مکے کا سردار ابو سفیان بن حرب یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قبیلۂ قریش کا کوئی فرد کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے میں اس کے حکم سے سرتابی کرسکتا ہے کیوں کہ وہ مکہ کا لیڈر اور بااثر سردار تھا۔ لیکن اس کی بیٹی رملہ نے جو اپنی کنیت ام حبیبہ سے مشہور ہیں، ان کے معبودانِ باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر کے ان کے اس زعم پر ضرب کاری لگائی اور اپنے شوہر عبد اللہ بن جحش کے ساتھ خدائے واحد کی الوہیت اور محمد عربیﷺ کی رسالت پر ایمان لاکر کفار و مشرکین کی ان ناپاک سرگرمیوں کو چیلنج کیا جن کے ذریعے انہوں نے نہتے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ابو سفیان نے ان دونوں کو کفر کی طرف لوٹانے کی بھرپور کوشش کی اس کے لیے اس نے اپنے رعب و دبدبہ کا بھی سہارا لیا لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، رملہ کے ایمانی شجر کو جس کی جڑیں ان کے دل میں گہرائیوں میں بیٹھ چکی تھیں، ابو سفیان کی سازشوں کی تیز و تند آندھی اکھاڑ نہ سکی۔ اور نہ ہی ابو سفیان کے غیظ و غضب اور رعب و دبدبہ کا کچھ بس چلا۔
ابو سفیان کو رملہ کے ایمان لانے سے بہت فکر لاحق ہوئی اس کو خیال ہوا کہ اگر میں اپنی بیٹی کو اپنی مرضی پر نہ چلا سکا اور محمدؐ کے دین سے اسے باز نہ رکھا تو میں قریش کو کیا منہ دکھاؤں گا اور دوسرے لوگوں کے دین میں مزاحم بننے کا مجھے کیا حق پہنچتا ہے؟
جب کفار قریش نے یہ بھانپ لیا کہ ابو سفیان کا غصہ اپنی بیٹی اور اپنے داماد پر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے تو ان بدبختوں نے بھی ان دونوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا اور انھیں ایسی ایسی المناک اذیتیں دیں کہ مکہ میں ان کی زندگی دو بھر ہوگئی۔
جب حضوراکرمﷺ نے مصائب سے دوچار ستم رسیدہ مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو رملہ اپنے شوہر اور اپنی چھوٹی بچی حبیبہ کے ساتھ اللہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کے پہلے قافلے میں تھیں۔
ابو سفیان بن حرب اور معبودانِ باطل کے دوسرے پرستار یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ وہ کمزور مسلمان جن پر رات دن مظالم کے پہاڑ ڈھاکر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالا کرتے تھے ان کے ظالمانہ پنجوں سے چھوٹ کر ملک حبشہ میں آرام کی نیند سوئیں۔
چنانچہ انہوں نے اپنے قاصد کو ان کے پیچھے دوڑایا اور بھونڈے قسم کے الزامات لگا کر نجاشی کو مہاجرین کے خلاف بھڑکانے کی پوری کوشش کی، مزید انہوں نے اپنے قاصد کے ذریعہ نجاشی کو کہلوایا کہ یہ لوگ حضرت مسیح اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق غلط عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور انہیں واپس کردینے کا مطالبہ کیا۔
نیک دل بادشاہ نجاشی نے مہاجرین کے امیر کو بلوا کر انھیں دین اسلام کے بارے میں بتانے اور حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے والدہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہا رکرنے کا حکم دیا اور قرآن پاک کی چند آیتیں سنانے کو کہا۔ جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت اچھی طرح پیش کی گئیں اور ان کو قرآن پاک کی آیات پڑھ کر سنائی گئیں تو نجاشی کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور پھر انھوں نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا ’’یہ قرآن جو ہمارے نبیﷺ پر نازل ہوا ہے، وہ روشن ہدایت ہے، جو عیسیٰؑ بن مریم لے کر آئے تھے، دونوں ایک ہی چراغ کی روشنیاں ہیں اور ان دونوں کا منبع ایک ہی ہے۔‘‘
پھر انھوں نے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور اپنے پادریوں کے دین اسلام کو قبول کرنے سے شدید انکار کے باوجود مہاجرین کی حمایت کا اعلان کیا اور کفار مکہ کے ایجنٹوں کو دھتکار کر اپنے دربار سے نکال دیا۔
دوسرے مہاجرین کی طرح ام حبیبہؓ نے بھی اطمینان کا سانس لیا انہیں خیال ہوا کہ شاید اب مسلسل کٹھنائیوں کے بعد آرام کی زندگی نصیب ہوگی اور مستقبل ابتلاء و آزمائش کے بعد شاید اب چین و سکون کی سرسبز وادی ہی ہمارا مقدر ہوگی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی قسمت میں کیا مقدر ہوچکا ہے۔
