب سے زیادہ ’’شہرت و بلندی‘‘ سے ’نوازا‘ ہے۔ اس نے عورت پر کئی دیگر احسانات بھی کیے ہیں، جن میں سب سے بڑا ’احسان‘ اسے لباس کی ’سماجی قید‘ سے بڑی حد تک آزاد کر دیا ہے۔ اس قید سے آزادی نے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ ہونے کے لیے مجبور کردیا۔ اب مہذب ملکوں میں جہاں ’جانوروں‘ کے حقوق بڑی اہمیت رکھتے ہیں ایک عورت لوگوں کو جانوروں پر ظلم نہ کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے خود کو زنجیروں میں جکڑ کر مادر زاد برہنہ حالت میں شہر کے معروف چوراہے پر لے آتی ہے اور میڈیا کے ذریعے وہ عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ اس طرح برہنہ ہوکر لوگوں کو پیغام دیتی ہے کہ لوگ جانوروں کو نہ ستائیں، انہیں ذبح نہ کریں کیوں کہ وہ بھی انسانوں کی طرح جاندار ہیں۔ لوگوں کو پیغام دینا اس ’پرکشش‘ انداز میں صرف جدید تہذیب ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔ پرانی تہذیبیں اور سماج تو اسے برا تصور کرتے تھے۔
امریکہ، برطانیہ اور یوروپ کے ممالک ہی کی بات نہیں اب تو تیسری دنیا کے ممالک میں بھی خواتین کوبااختیار بنانے، ان کو حقوق دیے جانے اور انہیں برابری کا درجہ دلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ ان کوششوں کا حصہ حکومتیں بھی ہیں جہاں ’عورت دوست‘ قوانین آئے دن بنائے جا رہے ہیں۔ سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں نوکریوں میں ان کا تناسب مقرر و متعین ہو رہا ہے یہاں تک کہ قانون ساز اداروں اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بھی ان کے لیے حصہ مختص کرنے کی بات زور و شور سے جاری ہے۔
دوسری طرف ان تمام آزادیوں، مساوات اور عورت دوست قوانین کے باوجود پوری دنیا میں ان کے خلاف جرائم کا سیلاب ہر روز نئی شدت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایک طرف جرائم کے سیلاب کا تیز و تند حملہ ہے دوسری طرف خاندانی زندگی کو شدید قسم کا خطرہ بلکہ بحران درپیش ہے۔ وجہ صاف ہے۔ عورت گھر سے نکلی تو بازار کی زینت بنی۔ اب وہ ایک فرد سے زیادہ ایک جنس (Commodity) بن گئی جہاں اس کی قیمت لگتی ہے اور جب قیمت لگنے لگی تو کم کیا اور زیادہ کیا۔ جس کی جو بساط ٹہری وہی اس کا حق بھی۔ آج عورت وہ سب کرتی ہے اور کرسکتی ہے جو مرد کرتا اور کرسکتا ہے۔ مگر مرد وہ نہیں کرسکتا جو عورت کرتی ہے یا عورت ہی کرتی ہے۔ وہ فیکٹری میں، دفتر میں، ہوٹلوں اور بازاروں میں کام کرتا ہے عورت بھی کرتی ہے۔ وہ اسپورٹس میں حصہ لیتا ہے تو اب کوئی کھیل ایسا نہیں جس میں خواتین کی ٹیمیں نہ ہوں۔ ہاں مرد پیچھے رہ گیا۔ عورت نے تو وہ سب کر دکھایا مگر مرد وہ نہ کرسکا جو صرف عورت کرسکتی ہے۔ وہ ہے خاندان کی تشکیل اور بچے پیدا کرنا۔ اس طرح مرد کے نہ صرف عورت برابر آگئی بلکہ اس سے آگے نکل گئی۔ اتنی ترقی اور آگے آنے کے باوجود بھی وہ مظلوم ہے۔ ستائی جاتی ہے، ظلم و جبر کا شکار ہے اور زندگی سے عاجز بھی۔ اس ترقی نے گنتی کی خواتین کو ترقی دے دی۔ کچھ سرکاری اور تجارتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئیں کچھ بے روز گاروں کو روزگار اور نوکریاں مل گئیں مگر پوری نصف انسانیت کو ملا وہ مجرمانہ ذہنیت کا معاشرہ جس کو وہ پوری دنیا میں تنہا جھیل رہی ہیں۔
