جب معاشرے میں ہر طرف مایوسی چھا جائے اور لوگ تذبذب کا شکا رہوں تو ان حالات میں جہاں مختلف طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس معاشرے کے لوگوں کو مایوسی سے نکالنے کے لیے ایک ایسی سوچ پیدا کی جاتی ہے جو انہیں مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی دکھائے۔ یہ کام سیاست داں، حکمراں، اساتذہ، علماء اور معاشرے کے دیگر کردار انجام دے سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں انہیں موٹیویشنل اسپیکر کہا جاتا ہے اور حقیقت میں اس وقت بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں اور انہیں کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ایسا فرد خاص انداز اور پرمغز گفتگو سے لوگوں کو حوصلہ دیتا اور موٹیویٹ کرتا ہے تاکہ لوگ اپنی خدادا صلاحیتوںکو برائے کار لاتے ہوئے ایسا بہترین اور تعمیری کردار ادا کرسکیں جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ اس معاشرے،قوم، ملک غرض کہ پوری دنیا پر اچھے اثراب مرتب کرے۔
آج دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے ان میں ہر شخص مایوسی اور پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔ وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں غریب آدمی اپنی غربت سے پریشان ہے اور مالدار اپنی دولت کے مسائل سے جوجھ رہا ہے۔ ہر چوتھا آدمی ڈپریشن اور ذہنی بیماری کا شکار ہے عام آدمی سے لے کر اعلیٰ ایوانوں میں موجود اشرافیہ دولت مند اور صنعت کار تک۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اسباب کی اس دنیا میں موجود ہے، وہ مکمل طو رپرخوش نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مکمل پرسکون ہو سکتا ہے سوائے ان نیکو کار ہستیوں کے جو یہ سمجھتی ہیں کہ اللہ جس حال میں رکھے وہ خوش ہیں۔ یہ تو بات ہے اللہ پہ توکل کرنے والوں کی لیکن جن کا توکل اس قدر قوی نہیں وہ کیا کریں؟ ایسے ہی افراد اصلا مایوسی کا شکار ہوکر معطل ہو جاتے ہیں اور انہیں موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
موٹیویشن انگریزی زبان کا لفظ ہے اس لیے بعض لوگوں کو ایسا گمان ہوتا ہے کہ موٹیویشن کا کام بھی شاید انگریزوں نے ہی شروع کیا ہے۔ در حقیقت ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی زبردست موٹیویشن کا ذریعہ ہے۔ قرآن جگہ جگہ انسانوں کو آگے بڑھنے اور نیکی کے معاملے میں بھی مقابلہ کرنے کا زبردست حوصلہ دیتا ہے۔ و سارعُوا اِلٰی مغفرۃ من ربکم و جنۃ۔
ترجمہ: ’’لوگودوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طر اور اس جنت کی طرف جن کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے ایک تمثیل پیش کی۔ آپ نے کہا کہ تم میں سے کسی کا گھر دریا کے کنارے ہو۔ اس میں صاف و شفاف پانی بہتا ہو اور تم روزانہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتے ہو تو کیا جسم پر میل باقی رہ سکتا ہے، لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صاف ستھرے پانی میں پانچ بار روزانہ نہانے والے کے جسم پر میل کیسے رہ سکتا ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بس پنج وقتہ نماز پڑھنے والے آدمی کا حال بھی بالکل ویسا ہی ہے کہ وہ گناہ کی گندگی سے بالکل پاک و صاف رہتا ہے۔ کتنا زبردست موٹیویشن اور تحریک ہے نیکیاں کرنے کی جو ہمیں دین میں ملتی ہے۔
ایک شخص نے ساری زندگی گناہوں اور جرائم میں گزار دی۔ وہ شخص گناہوں اور اپنے جرائم سے اکتا جاتا ہے کہ کیا کرے۔ خود کشی کرلے کہ اس جرائم کی زندگی سے تو موت بہتر ہے یا اس کے لیے کوئی اور راستہ ہے جو ایسے زندہ دلی کے ساتھ زندہ رہنے کی تحریک دے سکتا ہے جی ہاں! اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اے لوگو! اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرو خالص توبہ اور ایسی توبہ جیسا کہ توبہ کا حق ہے!!