ایک رات جب ام حبیبہؓ نے خواب دیکھا کہ ان کے شوہر عبد اللہ بن جحش ایک گہرے اور تیرہ و تاریک سمندر میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا برا حال ہے۔
وہ اپنے بستر پر مارے خوف و دہشت کے اٹھ بیٹھیں اور اس ڈراؤنے خواب کو کسی سے بیان کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ کچھ ہی دیر بعد ان کا یہ خواب اپنی حقیقی تعبیر کو پہنچ گیا۔ وہ رات جس میں انہوں نے خواب دیکھا تھا، اس کا دن گزرنے بھی نہ پایا تھا کہ ان کے شوہر نے نصرانیت قبول کرلی۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ شراب و کباب میں مست رہنے لگے۔ شوہر کی طرف سے ام حبیبہؓ کو دوباتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا یا تو طلاق لے لو یا پھر نصرانیت قبول کرلو۔
اب پیکر رنج و الم ام حبیبہ کے سامنے تین راستے تھے، یا تو نصرانیت قبول کر کے اپنے شرابی شوہر کے ساتھ زندگی کے ایام گزاریں اور یہ بات طے تھی کہ وہ دین اسلام سے مرتد ہوکر دنیا و آخرت کی رسوائی مول لینے کو ہرگز تیا رنہ تھیں۔ یا پھر اپنے باپ کے گھر میں پناہ لے کر جو ابھی تک کفر و شرک کا قلعہ تھا ذلت و مصیبت کی زندگی گزارتیں یا پھر سرزمین حبشہ میں وطن و خاندان سے دور بے یار و مددگار زندگی کے لمحات بسر کریں۔
انھوں نے خود کو اسی تیسرے راستہ پر ڈال دیا ، جس میں خدا اور اس کے رسولؐ کی خوش نودی پنہاں تھی اور سرزمین حبشہ میں اس وقت تک رہنے کا عزم مصمم کیا جب تک کہ خدائے پاک اس مصیبت سے نجات نہ دلادے۔
ام حبیبہؓ کو زندگی کی تلخیوں میں نصرت خدا وندی کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، ان کے شوہر مرتد ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد موت کا شکار ہوگئے۔ ان کی عدت کے ایام جیسے ہی ختم ہوئے اللہ نے انھیں اس مصیبت سے نجات دی اور اس گھر میں جس پر تھوڑی دیر پہلے حزن و ملال کی فضا چھائی ہوئی تھی مسرت و شادمانی آگئی۔
ایک دن ان کے دروازہ پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے شاہ حبشہ نجاشی کی خادمہ کھڑی تھی، خادمہ نے ادب و احترام سے سالام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ پھر کہنے لگی۔
’’بادشاہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ خوش خبری بھیجی ہے کہ محمدﷺ نے آپ کے پاس ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے اس عقد کے لیے بادشاہ کو اپنا وکیل بنایا ہے آپ بھی جس کو چاہیں اپنا وکیل مقرر کردیں۔
اس غیر معمولی خوش خبری کو سن کر حضرت ام حبیبہؓ اچھل پڑیں ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلکنے لگے۔ خوشی میں انہوں نے اپنے تمام زیورات جو اس وقت ان کے بدن پر تھے اتار کر باندی کو دے دیے۔ اس وقت اگر وہ دنیا جہان کے خزانے کی مالک ہوتیں تو خوشی میں سب اسے دے دیتیں۔ پھر ام حبیبہ نے یہ کہہ کر باندی (ابرہہ) کو خوشی خوشی واپس کیا کہ میں اپنے وکیل کی حیثیت سے خالد بن سعید کو جو میرے قریبی عزیز ہیں نامزد کرتی ہوں۔
دوسرے دن نجاشی کے خوبصورت اور بارونق محل میں جس کے ارد گرد درختوں کی قطاریں تھیں اور جس کا شمار حبشہ کے خوبصورت مقامات میں ہوتا تھا، اس کے وسیع ہال میں جس کے درو دیوار کو خوبصورت نقش و نگار سے آراستہ کیا گیا تھا۔ ہر طرف قمقمے روشن کیے گئے تھے اور عمدہ قسم کی قالینیں بچھائی گئی تھیں، مہاجرین میں سے چیدہ چیدہ اصحابِ رسول جمع ہوئے، ان میں جعفر بن ابی طالب، خالد بن سعید اور عبد اللہ بن حذافہ سہمی پیش پیش تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی دوسرے اصحاب رسول حضور اکرمﷺ کے عقد نکاح کی اس مبارک تقریب میں شرکت کے لیے جمع ہوئے۔
تمام لوگوں کے آجانے کے بعد نجاشی نے میر مجلس کی حیثیت سے نکاح کا خطبہ اس طرح پڑھا۔
’’خدا کی پاک ذات کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمدؐ اس کے بندے اور رسولؐ ہیں۔ محمدﷺ وہی نبی، موعود ہیں، جس کی حضرت عیسیٰؑ نے خوش خبری دی ہے۔‘‘ اما بعد!