خواتین کے خلاف جرائم تو اسی وقت سے رہے ہیں جب سے انسانیت نے جنم لیا ہے، مگر موجودہ ترقی یافتہ معاشرے میں جو حالت اس وقت ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ اس وقت ہر ہندوستانی شہری خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم پر پریشانی اور تشویش میں مبتلا ہے۔ مگر ہندستانیوں کے لیے ’خوشی‘ کی بات ہے کہ ان کا ملک ابھی خواتین کے خلاف جرائم میں ’بہت پیچھے‘ ہے۔ تو پھر مطمئن رہیں ابھی آپ بہت امن میں ہیں اور دوسرے آپ سے بہت زیادہ آگے ہیں۔ ہاں ہم جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منزل یقینا وہی ہے جہاں دوسرے پہنچ چکے۔ ذرا خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے ریکارڈ اور اعداد و شمار دیکھئے اور تصور کیجیے کہ ہمیں جانے ان جانے میں کس جہنم کی طرف موجودہ تہذیب و ثقافت لے کر جا رہے ہیں۔
جنسی جرائم کا ریکارڈ
ناروے 68.00 فیصد
ڈنمارک 50.8فیصد
فرانس 57.1 فیصد
جرمنی 63.4 فیصد
اسپین 17.5فیصد
سویڈن 98.0فیصد
بلغاریہ 11.9فیصد
جاپان 7.6فیصد
ارجنٹینا 7.6 فیصد
ہندوستان 6.0 فیصد صرف
برطانیہ یوروپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کی آزادی، جمہوریت اور امن و قانون کی صورت حال مثالی تصور کی جاتی ہے۔ یہ وہی برطانیہ ہے جس کے ہم ۱۹۴۷ء تک غلام تھے اور اس کا دور تھا جب اس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یہاں اسی سال جنوری میں شائع ہونے والی حکومت کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ یہاں ہر بیس عورتوں میں سے ایک عورت ایسی ہے جو ساٹھ سال کو پہنچنے سے پہلے پہلے شدید قسم کے جنسی تشدد اور جنسی حملہ کا شکار ہوتی ہے۔ روز نامہ ٹائمز میں شائع وزارت انصاف و وزارت داخلہ کی مشترکہ رپورٹ کو اخبارات نے (Heden Apedemic) مخفی وبا کا نام دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں ۱۶ سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں رضامندی سے جنسی تعلقات بنانے کے لیے آزاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر سال 95 ہزار خواتین ہر سال جنسی جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی اعتراف ہے کہ جو واقعات ہوتے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد ہی رپورٹ ہوپاتے ہیں۔ اب اس مثالی معاشرے میں جرم و سزا کی کیفیت یہ ہے کہ ان95 ہزار میں سے صرف 87 ہزار کے خلاف جنسی جرم کا مقدمہ درج ہوتا ہے اور صرف ایک ہزار لوگوں ہی کو سزا ہوپاتی ہے۔