گناہوں سے لدا ہوا وہ انسان جو کبھی جنت کے حصول کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اسے مایوسی سے بچانے کے لیے ’’توبہ‘‘ کی صورت میں امید کی کرن فراہم کر دی گئی کہ اللہ معاف فرمانے والا ہے۔‘‘ یہ نیکی کی طرف لوٹ آنے کے لیے موٹیویشن ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو زمین پر لیٹا تھا اور ریت سے اپنا ستر ڈھانپ رکھا تھا۔ اس نے آپ سے درخوست کی کہ اللہ سے میری حالت کے بارے میں بات کیجیے گا۔ آپ اللہ سے ہم کلام ہوئے۔ واپسی پہ اس شخص کو پیغام دیا کہ اللہ نے جو عطا کیا ہے اس پر صابر و شاکر رہو۔ وہ شخص طیش میں آگیا اور بولا کہ اللہ نے مجھے دیا ہی کیا ہے؟ اسی اثناء میں تیز ہوا چلی اور وہ ریت اپنے ساتھ اڑا کر لے گئی جس سے اس نے اپنا ستر ڈھانپ رکھا تھا۔ یہ ریت اس شخص کے لیے نعمت تھی مگر اسے اس کا ادراک ہی نہ تھا۔ ہماری پریشانیوں کی بھی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمیںعلم ہی نہیں، اللہ نے ہمیں کیا کچھ عطا کیا ہے۔
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور سوانح حیات دیکھیں تو پائیں گے کہ وہاں زبردست تحریک اور حوصلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کو موٹیویٹ کیا، انہیں مسائل سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ بتایا، یہی وجہ تھی کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ ایک غزوہ کے دوران مجاہدین نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے دو پتھر دکھائے۔ موٹیویشن تھی، جس کے بعد سب نے دوبارہ اپنا کام سنبھال لیا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی محض گفتار کے ذریعے لوگوں کو موٹیویٹ کرنے یا انہیں تحریک دینے کا ذریعہ نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملاً لوگوں کے لیے آگے بڑھے اور خود کو متحرک کرنے کا ذریعہ بن جاتی تھی۔
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں دو چھوٹے بچے تھے، جن کی دوستی انتہائی گہری تھی۔ ایک کی عمر تقریباً چھ سال جب کہ دوسرے کی دس برس کے قریب تھی۔ دونوں ایک دن کھیلتے کھیلتے گاؤں سے باہر دور نکل گئے۔ راستے میں ایک کنواں پڑتا تھا۔ اس کنوئیں میں دس برس کا بچہ گر گیا۔ چھ برس کے بچے نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، خوب چلایا مگر کوئی بھی مدد کو نہ آیا کیوں کہ آس پاس کوئی موجود ہی نہیں تھا۔ دونوں دوست بھی گہرے تھے، جب کچھ نہ سوجھی تو اس بچے نے کنوئیں سے پانی بھرنے کے لیے وہاں موجود بالٹی کو رسی کے ذریعے لٹکایا اور اپنے دوست کو اسے پکڑنے کو کہا اور پھر اس چھ برس کے بچے نے انتہائی محنت کے ساتھ دس برس کے بچے کو رسی کے ذریعے باہر نکال لیا جو حیران کن تھا۔
دونوں گاؤں واپس پہنچے اور گاؤں والوں کو یہ قصہ سنایا۔ کسی نے بھی اس پر یقین نہ کیا مگر اس گاؤں میں موجود سب سے عمر رسیدہ بزرگ نے ان پر یقین کرلیا۔ گاؤں والے ان کے پاس پہنچے۔ بابا! آپ نے ان بچوں کی بات پر کیسے یقین کرلیا؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ چھ برس کا بچہ دس برس کے بچے کا وزن اٹھالے اور اسے کنوئیں سے باہر نکال دے؟ بابا جی نے کہا کہ یہ بچے بالکل درست کہہ رہے ہیں کیوں کہ اس وقت وہاں دور دور تک اس چھ برس کے بچے کو یہ بتانے والا کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا کہ ’’تم یہ کام نہیں کرسکتے۔‘‘ لہٰذا اس نے اپنے سے بڑی عمر کے بچے کو کنوئیں سے باہر نکال لیا۔
موٹیویشن انسان کے اندر ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اللہ نے سب کو عطا کی ہے، لیکن ہم زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے اپنی اس صلاحیت کو دبا دیتے ہیں۔ موٹیویشنل اسپیکر کسی بھی مایوس شخص کے اندر موجود اس کی زنگ آلود صلاحیت کو صاف کرتا ہے، اس شخص کو مشکلات کا مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے اور یہ حوصلہ اس کے اند رپہلے سے ہی موجود ہوتا ہے لیکن اسے اس کا ادراک نہیں ہوتا۔lll