ہمدردی، تعاون، دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے اور اس سے آگے اس کے لیے سینہ سپر ہوجانے اور جان دے دینے کے لیے انسانی لغت میں اگر کسی رشتے کا حوالہ دیا جاسکتا ہے تو وہ بھائی کا رشتہ ہے۔ اللہ کے آخری دین، اسلام کی نجات دہندہ تحریک نے بھی اس رشتے کو اہمیت و عظمت کے اسی مقام پر رکھا ہے اور تاریخ میں اس کے فداکاروں نے اس کی یہ عظمت اور حیثیت تسلیم کی ہے۔
قرآن و حدیث میں جو مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے، اس کی روشنی میں ان کے باہمی رشتے کی گہرائی اور قربت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان جو ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات:۱۰)
نبی ﷺ نے اپنی متعدد احادیث میں اس رشتے کے تقاضوں کی تفصیل بتائی ہے، جسے بجا طور پر آیت کریمہ کی تفسیر قرار دیا جاسکتا ہے:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے۔ اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا، اللہ اس کے کام آئے گا۔ اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو رفع کرے گا، اللہ قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف کو رفع کرے گا۔ اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا۔ اللہ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔‘‘
نیز یہ کہ ’’آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے سے بے رحمی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خرید و فروخت نہ کرو۔ اس کے بجائے آپس میں اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ اللہ کا ڈر یہاں ہوتا ہے، ایسا کہتے ہوئے آپﷺنے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری نگاہ سے دیکھے۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور اس کی عزت و آبرو حرام ہے۔‘‘
جامع ترمذی کی روایت میں اس پر اضافہ ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس سے خیانت کرتا ہے نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے، نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ ہر مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو، اس کا مال اور اس کی جان حرام ہے۔ اللہ کا ڈر یہاں (سینے میں) ہوتا ہے۔ آدمی کے برا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری نگاہ سے دیکھے۔‘‘
دوسری حدیث میں آپؐ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے مطلوبہ رشتے اور تعلق کو اس طرح واضح فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی مانند ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسرے کو باندھے ہوتی ہے۔ پھر (اس کو سمجھانے کے لیے) آپؐ نے اپنی انگلیوں کو بھینچ کر دکھایا۔ ’’مسلمان مسلمان کے لیے آئینہ ہوتا ہے اور مسلمان، مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ اس کو اس کے نقصان سے بچاتا ہے اور اس کا پشت پناہ ہوتا ہے۔‘‘
آخر میں یہاں تک فرمایا کہ:
’’تم میں کوئی شخص ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے، جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
بھائی چارے کے اس رشتے سے مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کا جو حق قائم ہوتا ہے، اس کی تفصیل میں اللہ کے آخری رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: ’’سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے پیچھے چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک آنے پر اس کو ’’یرحمک اللہ‘‘ کہنا (جب کہ وہ خود اس پر الحمد للہ کہے۔‘‘
دوسری حدیث میں اس پر اضافہ ہے:
’’مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کو قبول کرو، اور جب وہ تم سے نصیحت کا طلب گار ہو تو اس کو نصیحت کرو، اور جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو تم (اس کے جواب میں) یرحمک اللہ کہو، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلو۔‘‘
اس سلسلے میں آپﷺ کے یہ ارشادات بھی قابل توجہ ہیں:
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے۔ تو جو کوئی اس کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے اور اس دوران اس کو موت آجائے تو وہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘
نیز یہ کہ : ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے۔ تو اگر تین دن گزر جائیں تو چاہیے کہ وہ اس سے ملاقات کے لیے جائے اور اسے سلام کرے۔ اگر وہ اس کو جواب دے تو ثواب میں یہ دونوں شریک ہوں گے، لیکن وہ اس کو جواب نہ دے تو تنہا گناہ گار ہوگا اور سلام کرنے والا ترکِ تعلق کے گناہ سے باہر نکل آئے گا۔‘‘
قرآن شریف میں ’’بھائی‘‘ کے علاوہ مسلمانوں کے آپس کے رشتے کے بیان میں دو تعبیرات اور آئی ہیں: ’’محمد اللہ کے رسول ہیں او رجو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحمت و محبت کے پتلے ہیں۔‘‘
نیز یہ کہ: ’’مسلمان مسلمانوں کے لیے نرم ہوتے ہیں۔‘‘ (المائدۃ:۵۴)
نبیﷺکی احادیث ان آیات کی تفسیر کہی جاسکتی ہیں: ’’سارے مسلمان ایک آدمی کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘
نیز یہ کہ: ’’تم مسلمانوں کو دیکھوگے کہ وہ آپس میں رحمت و محبت اور دوستی اور لگاؤ میں ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘
یقینا جو معاشرہ اخوت اور محبت کے اس رشتے میں بندھا ہوا ہو اس کے افراد کبھی اجنبیت اور غیریت کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوسکتے اور اس کے یہاں سے بے رحمی اور بے مروتی کے شکوے کی آواز نہیں آسکتی۔ll