یہ امریکہ ہے پوری دنیا پر غیر اعلانیہ حکومت رکھنے والا ملک۔ یہاں 2008 کے اعدادو شمار کے مطابق 95 ہزار زنا بالجبر (Rape) کے واقعات پیش آئے اور ان میں صرف 25 فیصد ہی گرفتاریاں ہوسکیں۔ ان میں کتنے لوگ مجرم گردانے گئے اس کے بارے میں اعدادو شمار خاموش ہیں۔ ہاں امریکی بیورو برائے انصاف (US Bureo & Justice) بتاتا ہے کہ امریکہ میں واقع ہونے والے جنسی جرائم میں متاثر ہونے والی 91 فیصد خواتین ہوتی ہیں جب کہ صرف 9 فیصد مرد ہوتے ہیں۔ اور 99 فیصد واقعات میں زانی بھی مرد ہی ہوتے ہیں۔ 2007 میں ایک سمپل سروے میں جو وزارت انصاف نے کرایا تھا، یایا کہ کل جرائم میں 18 فیصد جرائم زنا بالجبر کے ہیں۔ مذکورہ شعبہ نے تسلیم کیا کہ زنا بالجبر اور جنسی جرائم میں سب سے زیادہ اہم رول شراب اور نشہ کا ہے اس کے بعد عریانیت کی تبلیغ کرنے والی ویب سائٹوں کا نمبر آتا ہے۔ واضح رہے کہ جنسی جرائم میں دو لاکھ سے زیادہ بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں کی دس ریاستوں میں کل 29622 افراد ایسے ہیں جو حکومتی ریکارڈ میں (Registered Rapist) یعنی حکومت کی نظر میں ہیں اور حکومت ان کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھتی ہے۔
آپ پریشان ہیں اور پورا ملک پریشان ہے۔ ہر شہری تصور کرتا ہے کہ گزشتہ دنوں دہلی گینگ رپ کے بعد تو جیسے پورے ملک میں اس قسم کے واقعات کا سیلاب آگیا ہے مگر دیکھئے! سوچئے! اہل ہندوستان محض 6 فیصد جرائم پر اتنے پریشان ہیں۔ ذرا سوچئے ان ملکوں کے بارے میں جہاں 98 فیصد جرائم جنسی جرائم ہیں اور خواتین کے خلاف ہیں۔ ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘‘ جب کہ ہندوستان میں ’’محض‘‘ ۶۸۱۸ عورتیں (ہی تو) جہیز کے لیے جلائی جاتی ہیں اور صرف ۲۴۲۰۶ عورتیں (ہی تو) زنا کا شکار ہوتی ہیں۔ (۲۰۱۱ کے اعدادو شمار)۔
اب ذرا اس آزادی اور مساوات کی کرم فرمائی خاندانی نظام پر بھی ملاحظہ کیجیے۔ جو جتنا ترقی یافتہ ہے طلاق میں بھی اتنا ہی آگے نظر آتا ہے:
امریکہ 54.8 فیصد
روس 43.3 فیصد
اسرائیل 14.8 فیصد
سنگا پور 17.2 فیصد
جرمنی 39.4فیصد
سویڈن 54.9 فیصد
جاپان 1.9 فیصد
ہندوستان 1.1 فیصد صرف
یہ صورت حال ہر ہندوستانی اور ہر مسلمان کے لیے پریشانی اور تشویش کا سبب ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ ہم بھی اسی ملک اور اسی سماج کا حصہ ہیں اور اس لیے بھی کہ ہمیں اس سیلاب کے خلاف بند باندھنا اور اپنے گھروں اور خاندانوں کو اس طوفان بلا خیز سے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوط حصار قائم کرنا ہے۔ اگر ہم نے اس کی فکر نہ کی تو یہ کشتی ڈوب جائے گی اور ساتھ ہی ہم بھی۔
ہم مسلمان اور داعی امت ہیں ہمارے پاس مسائل کا حل اور متبادل نظام ہے۔ ہمارے پاس دوا ہے اور مریض تڑپ رہا ہے۔ کیا ہمارا ضمیر ابھی تک ہمیں حرکت کرنے پر آمادہ نہیں کرتا؟ پھر یا تو ہم بے ہوش ہیں یا مر گئے ہیں۔ پھر زندگی اور ہوش مندی کا ثبوت کہاں سے آئے؟؟lll