رسول اللہﷺ نے ام حبیبہ سے اپنے اس مبارک نکاح کے لیے مجھے وکیل بنایا ہے میں نے اپنا فرض پورا کیا اور آپؐ کی طرف سے چار سو دینار مہر مقرر کیا۔ پھر انھوں نے تمام دینار خالد بن سعید کے سامنے رکھ دیے۔
اس کے بعد حضرت خالد بن سعید کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’میں نے اپنی موکلہ ام حبیبہ بن ابو سفیان کو حضورﷺ کے نکاح میں دیا۔ خدا سے دعا ہے کہ اللہ آں حضرتﷺ اور ام حبیبہ کے اس نکاح میں برکت عطا فرمائے، میں ام حبیبہ کو ان کی خوش قسمتی پر مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘
پھر مہر کی اشرفیاں لے کر حضرت ام حبیبہ کے پاس جانے کے ارادہ سے کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ تمام اصحابِ رسول بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کے ارادہ سے کھڑے ہی ہوئے تھے کہ نجاشی نے ان سے کہا۔
’’تم لوگ بیٹھ جاؤ کیوں کہ نکاح کے بعد لوگوں کی ضیافت کرنا انبیاء کی سنت ہے۔‘‘ چناں چہ کھانا منگوایا گیا پھر سب لوگ کھانا کھاکر اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔
ام حبیبہؓ نے اس موقعے پر اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔ جب مہر کی پوری رقم مجھے مل گئی تو میں نے اس میں سے پچاس مثقال سونا اس مبارک خوش خبری لانے کے صلہ میں نجاشی کی باندی کے یہاں بھجوا دیا اور کہلوایا کہ جس دن تم نے مجھے خوش خبردی دی تھی اس وقت میرے پاس مال نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد باندی آئی اور تمام سونا مجھ کو واپس کر کے اس نے ایک پیکٹ بھی نکالا جس میں عطر کے ساتھ ساتھ وہ تمام زیورات تھے جو میں نے پہلے دن ان کو دیے تھے اس نے یہ کہہ کر مجھے واپس کردیے کہ بادشاہ نے مجھ کو آپ کی کوئی بھی چیز لینے سے سختی سے منع کیا ہے اور عورتوں کو کہا ہے کہ جتنا عطر ان کے پاس ہو سب آپ کو بھیج دیا جائے۔
دوسرے دن وہ بہت سارے قسم قسم کے عطر لے کر آئی اور کہا: ’’مجھے آپ سے ایک کام ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’آخر وہ کون سا کام ہے؟‘‘ اس نے کہا۔ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد عربی کی ہدایت پر ایمان لاچکی ہوں پیارے نبیﷺکو میرا سلام کہنا اور ان کو یہ بتانا نہ بھولنا کہ میں اسلام لاچکی ہوں۔‘‘
پھر اس نے مکہ جانے کے لیے میرا زاد سفر تیار کیا۔ رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے آپؐ کو نکاح کی تقریب کی تمام روداد، باندی کے ساتھ اپنی عنایات کی داستان اور نجاشی کا ردعمل سب باتوں سے مطلع کیا اور پھر باندی (ابرہہ) کے اسلام کی خوش خبری سنا کر آپ کی خدمت میں اس کا ہدیہ سلام پیش کیا۔ آپ سن کر بہت خوش ہوئے آپؐ نے فرمایا: وعلیہا السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔‘‘ll